پاکستانی کرکٹ کے لئے2024کا سال بھی بہت اچھا ثابت نہ ہوسکا۔سال کے آغاز سے شروع ہونے والی شکستوں کے بعد سال ختم ہونے سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم زمبابوے کے ہاتھوں ایک ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میں شکست سے دوچار ہوگئی۔ اسی طرح پور ے سال پاکستانی کرکٹ ٹیم تنازعات میں گھری رہی سال بھر تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا۔
امریکا جیسے ملک نے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کو حیران کن شکست دی اور اسی شکست کی وجہ سے پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے پہلے راونڈ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ آئر لینڈ نے بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو شکست دی جبکہ نیوزی لینڈ کی تیسرے درجے کی ٹیم پاکستان میں ٹی ٹوئینٹی سیریز دو دو سے برابر کرگئی۔
سال کے اختتام سے قبل پاکستان نے جنوبی افریقا کی سر زمین پر پہلی بار ایک روزہ میچوں کی سیریز جیتی جبکہ پہلا ٹیسٹ جیتنے کا موقع گنوادیا، پاکستان کرکٹ کے سسٹم پر ہر دور میں سوال اٹھایا جاتا رہا اور ہر دور کی طرح محسن نقوی نے بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بلندیوں کی جانب لے جانے کا عزم کیا ہے۔ جنوری میں ذکاء اشرف پی سی بی چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہوئے اور سابق وزیر اعلی پنجاب پی سی بی کے نئے چیئرمین بن گئے۔وہ پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں اپنی نئی انتظامی ٹیم لائے اور تقریبا سب کچھ تبدیل ہوگیا۔
محمد حفیظ ڈائر یکٹر کرکٹ کے عہدے سے فارغ ہوئےاور دو غیر ملکی کوچز جیسن گلسپی کو ٹیسٹ ٹیم اور گیری کرسٹین کو وائٹ بال کا ہیڈ کوچ بنایا گیا۔ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے بعد گیری کرسٹن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔بورڈ نے استعفیٰ منظور کرتے ہوئے جیسن گلیپسی کو دورہ آسٹریلیا کے لیے ہیڈ کوچ مقرر کردیا۔ کرسٹن کو اپریل میں ون ڈے اور ٹی 20 ٹیموں کا ہیڈ کوچ مقرر کیا تھا۔زمبابوے کے دورے میں سلیکٹر عاقب جاوید کو عبوری مدت کے لئے ہیڈ کوچ کا اضافی چارج دے دیا گیا۔
اس سے قبل کپتان شان مسعود اور ہیڈ کوچ جیسن گلسپی سے گیارہ کھلاڑی منتخب کرنے کی ذمے داری واپس لے لی گئی۔پی سی بی بابراعظم کی جگہ وکٹ کیپر محمد رضوان کو وائٹ بال کا نیا کپتان مقرر کیا تو کرسٹن مستعفی ہوچکے تھے۔ اسی طرح کپتانوں کی بار بار تبدیلی ہوتی رہی۔ بابر اعظم کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو وائٹ بال کا کپتان مقرر کیا گیا۔
شاہین کو پانچ ٹی ٹوئینٹی میچوں کے بعد کپتانی سے سبکدوش کرکے ایک بار پھر بابر کو قیادت سونپ دی گئی۔ اکتوبر میں پاکستان کی ون ڈے کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر ایک پیغام میں کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے۔اپنے پرستاروں کے نام پیغام میں بابر اعظم کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستانی ٹیم کے کپتان کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اور وہ اس بارے میں کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ کو گذشتہ ماہ بتا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیم کی قیادت کرنا اعزاز کی بات ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ میں استعفیٰ دوں اور اپنے کھیل پر توجہ دوں۔ کپتانی ان کے لیے ایک فائدہ مند تجربہ رہا ہے، لیکن اس نے ان پر کام کے بوجھ میں اضافہ کیا۔
میں اپنی کارکردگی کو ترجیح دینا، اپنی بیٹنگ سے لطف اندوز ہونا اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔اسی طرح سلیکشن کمیٹی میں عاقب جاوید، اظہر علی اور ٹیسٹ امپائر علیم ڈار کو شامل کر لیا گیا۔ پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر کا تبادلہ کرکے بیورو کریٹ سمیر سید کو نیا سی او او بنادیا گیا۔
جبکہ کئی ڈائریکٹر تبدیل ہوگئے۔2024کے آغاز میں پاکستان کو سڈنی ٹیسٹ میں شکست ہوئی اور آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز تین صفر سے جیت گیا۔ اس کے فورا بعد پاکستانی ٹیم شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں نیوزی لینڈ پہنچی جہاں پاکستان کو ٹی ٹوئینٹی سیریز میں چار ایک سے شکست ہوئی۔
وطن واپسی پر پاکستان سپر لیگ کا میلہ سجا جس میں اسلام آباد یونائیٹیڈ چیمپین بن گئی۔ نیوزی لینڈ کی ایک کمزور ٹیم ٹی ٹوئینٹی سیریز کھیلنے پاکستان آئی اور پاکستان نے بابر اعظم کو دوبارہ کپتانی دے دی یہ سیریز دو دو سے برابر ہوگئی۔ آئرلینڈ میں پاکستان ٹی ٹوئینٹی سیریز دو ایک سے جیت سکا جبکہ انگلینڈ میں پاکستان کو دو صفر سے شکست ہوئی۔
آئر لینڈ اور انگلینڈ سے ٹیم امریکا پہنچی جہاں پاکستان کو نیویارک میں بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی لیکن کس نے سوچا تھا کہ پاکستان اور امریکا آپس میں کبھی کرکٹ کا میچ بھی کھیلیں گے، امریکا پاکستان کو ہرا دے گا، یہ تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
پاکستان ٹیم اس سے پہلے بھی اپنے سے کمزور ٹیموں سے شکست کھا چکی ہے لیکن یہ شکست شاید ان تمام اپ سیٹس سے زیادہ سنگین معلوم ہوتی ہے اور پاکستان کی فیلڈنگ کے دوران بوکھلائی ہوئی کارکردگی کے باعث اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کھیل رہی تھی اور یہ شکست سپر اوور میں جا کر ہوئی جہاں پاکستان 19 رنز کا ہدف بنانے میں ناکام رہا۔
امریکا کو آخری اوور میں کامیابی کے لیے 15 رنز درکار تھے اور پاکستان کی جانب سے بال حارث رؤف کے ہاتھ میں تھمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکا کی ٹیم کی جانب سے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا گیا اس اوور میں ایک چھکے اور ایک چوکے کی مدد سے وہ 14 بنانے میں کامیاب رہی یوں میچ ٹائی ہو گیا۔
جب بات پہنچی سپر اوور تک تو پاکستان کی جانب سے محمد عامر کو بال کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی عامر نے سپر اوور تو کرایا مگر انتہائی مہنگا ثابت ہوا اور امریکا نے سپر اوور میں 18 رنز بنا کر پاکستان کو جیتنے کے لیے 19 رنز کا ہدف دیا تاہم پاکستانی ٹیم صرف 13 رنز بنا سکی۔اس شکست کے بعد پاکستان نے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں آئر لینڈ اور کنیڈا کی کمزور ٹیموں کو شکست دی لیکن ٹورنامنٹ میں پاکستان کا سفر پہلے راونڈ پر ختم ہوگیا۔
پاکستان کو بنگلہ دیش نے ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ شکست دی ، جس پچ کے بارے میں پاکستانی بولرز کا خیال تھا کہ یہ نہ تو فاسٹ بولرز اور نہ ہی ا سپنرز کے لیے سازگار ہے، اسی پچ پر بنگلہ دیش کی نوجوان بولنگ لائن اپ نے پاکستانی بیٹنگ کو 146 رنز پر ڈھیر کر دیا۔
راولپنڈی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ کے پہلے چار روز کے دوران بات صرف پچ کے فلیٹ ہونے پر ہوتی رہی جہاں پاکستان کے سعود شکیل اور محمد رضوان بڑی سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ بنگلہ دیش کے مشفیق الرحیم نے 191 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔
پانچویں روز کے آغاز پر کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چائے کے وقفے سے پہلے ہی بنگلہ دیشی ٹیم فتح کا جشن منا رہی ہو گی۔ بنگلہ دیش نے راولپنڈی میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز پاکستان کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز دو صفر سے جیت لی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ بنگلہ دیش نے نہ صرف پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتی بلکہ مہمان ٹیم کلین سویپ کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں 185 رنز کے ہدف کے تعاقب میں مہمان ٹیم نے چار وکٹوں کے نقصان پر ہدف حاصل کرلیا۔بنگلہ دیش کی شکست کے بعد انگلینڈ نے ملتان میں پہلا ٹیسٹ جیت لیا۔
پاکستان نے انگلینڈ کو تیسرے اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ میں نو وکٹوں سے شکست دے کر سیریز دو ایک سے جیت لی ہے۔راولپنڈی میں کھیلے گئے میچ میں پاکستانی اسپنرز کی شاندار کارکردگی کی بدولت مہمان ٹیم صرف 36 رنز کا ہدف ہی دے پائی جسے پاکستانی بلے بازوں نے ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔
پاکستان انگلینڈ کے خلاف آٹھ برس بعد کوئی ٹیسٹ سیریز جیتا ہے جبکہ اس نے 13 برس کے وقفے کے بعد انگلینڈ کو کسی ہوم سیریز میں ہرایا ہے۔ یہ 2020/21 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ سیریز جیتی ہے۔ تین برس قبل پاکستان نے جنوبی افریقا کو دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں دو صفر سے ہرایا تھا۔
سال ختم ہونے سے پہلے پاکستانی ٹیم نے زمبابوے کے خلاف ون ڈے سیریز دو ایک اور ٹی ٹوئینٹی سیریز دو ایک سے جیت لی۔سلمان علی آغا کو کپتان بناکر محمد رضوان کو آرام دیا گیا۔ انٹر نیشنل کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی بہت اچھی نہ تھی شکستوں سے پریشان پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک سیزن 2024-25 میں تین نئے چیمپئنز ٹورنامنٹس شروع کرنے کا اعلان کردیا۔
جس کے لئے وقار یونس، مصباح الحق، سرفراز احمد، شعیب ملک اور ثقلین مشتاق کو ماہانہ پچاس لاکھ روپے کی تنخواہ پر مینٹور مقرر کیا گیا ہے۔ان ٹورنامنٹس کے انعقاد کا مقصد ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ کے درمیان فرق کو کم کرنا، ایک سخت زیادہ مسابقتی اور ہائی پریشر کرکٹ کھیلنے کا ماحول فراہم کرنا اور اپنے مستقبل کے ا سٹارز کے لیے بہتر آمدنی کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
پی سی بی کے مطابق مینز ڈومیسٹک کرکٹ سیزن 2024-25 میں یہ تین نئے ٹورنامنٹس چیمپئنز ون ڈے کپ،چیمپئنز ٹی ٹوئنٹی کپ اور چیمپئنز فرسٹ کلاس کپ پہلے سے موجود ٹورنامنٹس کے ساتھ شامل ہونگے جن میں قومی ٹی ٹونٹی کپ، قائداعظم ٹرافی (ریجنل فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ)، پریذیڈنٹ ٹرافی (ڈپارٹمنٹل فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ)،پریذیڈنٹ کپ (ڈیپارٹمنٹل 50 اوورز ایونٹ) اور پاکستان سپر لیگ شامل ہیں۔
یہ سیزن رواں سال یکم ستمبر سے5 اگست 2025 تک جاری رہے گا۔تین چیمپئنز ٹورنامنٹس کے اضافے کے بعد پی سی بی اب مردوں کے 8 سینئر ٹورنامنٹس میں کل 261 میچ کرائے گا۔ ان تین ایونٹس میں 131فرسٹ کلاس میچ، دو ایونٹس میں 40 پچاس اوورز کے میچ اور تین ایونٹس میں 97 ٹی ٹونٹی میچ شامل ہیں۔ 2023-24 سیزن میں پی سی بی نے مردوں کے 6 سینئر ٹورنامنٹس میں 203میچز کا انعقاد کیا تھا جس میں دو ٹورنامنٹس میں51 فرسٹ کلاس میچز،دو ایونٹس میں55 پچاس اوورز کے میچز اور 97 ٹی ٹونٹی میچز شامل تھے۔
نئے متعارف کرائے گئے چیمپئنز ٹورنامنٹ کی نمایاں خصوصیات میں چیمپئنز کپ کے ہر ایونٹ میں پانچ سائیڈز مقابلہ کریں گی جن کے نام ڈولفنز، لائنز، پینتھر ، اسٹالیئنز اور وولفز ہیں۔چیمپئنز کپ کا ہر ایونٹ ڈبل لیگ فارمیٹ میں کھیلا جائے گا۔ ڈومیسٹک کنٹریکٹ 150کرکٹرز کو اس طرح پیش کیے جائیں گے۔
کیٹگری 1میں 40کھلاڑی 550,000 روپے ماہانہ، کیٹگری2 میں 50کھلاڑی 400000 روپے ماہانہ اور کیٹگری 3 میں60 کھلاڑی250,000 ماہانہ شامل ہیں۔ ماہانہ ریٹینرز کے علاوہ کھلاڑیوں کو درج ذیل میچ فیس ملے گی،ریڈ بال کرکٹ کے لیے 2 لاکھ روپے، 50اوورز میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے اور ٹی ٹونٹی میچوں میں ایک لاکھ روپے شامل ہیں ۔ہر ٹیم کا ایک کارپوریٹ اسپانسر ہے۔