نادہندسے اپنی واجب الادا رقم کی وصولی کا اختیار

January 28, 2022

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے کاروبار میں ایک گاہک پر پرانی ادائیگیاں باقی ہیں ،جس کی ادائیگی کافی عرصے سے نہیں کی گئی اور گاہک مطالبے پر بھی ادائیگی میں سنجیدہ نظر نہیں آتا ۔ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ اُن کے نئے بل میں تھوڑی تھوڑی پچھلی رقم شامل کرکے وصول کرتے رہیں، جبکہ گاہک کے علم میں نہ ہو ۔ (محمد عمران ، کراچی)

جواب: اُدھار پر فروخت کی گئی اشیاء کی قیمت خریدار پر قرض ہے اور اس رقم کی ادائیگی خریدار پر لازم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مطالبے کے بغیر ہی گاہک پچھلا حساب بے باق کردے ،لیکن اگر وہ ازخود ایسا نہیں کررہا،تو آپ گاہک کو تھوڑی تھوڑی رقم ادا کرنے پر آمادہ کریں اور اُس کے بل میں یہ رقم شامل کرکے وصول کرتے رہیں ،یہ رعایت دینے پر آپ عنداللہ اجر پائیں گے، احادیث ِ مبارکہ میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس شخص نے تنگ دست (مقروض) پر آسانی کی ،اللہ تعالیٰ اُس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا ،(سُنن ابن ماجہ : 2417) ‘‘۔ترجمہ:’’جس نے تنگ دست (مقروض) کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دی، تو اُس کو ہر گزرنے والے دن صدقہ کرنے کا اجرملے گا اور جس نے قرض کی ادائیگی کا وقت پورا ہونے کے بعد مقروض کو مہلت دی ،تو اُس قرض خواہ کو ہر روز قرض کی کل رقم کے برابر صدقہ کرنے کا اجر ملے گا، (سُنن ابن ماجہ:2418، مسند امام احمد بن حنبل :22970)‘‘۔لیکن اگر مقروض قرض اداکرنے کی استطاعت رکھتا ہے ، تو ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم ہے ، حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ مالدار کا قرض کی ادائی میں تاخیر کرنا ظلم ہے،(صحیح بخاری:2287)‘‘۔علامہ بدرالدین عینی حنفی ’’تلویح‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ اس حدیث کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے: بلاعذر قرض کی ادائی میں تاخیر کرنے والے کامستقل پیچھا کرنااور اُسے قرض کی ادائی پر مجبور کرنا اور ہر ممکن طریقے سے اس تک رسائی حاصل کرنااور زبردستی کرکے اپنا قرض وصول کرنا جائز ہے ،(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری )‘‘

امام احمد رضاقادریؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’جو(قرض واپس) دے سکتاہے اوربلاوجہ لَیتَ ولَعَلْ (ٹال مٹول)کرے ،وہ ظالم ہے اور اُس پر تشنیع وملامت جائز ،ترجمہ:’’ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: مالدار کا ( قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اورقرض کی ادائی پر قدرت کے باوجود پہلو بچانا، اُس کے مال اور عزت کو مباح کردیتا ہے،(فتاویٰ رضویہ ،جلد23،ص:585)‘‘۔

امام بخاریؒ فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ اور نبی اکرم ﷺ سے روایت ہے :مقروض کا استطاعت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اسے سزا دینے اور اس کی عزت کی پامالی کو حلال کردیتاہے ، عزت کو حلال کرنا یہ ہے کہ قرض خواہ کہے :تم مجھ سے ٹال مٹول کررہے ہواوراس کی سزا اسے قید کرنا ہے،(صحیح بخاری،کتاب الاستقراض، باب:13، لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالٌ)‘‘۔ حق دار(یعنی قرض خواہ)کو اپنی دی ہوئی قرض کی رقم کے مطالبے میں سخت سست کہنے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق حاصل ہے۔ الغرض مقروض کو ملامت کیاجاسکتا ہے اور اسے قید کیاجاسکتا ہے اور اُن سب صورتوں میں عزت پامال ہوتی ہے ۔

اس کا سادہ اورکاروباری طریقہ یہی ہے کہ آپ اپنی رقم وصول کرنے کے لیے مارکیٹ کے مُروّجہ جائز طریقے اپنائیں ،مگر جو صاحبِ استطاعت عادی نادہند ہو ،اُس سے جبراً بھی وصول کر سکتے ہیں، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ آج کل بالخصوص ہمارے دیار میں فتویٰ اس پر ہے کہ قرض خواہ (یا حق دار)مقروض کے جس مال میں سے بھی اپنا حق لینے پر قادر ہو ، اس کے لیے لینا جائز ہے، کیونکہ یہاں حق تلفی کا شِعار زیادہ ہے ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد6،ص:151)‘‘۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادریؒ نے بھی فتاویٰ رضویہ (جلد17،ص:562) میں اسی قول کو اختیار فرمایا ہے ۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرجائز اورمعروف ذرائع سے اپناحق وصول کرنے کی کوئی قابلِ عمل صورت دستیاب نہ ہو توکوئی بھی ممکن صورت اختیار کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اس میں شریعت کی روسے کوئی حرام اور ممنوع ذریعہ اختیارنہ کیا جائے اور ’’اَکْلِ اَمْوَال بِاالْبَاطِل‘‘ کی صورت پیدانہ ہو ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk