باغبانی میں طویل، صحت مند زندگی کا راز

May 03, 2022

کئی لوگوں کو گھر میں ہریالی کا بہت شوق ہوتا ہے۔ ایسے لوگ باغبانی ایک پسندیدہ تفریح کے طور پر کرتے ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ ناصرف ایک تعمیری سرگرمی ہے بلکہ اس کے آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ ایک مطالعہ سے اَخذ کیا گیا ہے کہ باقاعدگی سے باغبانی اور اس جیسی سرگرمیوں میںحصہ لینے والے افرادکی صحت، نفسیات، سماجی تعلقات اور مجموعی زندگی میں واضح بہتری دیکھی جاتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہفتے میں تین سے پانچ بار 30سے 45منٹ کی باغبانی وزن کم کرنے کی اچھی حکمت عملی ثابت ہوتی ہے۔

باغبانی کے باعث دل کے امراض کے خطرات کم ہوتے ہیں اور ہڈیوں کے بھربھرہ پن کے مرض (آسٹیوپوروسس) میںبھی باغبانی مفید رہتی ہے۔ زمین کھودنے اور پودے لگانے سے ہڈیوں میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے اور پٹھوں کی اچھی ورزش ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی، کیونکہ باغبانی ایک آؤٹ ڈور سرگرمی ہے، جس میں دھوپ اور کھُلی فضا میں کام کیا جاتا ہے۔ اس طرح آپ کے جسم کی وٹامن ڈی کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔

باغبانی ذہنی تناؤ میں بھی کمی کا باعث بنتی ہے۔ ذہنی دباؤ بنیادی طور پر ایک خاص قسم کے ہارمون کارٹیسول کے خارج ہونے سے ہوتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ باغبانی کرنے والے لوگوں میں یہ ہارمون باغبانی نہ کرنے والوں کے مقابلے میں کم خارج ہوتا ہے۔

باغبانی کا فائدہ صرف باغبان کو ہی نہیں ہوتا۔ باغبانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سبزے اور ہریالی سے گھر اور ارد گرد رہنے والے سارے لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں۔ سبزے اور ہریالی میں رہنا انسانی صحت کے لیے کتنا اچھا ہے، اس حوالے سے ایک تحقیق نے مزید ثبوت پیش کیے ہیں، جس میں سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ جہاں زیادہ پودے اور ہریالی ہوتی ہے، وہاں رہنے والوں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں۔ یہ جائزہ انسانی صحت پر ماحول کے اثرات کو سمجھنے کے حوالے سے تھا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ کم ہریالی والے علاقوں میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں قدرتی ماحول سے قریب رہنے والے افراد میں نمایاں طور پر شرح اموات کم تھی۔

اس مطالعہ سے مزید یہ معلوم ہوا کہ کم پودوں اور درختوں والے علاقے میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں ماحول دوست علاقوں میں رہنے والے افراد میں مجموعی طور پر شرح اموات 12فیصد کم تھی، جس کے بعد محققین نے لکھا کہ شرحِ اموات کی کمی کے نتائج کے ساتھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پودے اور ہریالی ہماری صحت کے لیے کئی طریقوں سے بہت اہم ہو سکتے ہیں۔

مطالعہ کے شریک مصنف پیٹر جیمز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم ہریالی میں اضافے اور کم شرح اموات کے درمیان مضبوط تعلق کا مشاہدہ کرنے پر حیران تھے۔ ہمیں بالخصوص گردے کی بیماری، سانس کی بیماری اور کینسر سے متعلق اموات کی شرح میں سب سے بڑے اختلافات ملے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی محققین نے اپنے تجزیے میں یہ بھی کھنگالنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح پودے، جھاڑیاں اور سبزہ پر مشتمل ماحول شرحِ اموات کو کم کرسکتا ہے۔

محقق پیٹر جیمز نے کہا کہ خاص طور پر ہمیں ہریالی کا ذہنی صحت پر ایک اہم مثبت اثر ملا ہے۔ مطالعہ سے ظاہر ہوا کہ وہاں کئی میکانزم تھے، جو کہ ہریالی اور شرح اموات میں کمی کے درمیان تعلق کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جن میں بہتر ذہنی صحت اور سماجی مصروفیت، مضبوط ترین عوامل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ اور کم فضائی آلودگی بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

دریں اثناء محققین نے سبزے اور پودوں کے ارد گرد رہنے والی خواتین میں ڈپریشن کی 30فیصد کم سطح کو ہریالی کے فوائد کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ پودے اور درخت ہماری کمیونٹیز کو صحت کے ساتھ ساتھ خوبصورتی جیسے فوائد فراہم کرتے ہیں۔ یہ مطالعاتی جائزہ برطانوی ماحولیاتی ہیلتھ سائنس کے قومی ادارے (این آئی ای ایچ ایس )کی طرف سے فنڈ کیا گیا تھا، جس میں نرسوں کی صحت کے ایک طویل المیعاد مطالعہ میں شامل افراد کے گھروں کے ارد گرد پھیلی ہریالی کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

اپنے مطالعے کے لیے محققین نے سیٹیلائٹ کے ذریعے گھروں کے مقامات سے 250 سے 1,250 میٹر کے اندر اندر سبزہ اور ہریالی کی سطح کا تعین کیا تھا۔

یہ رجحان موت کی الگ الگ وجوہات کے لیے بھی دیکھا گیا تھا اور جب محققین نے کم ہرے بھرے ماحول میں رہنے والے افرادکا مقابلہ سبزہ اور ہریالی سے بھرپور علاقوں میں رہنے والے افراد کے ساتھ کیا ، تو انھیں پتا چلا کہ وہاں گردوں کی بیماری کی شرح اموات 41فیصد کم تھی، اسی طرح سانس کی بیماری کے لیے 34فیصد کم شرح اموات تھی، علاوہ ازیں ماحول دوست علاقوں میں کینسر کے لیے 13فیصد کم شرح اموات پائی گئی۔

محققین نے موت کے خطرے میں اضافہ کرنے والے دیگر عوامل مثلاً شرکاء کی سماجی واقتصادی حیثیت، عمر، جنس، قومیت اور نسل اور تمباکو نوشی سمیت لوگوں کا طرزِ زندگی بھی دیکھا ہے۔ اور ان عوامل کو شامل کرنے کے بعد محققین اور بھی زیادہ پُر اعتماد ہیں کہ ان عوامل کے مقابلے میں پودے اور سبزہ شرحِ اموات میں کمی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔