علم کیا ہے؟ اس کی خصوصیات اور اہمیت

January 23, 2022

ولیم گبسن کی مشہور کہاوت ہے کہ، ’’مستقبل پہلے ہی ہمارے درمیان ہے، بس اس کی مساوی تقسیم نہیں کی گئی ہے‘‘۔ کوئی بھی ان کے بیان کی درستگی پر بحث کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود، جدید ترین ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لانے کی ہماری صلاحیتوں میں ہم آہنگی کی مثالیں تلاش کرنا بالکل سادہ سی بات ہے۔

نومبر 2021ء میں، برطانوی اخبار نے رپورٹ کیا کہ ملک میں صحت کی خدمات فراہم کرنے والا قومی ادارہ ریڈیولوجسٹ کی شدید کمی کی وجہ سے بڑی مقدار میں ایکسرے بیرون ملک بھیج رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی کئی مثالیں موجود ہیں، جو صحت کے مسائل کے لیے ایکس رے کا تجزیہ کرنے میں ریڈیولوجسٹ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ فی الحال اس معاملے میں اسے ایک حل کے طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح، برطانیہ میں بھاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی حالیہ کمی کے دوران، پوری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ نئے ڈرائیوروں کو کتنی جلدی تربیت دی جا سکتی ہے، بجائے اس کے کہ موجودہ بنیادی ڈھانچے میں بہتری لاتے ہوئے خود مختار ٹرکوں کو متعارف کرانے میں تیزی لانے کے امکان پر غور کیا جائے، جسے امریکا اور سنگاپور سمیت کئی ممالک میں آزمایا گیا ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں حل دستیاب ہونے کے باوجود، ہم اب بھی روایتی طریقہ کار میں حل تلاش کرتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس مواد تو بہت ہے لیکن ہم علم کی قلت کا شکار ہیں اور اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرکزی دھارے کا حصہ بننے سے پہلے ہم تبدیلی کے انکاری رہتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روزانہ مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے مختلف شکلوں میں چار ارب مواد تخلیق کیا جارہا ہے، ایسے میں ہر پیشرفت سے بخوبی آگاہ رہنا اور اس کا تجزیہ کرنا ہماری استعداد سے باہر ہے۔ مزید برآں، سوشل میڈیا اور مختلف اداروں کے کاروباری ماڈلز، ہر مواد میں لوگوں کو وہ چیز زیادہ دینے پر توجہ مرکوز کیے رہتے ہیں، جو وہ (یا ان کا نیٹ ورک) پسند کرتے ہیں، جس سے ان کے صارفین تخلیق کردہ کسی بھی مواد کے بڑے منظرنامہ کو نہیں دیکھ پاتے اور صرف وہ دیکھتے ہیں، جو یہ ادارے انھیں دِکھانا چاہتے ہیں۔

فرائید رِچ ہائک نے اس حوالے سے ایک اہم نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ ’علم‘ ایک ادارے سے باہر زیادہ ہوتا ہے بہ بسنت اس ادارے کے اندر کے۔ ان کا یہ نظریہ اس بات کی یاددہائی کرواتا ہے کہ وہی لوگ زیادہ علم حاصل کرپاتے ہیں جو اداروں سے باہر علم کی تلاش میں رہتے ہیں۔

علم کی چیدہ چیدہ خصوصیات پر ذیل میں بحث کی گئی ہے:

تبدیلی لانے کی صلاحیت

ایک ’آئیڈیا‘ میں صنعتوں، کاروباری ماڈلز، بازاروں یا اداروں کو تبدیل کرنے کی کس قدر صلاحیت ہے؟

وہ آئیڈیاز جو عملی طور پر ممکن ہوتے ہیں، اکثر دو مکمل طور پر مختلف شعبوں یا دائرہ کار کے مابین، مشترکہ اشتراک کے ایریاز سے آتے ہیں جیسے کہ مائیگریشن سیکھنے کے تجربہ کو قابلِ عمل بنانے کے لیے، تعلیم میں ورچوئل ریالٹی کا استعمال یا انسانی خلیے پرنٹ کرنے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ اور علم حیاتیات کا اشتراک وغیرہ۔ موضوع اور لوگوں یا اداروں کے مفادات اور مہارت کے درمیان اس پس منظر کے تعلق کو سمجھتے ہوئے جو لوگ، ادارے اور ممالک پہلے قدم آگے بڑھائیں گے، اس کے اسٹریٹجک فوائد سے وہی سب سے پہلے فائدہ اُٹھائیں گے۔

قابلِ اطلاق

حاصل ہونے والا علم آپ کے اپنے ذاتی حالات، ادارے یا صنعت کے کتنا قریب ہے؟

کاروباری سربراہان اکثر ایسے اسٹریٹجک رجحانات سے نالاں رہتے ہیں اور ان کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں، جو ان کے کاروباری مفادات یا اہداف کے حصول کے لائحہ عمل سے بہت دور ہوتے ہیں۔ یہ بات خصوصاً اس وقت زیادہ درست ثابت ہوتی ہے، جب ہم اُبھرتی ہوئی یا فرنٹیئر ٹیکنالوجیز، جیسے کوانٹم کمپیوٹنگ اور مخصوص صنعتوں پر اس کے اثرات پر بات کرتے ہیں۔ علم کی ان جہتوں کی تلاش اور ان تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت جو وسیع اسٹریٹجک پیشرفت اور اداروں، ان کے آپریٹنگ ماڈلز اور شراکت داری پر ان کے ٹھوس اثرات کے درمیان روابط کو مؤثر بناتی ہے، آنے والے وقت کی کامیاب منصوبہ بندی کے لیے ایک شرط ہے۔

قابلِ عمل

کیا آپ حقیقی علم حاصل کرنے کی جستجو میں صفِ اوّل میں کھڑے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ علم قابلِ عمل ہے اور ابھی اسے وسیع پیمانے پر اختیار نہیں کیا گیا تو سمجھیں کہ آپ وہ علم حاصل کرنے والے چند اوّلین خوش نصیبوں میں سے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان مضمرات کو بروقت مخصوص عمل میں ڈھالنے کے قابل ہوں اور اس سے تزویراتی فائدہ حاصل کریں۔

مواد کی انتہائی اور ہر وقت، ہر طرف سے ہونے والی بھرمار کے اس دور میں آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر ایسی صلاحیت پروان چڑھائیں جس کی مدد سے پہلے آپ وسیع تر تناظر میں فائدہ مند علم کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے اپنی علمی جستجو کے سفر اور عملی زندگی میں اپنے فائدے کے لیے اس طرح استعمال کریں کہ آپ سب سے آگے رہ سکیں۔