روئے زمین پر بسنے والے ہر فرد کو غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی

June 13, 2022

ڈرون کے ذریعے دور دراز کے مقامات پر اشیاء پہنچانا اور سیاحوں کو خلا کی سیر پر لے جانا اور 21ویں صدی کی اس جیسی دیگر کئی قابلِ قدر ایجادات کو ہم نے عمومی باتیں سمجھ کر اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ وہ چیزیں ہیں، جو گزشتہ صدی میں صرف ’کامِک‘ کتابوں میں پڑھنے کو ملتی تھیں اور انھیں پڑھتے وقت انسان حیرت زدہ ہوجاتا تھا۔ حیران کن اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ جدید سائنس نے افسانوں کو تو حقیقت کا روپ دے دیا ہے لیکن انسانیت کو صدیوں سے جن مسائل نے گھیر رکھا ہے، ان کا کوئی دیرپا اور مستقل حل ابھی تک تلاش نہیں کیا جاسکا۔ یہ فہرست شروع ہوتی ہے انسان کی سب سے بنیادی ضرورت ’غذا‘ سے۔

غذائی قلت خود اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ناقص خوراک بہت سی بیماریوں کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے۔یہ صورتِ حال ہر قسم کے عالمی بوجھ پیدا کرتی ہے:معاشی، سیاسی اور بنیادی طور پر، انسانی ہمدردی کا۔ ہم سب اس بات پر یقیناً اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہر فرد، ہر جگہ وافر مقدار میں غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی کا مستحق ہے۔ اس بنیادی حق تک رسائی کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہم روزانہ شہ سرخیوں میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔

دنیا کو بین الاقوامی تنازعات، ایک عالمی وبائی بیماری، موسمیاتی تبدیلی اور ان جیسے دیگر بنیادی چیلنجز کا سامنا ہے، جو اکثر ثانوی مسائل کو جنم دیتے ہیں، جیسے سپلائی چین میں تعطل۔

نتیجہ: صحت کی خرابی اور غربت کا نہ ختم ہونے والا چکر جاری رہتا ہے اور پہلے سے ہی دباؤ کا شکار صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر مزید بوجھ پڑتا ہے۔

دنیا مسائل کو سمجھتی ہے۔ اب حل پر عمل درآمد شروع کرنے کا وقت ہے۔

خوش قسمتی سے، اس بحران کو ختم کرنے کے طریقے موجود ہیں۔ مزید آسان الفاظ میں، ضرورت مندوں کو صحت مند کھانا فراہم کرنے کے طریقے موجود ہیں۔ مطالعات اور عالمی اجتماعات، جیسے کہ 2021 میں منعقد ہونے والا پہلا یو این فوڈ سسٹمز سمٹ، صحت مند، قابلِ رسائی اور پائیدار غذا کو بہتر طور پر فروغ دینے کے لیے خوراک کے نظام کو عالمی سطح پر تبدیل کرنے کے لیے تازہ اور خیالات پیش کرتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ 2050تک لوگوں کو صحت مند غذا پر لانے کےلیے بڑے پیمانے پر تبدیلی لانا ہوگی۔ پھلوں، سبزیوں، گری دار میووں، اور دالوں کے استعمال کو دُگنا کرناہوگا۔ اس کے برعکس گوشت اور چینی کے استعمال میں 50فی صد کمی کرنا ہوگی۔ پودوں پر مبنی غذا میں اضافے اور گوشت کے استعمال میں کمی سے صحت اور ماحولیاتی فوائد میں بہتری آئے گی۔

ایک اور حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پودوں پر مبنی خوراک میں اضافے اور جانوروں سے حاصل ہونے والی خوراک کے استعمال میں کمی سے پائیداری اہداف کے حصول کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، جس میں امراضِ قلب، صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات اور عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے خطرے کو کم کرناشامل ہے۔

یہاں یہ بات مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وسیع اور متنوع دنیا میں ایسا کرنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ صحت مند اور پائیدار غذا حاصل کرنے کے لیے عالمی غذائی نظام کو تبدیل نہیں کرنے کا کوئی واحد فارمولا نہیں ہے، جسے پوری دنیا اپنالے۔ اس کے باوجود، ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ خوراک کے نظام کو بہتر بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو حل کرنے کے لیے قوموں اور مختلف شعبہ جات میں ایک مربوط نقطہ نظر بہت ضروری ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ صحت کی خدمات تک دسترس میں مساوات، ان اختراعات کے مرکز میں ہونی چاہیے۔ اعدادوشمار کی بنیاد پر تیار کی جانے والی اختراعات، خوراک کے نظام میں تمام شراکت داروں کو ایسے طریقوں کو اپنانے کی اجازت دیتی ہیں جو بیک وقت اقتصادی، ماحولیاتی اور صحت کے اہداف کو بہتر بناتے ہیں۔

غذائی عدم تحفظ کی صورتِ حال کو غذائی تحفظ میں بدلنے کے لیے بین الاقوامی، قومی، علاقائی اور مقامی سپلائی چینز کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ یہ کھیت سے کھانے کے میز تک جانے کے تصور کا نچوڑ ہے۔ یہ سب کے لیے صحت مند اور پائیدار غذاؤں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے، اور چونکہ آپ کا کھانے کا میز میرے میز سے مختلف دیکھ سکتا ہے، ہمیں ان تمام چیزوں کو مدِنظر رکھنا ہوگا جو ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے قابلِ قبول ہوں۔

ایک تحقیقی رپورٹ میں، خوراک کے موجودہ نظام کو پائیدار بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے پانچ تجاویز پیش کی گئی ہیں:

* لوگوں کو صحت مند غذا پر لانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر عہد لیے جائیں

* زیادہ مقدار میں خوراک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ صحت مند خوراک کی پیداوار کے لیے زرعی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دیں

* اعلیٰ معیار کی پیداوار بڑھانے کے لیے خوراک کی پیداوار کوپائیدار طریقوں سے تیز کریں

* زمین اور سمندروں کی مضبوط اور مربوط حکمرانی اور نظامت

* اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق خوراک کے نقصان اور ضیاع کو کم از کم نصف کر دیں

یہ بات سب پر عیاں ہونی چاہیے کہ ان اہداف کا حصول آسان کام نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اعدادوشمار کی بنیاد پر کچھ اختراعات اُبھر کر سامنے آرہی ہیں، جن میںسے ایک پیریاڈِک ٹیبل آف فوڈ اینشیٹیو (PTFI) ہے۔ یہ نام عنصروں کے پیریاڈِک جدول سے لیا گیا ہے، جو ہم سب نے اپنے دورِ طالب علمی میں پڑھا ہے۔تاہم، شاید اس کی بہترین وضاحت نیویگیشن ہدایات کے ارتقاء کے تقابل میں کی گئی ہے۔

پچھلے 20 برسوں میں، فولڈ آؤٹ نقشوں کی جگہ کمپیوٹر پرنٹ آؤٹس نے لے لی، جن کی جگہ مخصوص GPS ڈیوائسز نے لے لی، جن کی جگہ ہمارے فون پر موجود ایپس نے لے لی، جنھیں اب ہمیں دیکھنا تک نہیں پڑتا اور ایک آواز ہمیں ہر موڑ پر ہدایت دیتی ہے۔اس ارتقاء کی جڑیں سیٹلائٹ اور میپنگ ٹیکنالوجیز میں ہیں، جنھیں دنیا بھر کے کئی اداروںنے اشتراک یا انفرادی طور پر تیار کیا ہے اور یہ ٹیکنالوجیزمل کر ایک مشترکہ مقصد پر کام کرتی ہیں جس سے ہر جگہ، ہر ایک کو فائدہ ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح، فوڈ انیشیٹو کا متواتر جدول پوری دنیا سے خوراک کے بارے میں معیاری اور جامع معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسی نیٹ ورکس کے مابین تعاون اور صلاحیت کو مضبوط بنانا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ PTFI ڈیٹا بیس بنا رہا ہے، اور امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن (AHA) معیاری تجزیاتی پروٹوکول فراہم کر کے ڈیٹا بیس کو بڑھانے پر کام کررہی ہے۔

خوراک کی قلت صرف خوراک کی کمی نہیں ہے بلکہ یہ غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی کا نام ہے۔ دنیا جب عالمی آبادی کو خوراک فراہم کرنے پر کام کرے تو انھیں اس بات کو مدِنظر رکھنا ہوگا کہ لوگوں کو پائیدار اور متنوع خوراک کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ غذائیت کے بارے میں ہماری سائنسی سمجھ ابھی بھی ابتدائی ہے۔

فوڈ کمپوزیشن کے عمومی ڈیٹابیس میں 150حیاتی کیمیائی اجزاء کو ناپا اور ٹریک کیا جاتا ہے، حالانکہ خوراک میں اس طرح کے ہزاروں حیاتی کیمیائی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ جی پی ایس ٹیکنالوجی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ ہم نے کسی بھی بڑے شہر کے صرف بڑی اور اہم شاہراہوںکی نقشہ سازی کرلی ہے۔ یہ ایک اچھی ابتداء ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس مرحلے پر PTFI استعمال میں آئے گا۔

پی ٹی ایف آئی اور شراکت داروں کی طرف سے بنائے گئے معیاری طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے قومی، تعلیمی اور صنعتی لیبارٹریز کے درمیان شراکت داری قائم کی جاسکتی ہیں، اس طرح فوڈ کمپوزیشن ڈیٹا بیس میں فی الحال دستیاب خوراک اور ان کے اجزاءکی تعداد کو بڑھایا جاسکے گا۔ اس وقت متذکرہ ڈیٹابیس میں اکلوتے جزو کی حامل 400 کے قریب غذائیں شامل ہیں۔ آئندہ دو سال کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ عام استعمال ہونے والی ایک ہزار غذاؤں کو اس ڈیٹابیس پر لانا اور اس کے بعد حتمی مرحلے میں تمام غذاؤں کو مجوزہ پروٹوکول کے مطابق ڈیٹابیس میں شامل کرنا اصل ہدف ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمیں اپنے غذائی پورٹ فولیو میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا چند محدود بنیادی غذاؤں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا عدم توازن ہے۔ ہماری روزانہ ضرورت کی نصف سے زائد کیلریز صرف تین ذرائع (چاول، مکئی اور گندم) سے حاصل ہوتی ہیں، حالانکہ غذائی پودوں کی 10 ہزار سے زائد اقسام ایسی ہیں، جنھیں ہم کھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ یاددہانی پریشان کن ہے اور آنے والے مہینوں اور برسوں میں یہ عدم توازن دنیا کو اپنی خوراک میں توازن پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرے گا۔