آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال

November 17, 2021

آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال

مدھ بھرا حرف کوئی زہر بھرا حرف کوئی

دل نشیں حرف کوئی قہر بھرا حرف کوئی

حرف الفت کوئی دل دار نظر ہو جیسے

جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت

اتنا روشن کہ سر موجۂ زر ہو جیسے

صحبت یار میں آغاز طرب کی صورت

حرف نفرت کوئی شمشیر غضب ہو جیسے

تا ابد شہر ستم جس سے تبہ ہو جائیں

اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیہ ہو جائیں

آج ہر سر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا

ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اس کی آواز

جوشش درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح

چاک در چاک ہوا آج ہر اک پردۂ ساز

آج ہر موج ہوا سے ہے سوالی خلقت

لا کوئی نغمہ کوئی صوت تری عمر دراز

نوحۂ غم ہی سہی شور شہادت ہی سہی

صور محشر ہی سہی بانگ قیامت ہی سہی