• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے دس سال ہو گئے کراچی آرٹس کونسل کی عالمی کانفرنس کو۔ یوں تو دس سال کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوتا لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس قسم کی تقریب چند سال بعد ہی اپنی کشش اور اپنی توانائی کھو دیتی ہے۔ اور اس میں سستی اور کاہلی اپنے ڈیرے ڈالنے لگتی ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سستی اور کاہلی تو دور کی بات ہے اس کانفرنس کی توانائیوں میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ حیرت ہوتی ہے احمد شاہ پر؟ یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا ہے؟ کیسی کیسی مخالفتیں اور سازشیں نہیں ہوئیں اس شخص کے خلاف۔ اور کیسے کیسے طعنے اسے نہیں سننے پڑے لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ کراچی کے گلی کوچوں میں جب خوف و ہراس ننگا ناچ رہا تھا اس وقت بھی پورے زور شور سے یہ کانفرنس ہو رہی تھی، اور آج جب اس شہر میں امن و سکون نظر آتا ہے تو اس وقت بھی یہ کانفرنس ہو رہی ہے۔ اور پہلے سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ عالمی سطح پر ہو رہی ہے۔ پہلے یہ کانفرنس تین دن ہوتی تھی، اب یہ پورے پانچ دن ہو رہی ہے۔ یہاں جرمنی، ڈنمارک، امریکہ، اسکاٹ لینڈٖ، انگلستان اور مصر کے مندوب آئے ہوئے ہیں۔ ہندوستان سے آنے والوں کے بارے میں شبہ تھا کہ آج دونوں ملکوں کے تعلقات کا جو حال ہے اس کی وجہ سے شاید وہاں سے کوئی بھی نہ آ سکے۔ لیکن وہاں سے ایک نہیں بلکہ پانچ مندوب کراچی پہنچے ہیں۔ ان میں دو سکھ شاعر بھی ہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی دلی سے، پروفیسر قاضی افضال حسین علی گڑھ سے، ناول نگار انیس اشفاق لکھنؤ سے اور دو سکھ شاعر مشرقی پنجاب سے آئے ہیں۔ یہ سب احمد شاہ کا کرشمہ ہی تو ہے۔ ویسے تو احمد شاہ یہ طریقہ بھی جانتے ہیں کہ جو دانشور ہندوستان سے نہ آ سکے اس سے وہ ٹیلی فون پر بات کرا لیتے ہیں لیکن اس بار اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ہر ملک کی نمائندگی ہو گئی تھی۔ اور ہاں، احمد شاہ سال کے سال صرف ادبی کانفرنس ہی تو نہیں کراتے، وہ تو سال بھر ڈرامہ، تھیٹر، موسیقی اور بچوں کے لئے بھی تقریب کرتے رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کتنی توانائی ہے اس شخص میں ؟
دس سالہ کانفرنس کا افتتاح اردو کے معتبر نقاد اور شاعر شمیم حنفی نے اپنے کلیدی خطبے سے کیا اور اس خطبے نے ہی کانفرنس کا رخ متعین کیا۔ انہوں نے ہندی کی ناول نگار کرشنا سوبتی کے ناول ’’سورج مکھی اندھیرے کے‘‘ کو اپنا حوالہ بنایا اور کہا کہ تقسیم سے پہلے ہم جو لکھ رہے تھے اب وہ ہمارا حوالہ نہیں ہے۔ آج ہم جس قسم کے اخلاقی بحران کا شکار ہیں وہ بحران تقسیم سے پہلے نہیں تھا۔ 1936کی ترقی پسند تحریک مزاحمت کی تحریک تھی۔ آج کا انسان اپنے آپ پر ہی شک و شبہ میں گرفتار ہے۔ فیض صاحب کا مصرع ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ صحیح معنی میں آج کی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ ستر سال ہم نے اسی اخلاقی کشمکش میں گزارے ہیں۔ ہم اندھیرے کے سورج مکھی ہیں۔ ہمارے سامنے کوئی سورج نہیں ہے۔ آج ہماری ضرورت انسان دوستی اور رواداری ہے۔ ہمیں علمی اصطلاحوں کے چکر میں پڑنے کے بجائے سیدھی سادی زبان میں بات کرنا چاہئے۔ دوسرا کلیدی خطبہ مبین مرزا کا تھا۔ انہوں نے اپنے حوالے سے ادب کے اثرات کا ذکر کیا۔ اب اگر اس کانفرنس میں زیر بحث آنے والے ہر موضوع کا ذکر کیا جائے تو انگریزی محاورے کے مطابق ’’سورج کے نیچے نظر آنے والا‘‘ کونسا ایسا موضوع تھا جس پر گفتگو نہ کی گئی ہو حتیٰ کہ اس بار حمد و نعت پر بھی بات کی گئی۔ تعلیم اور میڈیا پر جو گفتگو کی گئی وہ تو اس لائق ہے کہ اسے تعلیم اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام اداروں کے کارکنوں کو سنایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ تم کہاں کھڑے ہو۔ اگرچہ بات چیت اعلیٰ تعلیم سے متعلق تھی مگر جب یہ سفارش کی گئی کہ پرائمری اسکولوں میں خواتین استانیاں رکھی جائیں، تو ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ انگریزی میڈیم اسکولوں میں تو اے لیول تک خواتین ہی پڑھاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ خواتین جس توجہ اور محنت سے بچوں کو پڑھاتی ہیں ایسے مرد نہیں پڑھاتے۔ انگریزی اسکولوں کا یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ اردو میڈم میں بھی اسے رائج کیا جا نا چاہئے۔ پاکستانی زبانوں پر بھی بات ہوئی۔ اور حارث خلیق نے قائداعظم کی اس تقریر کی وضاحت کی جو انہوں نے ڈھاکہ میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حوالے سے کی تھی۔ ادبی و سماجی تناظر اور خواتین کے کردار پر جن خواتین نے بات کی ان میں یاسمین حمید نے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھنے والی سینکڑوں سال پرانی لکھاری خواتین سے ہمارا تعارف کرایا۔ ہم تو یاسمین حمید کو ایک منفرد شاعر کے طور پر ہی جانتے ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ وہ ایک پختہ کار محقق اورمورخ بھی ہیں۔ انہیں یہ کام آگے بڑھانا چاہئے۔ ہمیں تو افتخار عارف کیساتھ وسعت اللہ خاں کی بات چیت بھی اچھی لگی۔ وسعت اللہ خاں کی حس مزاح کے تو سب ہی قائل ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اسی ہلکے پھلکے انداز میں کسی شاعر سے بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ افتخار عارف کو بھی پہلی بار ایسا بات کرنے والا ملا ہو گا۔
اب ہم تھوڑی سی شکایت بھی کر دیں۔ مشاعرے میں انور شعور کو جس مقام پر پڑھوایا گیا وہ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں۔ آج پاکستان میں ان جیسا کھٹا میٹھا غزل گو اور کوئی نہیں ہے۔ انور شعور بڑا شاعر ہے۔ دوسری شکایت حامد علی خاں سے ہے۔ امانت علی خاں کے بعد غزل گائیکی کے وہی سب سے بڑے گائیک ہیں۔ اب تک وہ ہار مونیم، ستار اور طبلے کے ساتھ گاتے تھے لیکن اس بار انہیں پورے آرکسٹرا کے ساتھ گاتے دیکھ کر ہمارے سر پر حیرت اور افسوس کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اب وہاں ہارمونیم اور طبلے کے ساتھ ’’کی بورڈ‘‘ بھی تھا اور ’’الیکٹرانک ڈرم‘‘ بھی۔ سارے ہال پر آرکسٹرا ہی چھایا ہوا تھا اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ گانے والا کیا گا رہا ہے۔ غزل اس لئے گائی جاتی ہے کہ اس کے شعر صاف صاف سننے والوں تک پہنچیں۔ اگر شعر ہی سنائی نہیں دیں گے تو اس گائیکی کا کیا فائدہ؟
اور اب آخر میں ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اردو فکشن پر بات کرتے ہوئے ہم نے کیا کہا۔ ہم نے وہ قصہ سنایا جو عطاء اللہ شاہ بخاری کے خلیفہ احسان احمد شجاع آبادی نے ملتان میں سنایا تھا۔ شادی کی تقریب میں کھانا کھلایا جا رہا تھا، فرش پر دستر خوان بچھا تھا، سامنے مہمان بیٹھے تھے لیکن ان کے سامنے برتنوں کے ساتھ ایک ایک بانس بھی رکھا ہوا تھا۔ باقی مہمانوں نے تو اس کا خیال نہیں کیا لیکن کسی دل جلے نے پوچھ لیا کہ کھانے کے ساتھ یہ بانس کیوں رکھا ہوا ہے؟ جواب ملا کہ ہمیں نہیں معلوم۔ ہمارے بزرگوں سے یہ رسم چلی آ رہی ہے۔ سوال کرنے والا اڑ گیا کہ جب تک یہ نہیں معلوم ہو گا کہ یہ بانس کیوں رکھا جاتا ہے اس وقت تک میں کھانا نہیں کھائوں گا۔ آخر ایک معمر آدمی تلاش کیا گیا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے زمانے میں تو لاٹھی رکھی جاتی تھی، نئی نسل نے اسے بانس بنا دیا ہے۔ اب سوال ہوا کہ لاٹھی کیوں رکھی جاتی تھی؟ یہ معلوم کر نے کیلئے اور بھی زیادہ بزرگ تلاش کئے گئے۔ انہوں نے نئی نسل کو برا بھلا کہا اور بتایا کہ ہمارے زمانے میں تو چھوٹا سا ڈنڈا رکھا جاتا تھا۔ ڈنڈا کیوں رکھا جا تا تھا؟ سوال کیا گیا۔ تلاش کرتے کرتے آخرایک بہت ہی پرانے بزرگ ملے۔ انہوں نے افسوس میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ یہ سب نئی نسلوں کا کیا دھرا ہے۔ ہمار ے زمانے میں تو دانت کریدنے کیلئے خلال رکھا جاتا تھا جو وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے بانس بن گیا ہے۔ تو ہم نے عرض کیا کہ آج ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ننھے منے خلال کو بانس بنانا ہی تو ہے۔ ہمارا معاشرہ دائرہ در دائرہ سکڑتا جا رہا ہے اور تنگ نظری اور شدت پسندی کا بانس بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم سورج مکھی کا وہ پھول ہیں جسے کھلنے کیلئے سورج چاہئے اور سورج کی کوئی ننھی منی کرن بھی دور دور نظر نہیں آ رہی ہے۔

تازہ ترین