عدت کے اندر نکاح کے بارے میں عدالتِ عالیہ کا فیصلہ اور اس کے بارے میں تحفظات

January 14, 2022

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص امیر بخش کی بیوی نے عدالت سے خلع حاصل کیا اور اُس سے اگلے روز دوسرے شخص اسماعیل سے نکاح کرلیا، اس پر سابق شوہر امیر بخش نے اپنی سابقہ بیوی اور اسماعیل پر زنا کا مقدمہ دائر کیا کہ ان دونوں نے عدت کے اندر نکاح کیا ہے ،جو شریعت کی رو سے ممنوع ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے ایک جج نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ یہ نکاح باطل نہیں ہے، بے قاعدہ ہے اور اس بناء پر انہوں نے مدّعی کے مقدمے کو خارج کردیا، اس کی بابت شریعت کا حکم بیان کیجیے۔ (عبیداللہ، کراچی)

جواب: معتدّہ یعنی جو عورت طلاق، خلع یا وفات کی عدت گزار رہی ہے،اس کے لیے عدت پوری ہونے سے پہلے کسی اجنبی شخص سے نکاح کرنا شریعت کی رو سے حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے مطلّقہ غیرحاملہ عورت کی عدت کے متعلق ارشاد فرمایا:ترجمہ:’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک (عقد ثانی سے)روکے رکھیں‘‘ ۔(سورۃالبقرہ:228)

وہ مطلقہ غیر حاملہ عورتیں جنہیں کم عمری ،عمر رسیدگی یا کسی اور وجہ سے ماہواری نہیں آتی، ان کی عدت کے متعلق فرمایا:ترجمہ:’’اورتمہاری عورتوں میں سے جوحیض سے مایوس ہوچکی ہیں اور تمہیں ان کی عدت میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض نہیں آیا(ان کی بھی یہی عدت ہے)، (سورۃ الطلاق:4)‘‘ ۔بیوہ غیر حاملہ کی عدت کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ:’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور (اپنے پیچھے) بیویاں چھوڑ جائیں ، تو وہ (بیوگان) اپنے آپ کو (نکاحِ ثانی سے)چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ:234)حاملہ عورت کی عدت کے بارے میں فرمایا:ترجمہ:’’ اور جب تک عدت پوری نہ ہوجائے تم( ان سے ) عقد نکاح کا عزم نہ کرو،(سورۃ البقرہ:235)مذکورہ بالا نصوصِ قرآنیہ کی روشنی میں طلاق ووفات کی عدت گزارنا لازم وفرض ہے ، تکمیلِ عدت سے پہلے وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی، یہ فعل حرام اور گناہِ کبیرہ ہے ، البتہ جب عدت پوری ہوجائے تو وہ اپنی آزادانہ مرضی سے جہاں چاہے، نکاح کرسکتی ہے ۔

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی متوفٰی587ھ لکھتے ہیں:’’اور معتدہ کے نکاح کا فاسد ہونا ہمارے ان احکام میں سے ہے ،جن پر اجماع ہے ،کیونکہ نکاح معتدہ کی تحریم کا خطاب عام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور جب تک عدت پوری نہ ہوجائے (ان سے)عقد نکاح کا عزم نہ کرنا‘‘ ۔(سورۃ البقرہ:235)،(بَدَائِعُ الصَّنَائِع: ج: 2، ص:311) اس آیت کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدی ؒ متوفٰی1437ھ لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں طلاق یا وفات کی عدت گزارنے والی عورت سے نکاح کرنے کے ارادے سے بھی منع فرمایا ہے اور دوران عدت اس نکاح کا عزم (پکا ارادہ)کرنا حرام ہے اور حرام کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے، عزم کرنا دل کا فعل ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ دل کے افعال پر بھی مواخذہ ہوتا ہے ،حرام کام کا کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے اور اس کا پختہ ارادہ کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے‘‘ ۔(تبیان القرآن:،ج:۱،ص:890) علامہ ابوعبداللہ ابن قدامہ حنبلی متوفیٰ 620ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’زوجین کے درمیان ہرعلیحدگی کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے، خواہ وہ علیحدگی خلع کی وجہ سے ہوئی ہو یا لِعان ،رضاع، عیب ، تنگ دستی ،آزاد کرنے یا اختلافِ دین وغیرہ کی وجہ سے ہوئی ہو۔خلع لینے والی عورت کی عدت وہی ہے جو طلاق یافتہ کی ہے۔

سعید بن مسیَّب ، سالم بن عبداللہ، عروہ، سلیمان بن یسار، عمر بن عبدالعزیز، حسن بصری، شعبی، ابراہیم نخعی، زہری، قتادہ ،خلاس بن عمرو،ابوعیاض، امام مالک، لیث بن سعد،امام اوزاعی اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی مذہب ہے‘‘ ۔(المغنی لابن قدامہ ،ج:8،ص:97)علامہ زین الدین ابن نُجیم متوفّٰی970ھ لکھتے ہیں:’’اور رہا دوسرے کی منکوحہ اور جو عدت کے اندر ہو ،اُس سے نکاح کا معاملہ ،پس اگر اس سے مباشرت بھی کرلی جائے تویہ مباشرت عدت کو لازم نہیں کرتی ،اگر اُسے معلوم ہوکہ یہ غیر کی منکوحہ یا مُعتدّہ ہے ،کیونکہ کسی فقیہ ومجتہد نے اس کے جواز کا قول نہیں کیا ،پس یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا‘‘ ۔(البحر الرائق:ج:4 ،ص:156 )

کسی دوسرے شخص کی منکوحہ یا معتدہ سے نکاح کی دو صورتیں ہیں:(۱) اگر جانتے بوجھتے اور حرمت کا علم ہونے کے باوجود اس سے نکاح کیا تو یہ نکاح باطل اور سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا اور بعض اہلِ علم کے بقول ایسے شخص پر حد زنا جاری کی جائے گی۔ (۲) اور اگر نکاح کی حرمت کا علم نہ ہو تو نکاح فاسد طور پر منعقد ہوجائے گا، لیکن دونوں صورتوں میں زوجین پر فوراً علیحدگی اور فرقت اختیار کرنا لازم وفرض ہے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرد کہے: ’’میں نے اس نکاح کو ترک کیا‘‘ یا اگر مرد نہ کہے تو عورت کہہ دے اور اگر دونوں نہ مانیں تو حاکم جبراً ان کے مابین تفریق کردے ، پس یہ ترک یا تفریق ہی کافی ہے، طلاق دینے کی حاجت وضرورت نہیں ہے۔ معتدہ سے نکاح کی حرمت کاعلم ہونے کے باوجود اس سے نکاح کرنے والا مرتکب زنا ہے اور بعض اہلِ علم کے بقول اس پر حد جاری ہوگی ، اِلَّا یہ کہ وہ معتدہ سے نکاح کرنے کی حرمت کا علم نہ ہونے کا دعوی کرے ۔ (…جاری ہے…)