بڑا شہر

May 02, 2022

ضیا جالندھری

کراچی کسی دیو قد کیکڑے کی طرح

سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہے

نسیں اس کی فولاد و آہن

بدن ریت سیمنٹ پتھر

بسیں ٹیکسیاں کاریں رکشا رگوں میں لہو کی بجائے رواں

جسم پر جا بجا داغ دلدل نما

جہاں عنکبوت اپنے تاروں سے بنتے ہیں بنکوں کے جال

کہ ان میں شمال اور مشرق سے آئے ہوئے

اشتہا اور خوابوں کے مارے مگس

پھڑپھڑاتے رہیں

مستقل عالم جاں کنی میں رہیں

شام ہوتے ہی اس کی نم آلود اور کھردری کھال سے

اس کے بے ڈھنگ اعضا سے

عشوہ فروشوں کے پیراہنوں کی طرح

روشنی پھوٹتی ہے

یہ وہ شہر خود مطمئن ہے

جو اپنے ہی دل کی شقاوت پہ شیدا رہا

میں چاہت کے پھولوں بھرے جنگلوں سے جب آیا

تو اس شہر کی پیٹھ

مجلس کی دیوار کی طرح میری طرف تھی

میں شدت کی تنہائی میں

آشنا حرف کا آرزو مند

پیہم تغافل سے رنجیدہ بے دل

یہاں کے رسوم اور آداب سے بے خبر

ناخنوں سے زمین کھود کر

آنسوؤں کی نمی سے اسے سینچ کر

حرف کلیوں کی امید میں

درد بولتا رہا

کئی بار میں نے سمندر کی بھیگی ہواؤں سے پوچھا

کہ اے خوش نفس رہروو

تم اس طرح بیگانہ وش کیوں گزرتی ہو

پل بھر رکو

کوئی تسکیں کا پیغام دو

اور اپنا یہ امرت سا ہاتھ

دکھے دل پہ رکھ دو

پہ وہ شہر کی سانس میں

انجنوں کے دھوئیں کی کثافت سے افسردہ

آنکھیں چرائے گزرتی رہیں

کئی بار یوں بھی ہوا ہے

کہ میں اور یہ شہر اک مشترک دکھ کی زنجیر میں بندھ گئے

اور مجھے یہ گماں سا ہوا

کہ اب اجنبیت کی دیوار گرنے کو ہے

ابھی اس کی نمناک آنکھیں کہیں گی کہ ہم ایک ہیں

لمحۂ درد کا ساتھ سب سے بڑا ساتھ ہے

مگر میں نے دیکھا کہ اس وقت بھی

اس کی پتھرائی آنکھوں میں

عکس شناسائی ناپید تھا

اور اب جب میں اس شہر سے جا رہا ہوں

تو اس کی درانتی سی بانہوں کے دندانے

میرے رگ و پے میں اترے ہوئے ہی