ٹیبل ٹینس کی قومی خاتون کھلاڑی رفعت انجم سے بات چیت

January 11, 2022

ٹیبل ٹینس انڈور گیمز میں دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کھیل کے قوانین میں بھی جدید تبدیلیاں ہوگئی ہیں، سبز رنگ کی میز پر ریکٹ اور گیند کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی زور دار آواز ٹیبل ٹینس کی پہچان اور شان ہے اور ایک دور وہ بھی تھا جب ہر جگہ سنائی دینے والی اس آواز سے اس کھیل کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ پاکستان نے 1950کے عشرے سے اس کھیل کے عالمی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔

تاہم ملک میں 1970 کی دہائی میں یہ کھیل ایک نئے دور میں داخل ہوا تھا، یہ وہ دور تھا جب ٹیبل ٹینس سکول کالجوں سے لے کر پرائیویٹ کلبوں تک ہر جگہ بڑے شوق سے کھیلا جاتا تھا۔ اس زمانے میں کراچی ٹیبل ٹینس کا اہم مرکز تھا جہاں سے کئی نامور کھلاڑیوں نے کئی برس تک اس کھیل پر راج کیا،اسی دور میں جب پاکستان میں کھیلوں کو اداروں میں شامل کیا گیا تو کئی سرکاری اداروں نے ٹیبل ٹینس کے قومی مرد اور خواتین کھلاڑیوں کی ٹیمیں تشکیل دی جس سے اس کھیل کو بام عروج تک پہنچانے میں مدد ملی،اس کھیل پر شکور سسٹرز نے طویل عرصے تک اپنی حکمرانی قائم رکھی،عارف خان، عارف ناخدا، فرجاد سیف، شمیم نازلی نسیم نازلی، سیماخان، نور جہاں جاوید چھوٹانی سمیت ان گنت ایسے کھلاڑی جو پاکستا نی میڈیا اور عوام میںخاصے مقبول تھے۔

ان ہی کھلاڑیوں میں ایک نام سابق قومی اور انٹر نیشنل خاتون کھلاڑی رفعت انجم کا بھی ہے ،جنہوں نے اپنے عروج کے دور میں کھیل کو خیر باد کہا اور نئے کھلاڑیوں کی تلاش اور انہیں گروم کرنے کی ذمے داری بھی نبھائی، جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے رفعت انجم نے کہا کہ ہمارے دور میں سہولتوں کی کمی کے باوجود کھلاڑیوں میں سیکھنے کا جذبہ تھا، ہر ایسوسی ایشن اس کھیل کی ترقی کے لئے فعال تھی، کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ بھی سخت تھا، ہر شہر میں اس قدر اچھے کھلاڑی موجود تھے کہ دو ٹیم بھی بآسانی بن جاتی تھی،کلبوں کی سر گرمیاں عروج پر ہوتی تھی صرف کراچی میں وائی ایم سی اے، اسلامیہ کلب، امروہہ کلب، سینٹ جانز کلب اور شرف آباد کلب اس کھیل کا اہم مرکز ہوتے تھے۔

تعلیمی اداروں میں اس کے مقابلے تواتر سے ہوتے تھے، اسپورٹس کوٹے پر داخلے کے لئے سخت مقابلہ نظر آتا تھا، کھلاڑیوں کو بہترین سہولتوں کےساتھ ملازمتیں ملیں تو وہ معاشی پریشانیوں سے دور ہو کر اپنے کھیل پر توجہ دینے لگے۔ ان ہی اداروں کی وجہ سے ان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملے،ٹیبل ٹینس اسکول کالجوں سے لے کر پرائیویٹ کلبوں تک ہر جگہ بڑے شوق سے کھیلا جاتا تھا۔

پاکستان میں ٹیبل ٹینس کے زوال کے حوالے سے رفعت کا کہنا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں، دو فیڈریشن بناکر اس کی ترقی کو روکا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کھیل کی ترقی اور فروغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عامی سطح پر منوانے میں جو کردار ایس ایم سبطین نے ادا کیا ہے۔

وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ان کے خلاف متوازی فیڈریشن لاکر کھیل کی ترقی کو بریک لگایا گیا جس سے بہت زیادہ نقصان ہوا،کئی لوگ فیڈریشن میں آئے مگر انہوں نے کھلاڑیوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی، مگر ایس ایم سبطین نے بطور صدر کھلاڑیوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر سطح پر آواز اٹھائی اور اس میں کامیابی بھی ملی، کراچی میں اس کھیل کے لئے مجید خان مرحوم کا کردار بھی ناقبل فراموش ہیں، ان کی فیملی سے عارف خان جیسے نامور کھلاڑی پیدا ہوئے،اس کھیل کو ھکومت کی عدم توجہی سے بھی نقصان پہنچا،اسکول اور کالجوں میں اب یہ کھیل ختم ہو چکا ہے، باصلاحیت بچے، بچیاں آتے ضرور ہیں لیکن ان میں پہلے جیسا شوق نہیں رہا۔

اس کھیل کوا سپانسرشپ کی شکل میں پیسے کی ضرورت ہے لیکن کئی اداروں نے ٹیبل ٹینس کی ٹیمیں ہی ختم کردی ہیں اور بہت سے اداروں نے تو کھیل کا شعبہ تک ختم کردیا ہے ،یہ کھیل اب بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ پہلے عام ربر ریکٹ پر لگتا تھا اب اس کی جگہ ا سپیڈ ِگلو نے لے لی ہے۔ ووڈن ( لکڑی) کے فرش کی جگہ میٹ آ گیا ہے ان اخراجات کا ہر کوئی متحمل نہیں ہو سکتا۔ میرے خیال میں ملک میں ٹیبل ٹینس میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، پچھلے دو سال میں مردوں اور خواتین کے شعبے میں شاہ خان، فہد خواجہ، پرنیا خان اورحائقہ خان نئے قومی چیمپین کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

اس وقت خوشی کی بات یہ ہے کہ فیڈریشن کے موجودہ عہدے دار اپنی مدد آپ کے تحت اس کھیل کو ترقی دے رہے ہیں، مقابلے کرارہے ہیں، جبکہ مردوں اور خواتین میں اس وقت پہلے 16 لڑکے اور لڑکیاں دونوں میں اکثریت بیس سال سے کم عمر کی ہے، یہ ملک میں ہمارے کھیل کے لئے بہت خوش آئند ہےان نوجوان کھلاڑیوں کو مناسب کوچنگ کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں 2008 کے بعد سے غیر ملکی کوچز نہیں آرہے ہیں۔ ماضی میں چینی کو چز کی تر بیت سے پاکستان کے کھلاڑیوں نے ایشیائی سطح پر اچھے نتائج حاصل کئے، پاکستان اسپورٹس بورڈ کی اس کھیل کی طرف توجہ نہیں ہےجو افسوس ناک عمل ہے ، ملک میں فوری طور پر اداروں کی ٹیبل ٹینس بحال کی جانی چاہئے۔

ایک زمانے میں سال میں چار سے پانچ صرف آل پاکستان ٹیبل ٹینس ایونٹ ہوتے تھے جس میں حبیب بنک، یوبی ایل گولڈ کپ مقابلے الگ ہوتے تھے اس سے کھلاڑیوں میں نیا جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہوتا تھا، پاکستانی کھلاڑیوں کو غیر ملکی لیگز میں شر کت کے لئے بھیجا جائے، باہر کے دورے کرائے جائیں اس سے انہیں تجربے کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور اپنی خامیوں کا جائزہ لینے میں بھی مدد ملے گی، فیڈریشن ٹاپ کھلاڑیوں کے ساتھ ایک سالانہ مالی معاہدہ کرے جو قومی کھلاڑی اداروں سے وابستہ ہیں ان کے معاہدے کی رقم کم رکھی جائے اور بے روزگار کھلاڑیوں کو سالانہ معاہدے میں زیادہ اہمیت دی جائے،اس سے کھیل میں مزید تبدیلی آئے گی۔