اچھی صحت اور متوازن وزن برقرار رکھنے کا راز

April 21, 2022

اچھی صحت قدرت کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ یہ بات سائنسی تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ انسانی صحت اور غذا کے مابین ایک واضح تعلق پایا جاتا ہے۔ قدیم طب میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ انسانوں کو لاحق اکثر بیماریوں کا تعلق ان کے پیٹ سے ہوتا ہے یعنی ہم جو غذا کھاتے ہیں، ہماری صحت اسی کی عکاس ہوتی ہے۔ اگر ہم صحت مند غذا لیں گے تو ہماری صحت بھی اچھی رہے گی اور اگر ہماری غذا غیرصحت مند ہوگی تو اس کے اثرات ہماری ہماری صحت پر یقینی طور پر پڑتے ہیں۔

دورِ جدید میں جب زندگی میں ہر طرف افراتفری نظر آتی ہے اور انسان کے پاس سکون سے بیٹھ کر کھانے تک کا وقت نہیں ہے، فاسٹ فوڈ نے ہماری زندگیوں میں ایک ناگزیر جگہ بنالی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کے لیے موٹاپا ایک سنگین خطرے کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔

امریکا کے محکمہ زراعت کے مطابق، امریکیوں نے 1983 کے مقابلے میں 2000 میں اوسطً20فی صد زیادہ کیلوریز استعمال کیں، جس کی ایک بڑی وجہ زیادہ گوشت کھانا ہے۔ آج ایک امریکی شہری سالانہ اوسطً 195 پونڈ گوشت کھاتا ہے جب کہ 1950 کے عشرے میں 138 پونڈ گوشت کھاتا تھا۔

اسی عرصے کے دوران، امریکیوں کی جانب سے چکنائی کے استعمال میں دوتہائی اضافہ ہوا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سی ڈی سی کے اعدادوشمار کے مطابق، 2018 میں 42.4فی صد امریکی یاتو موٹاپے کا شکار ہیں یا پھر ان میں موٹاپے کا رجحان پایا جاتا ہے

اس سلسلے میں امریکا میں واقع شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین، ایک تحقیق پر کام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیںکہ، اگر آپ خود کو دل کے امراض اور ذیابطیس وغیرہ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیںتو ’کریش ڈائٹ‘ کو اپنانے کے بجائے روزانہ کی غذا سے ایک خمیری روٹی یا ’چِیز پیزا‘ کے ایک سلائس کے مساوی کیلوریز کم کردیں، اس طرح آپ آسانی سے ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ شوگر، کمر کے اِرد گرد اضافی چربی اور کولیسٹرول کی غیرمعمولی سطح میں قابلِ ذکر حد تک کمی لاسکتے ہیں۔

اس تحقیق کی سربراہی ڈیوک مالیکیولر فزیولاجی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کلینکل ٹرانسلیشن ڈاکٹر وِلیم کروس کررہے تھے، جب کہ اس تحقیق کے لیے 143افراد نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا اور اس کے لیے انھوں نے اپنی روزانہ کی کیلوریز کی عمومی مقدار میں کمی کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ اس تحقیق کا دورانیہ 2سال تھا، جس دوران تحقیق میں شامل افراد کو ان کی کیلوریز کی یومیہ کھپت میں 12فی صد یعنی 300کیلوریز کمی کا کہا گیا۔

تحقیق کے نتائج کے مطابق، کم کیلوریز لینے کے اس عمل میںان افراد کے وزن میں اوسطاً 16 پونڈ (زیادہ تر چربی) کمی آئی۔ ’’دو سال تک کیلوریز کے استعمال میںمحدود پیمانے پر مسلسل کمی کرکے ایسے نوجوان، جن کا وزن زیادہ نہیں ہے، خود کو متعدد امراض کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ تحقیق اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد، وزن بڑھانے کے بعد سخت قسم کی ڈائٹ اختیار کرنے کے بجائے اگر بروقت (جس وقت ان کا وزن مناسب ہوتا ہے) اپنی کیلوریز کے استعمال میں محدود پیمانے پر کمی کرنے کی عادت اپنا لیںتو اس سے ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ طویل عمر تک صحت مند زندگی گزارنے کی بنیاد ڈال سکتا ہے‘‘۔

یہ تحقیق بین الاقوامی جرنل ’دی لانسیٹ ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرائنولاجی‘ میںشائع ہوئی ہے۔ لانسیٹ سے گفتگو میں ڈاکٹر کروس کا کہنا تھا کہ، ہرچندکہ جانوروں میں کیلوریز میں کمی اوربہتر صحت کے درمیان تعلق پر گزشتہ 50برس میں کافی تحقیق کی گئی ہے لیکن انسانوں پر کی جانے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی، مفصل اور سائنسی بنیاد پر کی جانے والی اوّلین تحقیق ہے۔ ’’سوال یہ ہے کہ کیا کیلوری میں کمی کا انسان کی صحت کے دورانیہ (انسان کی پیدائش اور دائمی امراض پیدا ہونے کے وقت کے درمیان فرق) یا زندگی کے دورانیہ پر فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کیلوریز میں کٹوتی ہر جاندار چیز پر دونوں طرحسے اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ورزش صرف انسانی صحت کے دورانیہ پر اثرانداز ہوتی ہے، زندگی کے دورانیہ پر نہیں‘‘۔

ڈاکٹر کروس کی تحقیق میں کیلوریز کی عمومی تعداد میں کٹوتی پر توجہ دی گئی تھی اور کسی مخصوص مائیکرونیوٹرینٹ جیسے پروٹین، کاربوہائیڈریٹس یا چکنائی کو مدِنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ تحقیقی گروپ میں عمومی وزن یا عمومی سے کچھ زائد وزن کے حامل نوجوانوں اور ادھیڑ عمر افراد کو شامل کیا گیا تھا اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیلوریز کے استعمال کو محدود طور پر کم کرنے کا ان افراد کی صحت پر قابلِ ذکر حد تک اثر پڑا۔ مزید برآں جن لوگوں کی صحت عمومی طور پر اچھی تھی، ان کی صحت مزید بہتر ہوگئی۔ ’’کیلوریز کے استعمال میں کمی کا اثر نا صرف ان لوگوںپر دیکھا جاتا ہے جن میںموٹاپے اور ذیابطیس کے خطرات زیادہ پائے جاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی صحت بھی مزید بہتر ہوجاتی ہے جن میںجسمانی بیماریوںکے خطرات کم ہوتے ہیں‘‘، ڈاکٹر کروس کہتے ہیں۔

امریکا کے محکمہ زراعت کے مطابق، ایک اوسط بالغ خاتون کو روزانہ 16سو سے 24سو کیلوریز جب کہ مرد حضرات کو 2 ہزار سے 3ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شخص کو حقیقتاً روزانہ کتنی کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا دارومدار آپ کی عمر، صنف، وزن اور جسمانی سرگرمیوں کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 1970ء سے 2010ء کے درمیان امریکی شہریوں کی جانب سے یومیہ کیلوریز کے استعمال میں 23فی صد اضافہ ہوا اور اس اضافے کے بعد 2010ء میں ایک امریکی روزانہ اوسطاً 2ہزار481کیلوریز استعمال کررہا تھا۔

ماہرین کے مطابق، کیلوریز میں محدود پیمانے پر کمی لاکر انسان اپنی جسمانی صحت کو بہتر اور بہت ساری بیماریوں کے خطرات سے خود کو محفوظرکھ سکتا ہے۔ تاہم، اس میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی عمر، صنف، وزن اور جسمانی سرگرمیوں کے مطابق ایک خاص مقدار میں کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس مطلوبہ مقدار سے کم کیلوریز کا استعمال اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ، بہتر صحت کے لیے ہمیں اپنی کیلوریز پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں باقاعدگی سے صحت بخش غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے، جیسے تازہ سبزیاں اور پھل، گری دار میوے، بیج اور پھلیاں وغیرہ۔