طلباء کی مثبت ذہن سازی کیسے کی جائے؟

January 16, 2022

بہترین تعلیمی تجربات طلباء میں نا صرف مہارتوں کی تشکیل کرتے ہیں بلکہ ان کی مثبت ذہن سازی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ان کا ذہن اُمید، اختراع اور اختیار کا مرکز بن کر منظم ، مثبت اور حوصلہ افزاء شخصیت سازی کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں طلباء کی ذہن سازی اور شخصیت سازی کچھ اس طرح اُبھر کر سامنے آتی ہے:

* طلباء کو پتہ چلتا ہے کہ ناکامی سیکھنے کے عمل کا ایک فطری حصہ ہے، یہ کوئی ایسی شرمندگی نہیں ہے جو زندگی بھر ان کی شخصیت پر بدنماداغ بن کر رہ جائے گی؛

* نوجوان یہ سیکھتے ہیں کہ صرف فطری صلاحیتوں پر انحصار کے بجائے مسلسل مشق اور محنت مثبت نتائج کا باعث بنتی ہے؛

* اسی طرح کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے رول ماڈلز کی بدولت، نوجوان ایک ایسے مستقبل کا تصور کرتے ہیں جس میں ان کے پاس اپنے خاندانوں، برادریوں اور وسیع دنیا پر مثبت اثر ڈالنے کا موقع میسر ہوتا ہے۔

تعلیمی اداروں اور نوجوانوں کی بہتری کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی جانب سے اس طرح کی ذہنیت سازی میں کامیابی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود، تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ پختہ نوجوانی کے دور میں ’امید پرستی‘ عروج پر پہنچنے کے بعد، باقی کی زندگی میں بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔

یونیسیف کی جانب سے حال ہی میں ’’دی چینجنگ چائلڈ ہوڈ پروجیکٹ‘‘ نامی ایک سروے جاری کیا گیا ہے۔ اسے سروے میں 21 ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور پختہ عمر کے افراد سے پوچھا گیا تھا کہ آج کی دنیا میں پرورش پانے اور بڑا ہونے کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے منتخب کیا گیا تھا تاکہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا نقطہ نظر معلوم ہوسکے۔

سروے کے نمونے میں 57فی صد افراد15 تا 24سال کی عمر اور 39 فی صد افراد 40سال سے زائد العمر تھے۔ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ عمر میں ہر ایک سال کے اضافے کے ساتھ مزید ایک فی صد لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ دنیا رہنے کے لیے اچھی جگہ نہیں بننے جارہی۔

کیا زندگی کے تجربات کے باعث فطرتاً امید دھندلاتی جاتی ہے؟ کیا زندگی کے چیلنجوں سے مایوسی نوجوانوں کی امید پر حاوی ہو جاتی ہے؟ ایسے بالغ افراد کی تعداد کو دیکھتے ہوئے جو زندگی کی مایوسیوں اور ناکامیوں کے باوجود اپنی پرامید ذہنیت کو برقرار رکھتے ہیں، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ امید پسندی ایک ایسا عمل ہے، جسے کچھ لوگ زندگی بھر برقرار رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔

ایسے میں وہ کیا نکات ہوسکتے ہیں، جنھیں تعلیمی نصاب میں یا طلباء کی زندگیوں میں شامل کرکے، ہم سیکھنے کے ایسے تجربات ڈیزائن کر سکتے ہیں، جو نا صرف ایک پرامید ذہنیت پیدا کر سکیں بلکہ طلبہ کو زندگی بھر بہتری اور ترقی کے لیے پرامید ہونے کی مشق بھی سکھائیں۔ ایسا نصاب درج ذیل نکات پر مشتمل ہوسکتا ہے:

امید کا دامن تھامے رکھنا

1960کی دہائی میں، مارٹن سیلگ مین نے "سیکھی ہوئی بے بسی" اور "سیکھی ہوئی امید پسندی" کی اصطلاحیں وضع کیں۔ طلباء کے نقطہ نظر سے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی مشکلات یا ناکامی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جیسے کچھ کے خیال میں ناکامی اور گزر جانے والا تجربہ ہے (’’میں نے غلطی کی لیکن یہ مسئلہ ہمیشہ نہیں رہےگا‘‘ یا ’’میں نے اس پروجیکٹ میں غلطی کی ہے‘‘)، اس کے برعکس کچھ نوجوان اپنی ایک ناکامی کو اپنی زندگی بھرکی ناکامی کے طور پر لیتے ہیں اور پھر وہ ناکامی ان کی زندگی بھر کی ناکامی کا باعث بن جاتی ہے (’’مجھ میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ میں اس قدر اعلیٰ سطح کے پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں‘‘)۔ اس کے علاوہ کچھ نوجوان اسے ایک اور نقطہ نظر سے دیکھیںگے (’’اس ناکامی کی کئی وجوہات ہیں، صرف میں اس کا ذمہ دار نہیں‘‘)۔

طلباء کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ان میں سیکھنے والا مثبت رویہ پروان چڑھایا جاسکے۔ اس سے مراد ایک ایسا ماحول ہے جس میں وہ اپنے صلاحیتوں کو پرکھ سکیں، اپنی ناکامیوں سے سیکھ سکیں اور ایک معاون ماحول میں پھر سے کوشش کرسکیں۔

ری۔فریمنگ

ادراکی ری۔فریمنگ سے مراد اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے کے بجائے ہر وہ نیا ہنر سیکھنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے، جس میں ایک طالب علم کمزور ہے۔ ’’میں پبلک اسپیکنگ میں اچھا نہیں ہوں اس لیے اپنے اسٹارٹ اپ کے لیے کبھی بھی سرمایہ اکٹھا نہیں کرپاؤں گا‘‘۔ ادراکی ری۔فریمنگ میں یقین رکھنے والے طلباء اس صورتِ حال میں کچھ اس طرح گویا ہوں گے، ’’میں نے ابھی تک اپنی زندگی میں پبلک اسپیکنگ کو اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا لیکن اب اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے میں اس میں مہارت حاصل کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میں یہ صلاحیت بھی اسی طرح حاصل کرلوں گا جس طرح دیگر چیزیں سیکھی ہیں‘‘۔

تصور سے عمل کی طرف قدم بڑھانا

آپ نے کتنی بار مختلف زندگی، نوکری، یا صورتِ حال کے بارے میں کھلی آنکھ سے خواب دیکھا ہے؟ اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے! تاہم، کوئی نہیں جانتا کہ تصور سے عمل کی طرف کیسے جانا ہے۔

ایک حالیہ بین الاقوامی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والے بچے جہاں دیگر کئی صلاحیتوں میں خودکفیل ہیں، وہاں ان میں ’’پرابلم سالوِنگ‘‘ صلاحیتوںکی کمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مناسب پریکٹس نہیں کی ہوتی۔ نصاب میں ایسے پروجیکٹ شامل کرنے کی ضرورت ہے، جہاں انھیں صرف تجزیہ نہیں بلکہ عملی کام کرنے کے اہداف بھی دیے جاتے ہوں۔