تاریخی و تہذیبی ورثے کا امین ’قومی عجائب گھر‘

June 27, 2022

کراچی اپنے ماضی اور حال کی بدولت ایک عظیم شہر ہے جہاں زندگی اپنے ہر رخ میں رواں دواں نظر آتی ہے، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی دلچسپی کا سامان لئے ہوئے یہ شہر جہاں ہمیں بہتر مستقبل کی نوید سناتا ہے وہیں اپنے ماضی میں بھی لے جاتا ہے، کراچی اپنی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے ایک طویل تاریخ کا حامل ہے، کراچی نے کئی ادوار دیکھے اور مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی سے آج یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شہر کا درجہ رکھتا ہے۔

شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ کراچی میں آٹھ عجائب گھر واقع ہیں ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے ان تمام عجائب گھر وں کو دیکھا ہو یا ان کی یادداشت میں ہوں گے، کراچی میں واقع پہلا عجائب گھر قومی عجائب گھر ہے جو برنس گارڈن کچہری روڈ پر واقع ہے، دوسرا عجائب گھر قائد ہاؤس میوزیم فاطمہ جناح روڈ اور شارع فیصل کے سنگم پر واقع ہے جس میں قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال اشیاء رکھی گئی ہیں اور وہ گھریلو سامان اور فرنیچر بھی اس عجائب گھر میں موجود ہے جنہیں قائد اعظم استعمال کیا کرتے تھے۔

ہزاروں سال کی تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے

تیسرا عجائب گھر قائد اعظم کی جائے پیدائش وزیر مینشن کھارا در ہے، اس عجائب گھر میں بھی بانی پاکستان قائد اعظم سے متعلق ہی اشیاء ہی موجود ہیں، چوتھا عجائب گھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی عجائب میں واقع ہے جہاں پرانے سکے اور نوٹ اور دیگر نوادرات موجود ہیں، پانچواں عجائب قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں بنایا گیا ہے اس عجائب گھر میں تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان سے وابستہ شخصیات کی تصاویر اور اشیاء رکھی گئی ہیں، اس عجائب گھر کی خاص بات وہ دو کاریں ہیں جو قائد اعظم کے ذاتی استعمال میں رہا کرتی تھیں۔

چھٹا عجائب گھر پی اے ایف میوزیم کار ساز پر واقع ہے اس عجائب گھر میں جنگی سامان جہاز، ریڈار، پاکستان فضائیہ کے سربراہوں کے زیر استعمال لباس، اشیاء اور نادر تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں، یہ عجائب گھر انتہائی پرکشش ہے اور مسلح افواج سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے انتہائی اہم ہے، ساتواں عجائب گھر میری ٹائم میوزیم پاکستان بحریہ کے زیر انتظام ہے اور نیشنل اسٹیڈیم اور کار ساز کی درمیانی شاہراہ پر واقع ہے۔

اس عجائب گھر میں سمندری حیات اور پاکستان نیوی سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں یہاں ایک آبدوز اور لائٹ ہاؤس بھی ہے جسے یہاں آنے والے لوگ انتہائی دلچسپی اور توجہ سے دیکھتے ہیں، آبدوز کو اندرسے دیکھنے سے جو حیرانگی ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہوتی ہے جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح ہماری مسلح افواج کے نوجوان اپنے وطن کے دفاع کے لئے قربانی دیتے ہیں، آٹھواں عجائب گھر کراچی چڑیا گھر میں موجود ہے اور اسے نیچرل ہسٹری میوزیم جہاں کراچی چڑیا گھر میں موجود ان جانوروں کو حنوط کرکے رکھا جاتا ہے جو مر جاتے ہیں، اس کے علاوہ جانوروں سے متعلق دیگر دلچسپی معلومات بھی اس میوزیم میں فراہم کی جاتی ہیں۔

کراچی کا سب سے بڑا عجائب گھر برنس گارڈن کے اندر واقع ہے جہاں کراچی سمیت صوبہ سندھ کے حوالے سے شاندار ورثہ محفوظ ہے اور اپنے دامن میں ہزاروں سال کی تاریخ و تہذیب کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ حکمراں، وہ ادارے، وہ لوگ جو اب خواب ہوئے ان سے متعلق اشیاء اب اس عجائب گھر میں نوادرات کی حیثیت رکھتی ہیں اور قیمتی اثاثہ جات کا درجہ اختیار کرچکی ہیں یہ عجائب گھر شہریوں کو بیک وقت تفریح اور معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جہاں پہنچ کر ہم کچھ لمحوں کے لئے ماضی میں کھو جاتے ہیں اور ہمارے سامنے وہ ادوار ہوتے ہیں جو اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

وہ قیمتی اشیاء ہوتی ہیں جنہیں استعمال کرنے والے اب سپرد خاک ہوچکے ہیں، بلاشبہ ہم اپنی تاریخ، تہذیب، تمدن اور ثقافت سے رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسانی تاریخ ہوسکتی ہے، قوموں کا عروج و زوال اور تاریخ یہی عجائب گھر بیان کرتے ہیں، دنیا بھر میں قائم یہ عجائب گھر دراصل تاریخی اور تہذیبی ورثے کے امین ہوتے ہیں اور کم و بیش دنیا کے تمام ممالک کے مختلف شہروں میں عجائب گھر قائم کئے جاتے ہیں، آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں کراچی میں قائم عجائب گھر پر۔

کراچی کا پہلا عجائب گھر وکٹوریہ البرٹ میوزیم کے نام سے قائم کیا گیا تھا جس کے قیام کا مقصد ان نوادرات تاریخی اشیاء کو محفوظ کرنا تھا جو انگریزوں نے فتح کرنے والے علاقوں سے حاصل کی تھیں، نوادرات اور تاریخی اشیاء کے باعث یہ عجائب گھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، سر ہنری برٹل فریئر نے اس عجائب گھر کی بنیاد رکھی تھی، یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ 1952 ء میں اسی طرز کا وکٹوریہ البرٹ میوزیم لندن میں بھی قائم کیا گیا تھا جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے لائے گئے نوادرات جمع کئے گئے اور یہ دنیا کے چند بڑے میوزیم میں شامل ہے۔

یہ عجائب گھر آئی آئی چندریگر روڈ اور ایم آر کیانی روڈ کے سنگم پر اس عمارت میں قائم کیا گیاتھاجہاں اب سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری ہے۔

1851ء میں میوزیم کی پرانی عمارت کو مسمار کرکے اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا تھا، اس کا بڑا گنبد دور سے ہی نظر آیا کرتا تھا جو اس عمار ت کی خاص پہچان بنا۔

1870 میں اس میوزیم کا انتظام و انصرام بمبئی حکومت سے لے کر کراچی کی میونسپلٹی کے حوالے کردیا گیا تھا، عجائب گھر کی اہمیت کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کی دوبارہ تعمیر کی جائے اور اس فیصلے کے نتیجے میں 1887ء میں اس عجائب کی گھر کی تعمیر نو کی گئی، اس میوزیم کا سنگ بنیاد ڈیوک آف کناٹ شہزادہ آرتھر ولیم پیٹرک البرٹ نے رکھا، 1892ء میں پانچ سال کی مدت میں یہ عمارت تعمیر ہوئی، اس عمارت کی تعمیر کے لئے آدھی رقم اس وقت کی میونسپل کمیٹی اور آدھی رقم ایسٹ انڈیا کمپنی نے فراہم کی۔ عمارت میں کی تعمیر میں جودھ پور سے پتھر لایا گیا اور جیسلمیر کے تعمیراتی کاموں کے ماہر سلاوٹ خاندان کے کاریگروں نے دن رات کی محنت کے بعد اسے تعمیر کیا۔

اس عمارت میں کم و بیش سو سال تک یہ عجائب گھر قائم رہا اور پھر 1950ء میں اس میوزیم کو فریئر ہال منتقل کردیا گیا جہاں 17 اپریل 1950 ء کو پاکستان کے اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے اس قومی عجائب گھر کا باقاعدہ افتتاح کیا، اس موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کو تعلیمی اور ثقافتی سہولتوں سے آراستہ کرنے کی راہ میں ایک مزید اقدام ہے۔ آثار قدیمہ کے مشیر جناب مورٹیمز وہیلر نے گورنر جنرل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اشیاء جن پر پاکستان کی دیہی حرفت کا انحصار ہے انہیں غیر ممالک میں برآمد کیا جائے اور ان کے لئے منڈیاں تلاش کی جائیں۔

فریئر ہال کے عجائب گھر میں پاکستان میں آثار قدیمہ کے خاص مقامات کی نشاندہی کرنے والا ایک نقشہ آویزاں کیا گیا تھا اس کے علاوہ وادی سندھ، ٹیکسلا اور مشرقی پاکستان کے نوادر کی نمائش بھی کی گئی تھی،فریئر ہال میں بننے والے اس عجائب گھر میں بعض مخطوطات بھی رکھے گئے تھے جن میں سے کئی ایک ہزار سال پرانے تھے۔ ایک چھوٹا سا مجموعہ اسلامی سکوں کا بھی تیار کیا گیا تھا اس کے علاوہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک تصویر اور ان سے تعلق رکھنے والی بعض اشیاء بھی نمائش کے لئے پیش کی گئی تھیں۔

بعد ازاں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے عجائب گھر کی عمارت کی تعمیر کے لئے جگہ کا انتخاب کرنا تھا۔ مشاورتی کمیٹی نے اپنے اجلاسوں میں غور و خوص کے بعد تاریخی برنس گارڈن کا انتخاب کیا اور اس میں تمام تر سہولتوں سے آراستہ چھ منزلہ عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ قومی عجائب گھر کی اس عمارت کو کم و بیش 17 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا تھا۔ عمارت تعمیر ہونے کے بعد 1970ء میں فریئر ہال سے تاریخی ورثے کو اس نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔

21 فروری 1970ء کو اس وقت کے صدر مملکت یحییٰ خان نے کراچی کے تاریخی برنس گارڈن میں پاکستان کے قومی عجائب گھر کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ صدر مملکت نے عجائب گھر کی اس عمارت کو قومی ترقی کی سمت ایک اہم پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ عجائب گھروں کی افادیت اب محض اہل علم اور خصوصی ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ عام آدمی کو بھی ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے۔یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ قیام پاکستان سے قبل اس عمارت سے نوادرات منتقل کرکے یہ عمارت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے کردی گئی تھی۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد یکم جولائی 1948ء میں اسی عمارت میں بینک بدولت آف پاکستان کا افتتاح کیا تھا، 1990 ء کے عشرے میں اس عمارت کو ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کا مرکزی دفتر قرار دے دیا گیا اور یہ خوبصورت عمارت اس ادارے کے زیر استعمال آگئی، 3 مئی 1995 ء کو حکومت سندھ نے یہ عمارت سپریم کورٹ آف پاکستان کے حوالے کردی کیونکہ یہ عمارت قومی ورثہ قرار دی جا چکی تھی اس لئے اس کے بیرونی حصے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی تھی۔

اس لئے اس کی تزئین و آرائش کے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا کہ اس عمارت کی بیرونی ساخت اسی طرح برقرار رہے، عدالت عظمیٰ کے زیر استعمال لانے کے لئے اندرونی طور پر عمارت میں کچھ تبدیلی کی گئی اور تزئین و آرائش کے بعد 20 فروری 1997 ء سے عدالت عظمیٰ نے اس عمارت میں باقاعدہ کام شروع کردیا اور جج صاحبان مقدمات کی سماعت کرنے لگے۔

برنس گارڈن جس جگہ یہ قومی عجائب گھر واقع ہے ایک انتہائی اہم مرکزی جگہ ہے اس کے ایک جانب آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ہے تو دوسری جانب حال ہی میں تعمیر ہونے والا پیپلز اسکوائر ہے، قومی عجائب گھر کے سامنے سندھ گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج واقع ہے جبکہ برابر میں سندھ گورنمنٹ لاء کالج واقع ہے جبکہ کراچی کا معروف کالج ڈی جے سائنس کالج بھی قریب میں ہی واقع ہے، عجائب گھر کے قریب قریب ہی سندھ اسمبلی، ہندو جیم خانہ، سپریم کورٹ آف پاکستان، ایوان رفعت فیضی رحمین آرٹ گیلری اور سندھ سیکریٹریٹ واقع ہے۔

برنس گارڈن کے دروازے طویل عرصے سے شہریوں کے لئے بند تھے، کے ایم سی نے 8 فروری 2022ء کو اس پارک کی تزئین و آرائش کرکے اسے عوام کے لئے کھول دیا، آئی آئی چندریگر روڈ کی جانب سے بھی برنس گارڈن کا ایک نیا گیٹ بنایا گیا جبکہ گیٹ کے سامنے ایک فوارہ بھی تعمیر کیا گیا ہے دوسری جانب بھی دو نئے گیٹس تعمیر کئے گئے ہیں، واضح رہے کہ برنس گارڈن 1927ء میں تعمیر کیا گیا تھا یہ اس وقت بھی یہ شہر کا مرکز تھا جہاں ماضی میں بڑی تعداد میں شہری اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آیا کرتے تھے۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خوبصورت اور دلکش باغ اجڑتا گیا اور شہریوں نے یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے دروازے شہریوں پر بند تھے اور وہ ایک اچھی تفریح گاہ سے محروم ہوگئے تھے، یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ نو تزئین شدہ برنس گارڈن میں اس روز تفریح کے لئے آنے والی دو بچیوں مناہل فاطمہ اور بسمہ نے ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے ساتھ برنس گارڈن کے نئے گیٹس کا افتتاح کیا، اس طرح عجائب گھر آنے والے شہریوں کو آسانی پیدا ہوئی اور لوگ برنس گارڈن میں واقع عجائب گھر کا بھی رخ کرنے لگے ہیں۔

قومی عجائب گھر میں جب آپ داخل ہوں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس عجائب گھر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں آرکیالوجی، نیومیٹک سیکشن، تحریک آزادی، ایتھنالوجی سیکشن شامل ہیں، آرکیالوجی کے شعبے میں دو حصے ہیں جن میں پروٹوہسٹری، پری ہسٹری شامل ہیں، پروٹو ہسٹری میں پتھر کے زمانے کا پورا دور واضح کیا گیا ہے جبکہ پری ہسٹری میں موہنجوداڑو کے آثار کو رکھا گیا ہے، پرانے زمانے کی تدفین کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے، گندھارا تہذیب اور ہندو عہد بھی اس حصے میں شامل ہیں۔

یہ تیسری صدی کا دور ہے جبکہ ہند دور جو تھرپارکر سے ملتا ہے وہ بھی اس میں شامل ہے، اسلامک گیلری میں محمد بن قاسم کی سندھ آمد 1711 ء سے شروع ہوتا ہے اور مغل دور پر ختم ہوتا ہے، اس دور کی تصاویر سرامک، کارپٹ اور ہتھیار آپ کو دیکھنے کو ملیں گے،آرسٹرولیب یعنی فلکیات کے بارے میں معلومات اور علم نجوم کے بارے میں معلومات بھی شامل ہیں، نیومیٹک سیکشن میں سکے رکھے گئے ہیں جن میں سونے اور چاندی کے سکے بھی موجود ہیں، سلطان آف دہلی کے سکے، پہلے مسلمان دور کے سکے، عرب دور، خاندان کشان، غزنوی دور، گپت دور کے شاہی مہاراجہ سے لے کر مغل دور تک کے سکے موجود ہیں اور ان میں سب سے قیمتی سکہ عبدالمالک بن مروان کے دور کا سکہ ہے۔

تحریک آزادی کے شعبے میں پاکستان کی تحریک آزادی سے متعلق خطوط، قائد اعظم، لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کے زیر استعمال اشیاء موجود ہیں، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے چند خطوط بھی قابل ذکر ہیں، ایتھنالوجی سیکشن میں چاروں صوبوں کی ثقافت کو اجاگر کیا گیا ہے، قرآن کریم کی قدیم اور نادر نسخے موجود ہیں،قرآن گیلری میں قرآن کریم کے سینکڑوں قدیم نسخے موجود ہیں جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن بھی شامل ہیں، مغلیہ دور میں خالص سونے کے پانی سے لکھا گیا قرآن مجید اور چوتھی صدی ہجری کا قیمتی قرآنی نسخہ تفسیر طبری بھی موجود ہے۔

اسی طرح سینکڑوں سال پرانی کتابیں جن میں سیرت رسول ؐ اور احادیث کی کتابیں نمایاں ہیں۔ قرآن کریم کے وہ نسخے بھی موجود ہیں جو نیلم اور سونے کے پانی سے لکھے گئے ہیں، قومی عجائب گھر پورے پاکستان کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جہاں پتھر کے دور سے لے کر اب تک کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو آپ جان سکتے ہیں یہاں چیزوں کو دیکھ کر بالکل حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو اپنے ماضی کی شاندار تاریخ سے آگاہ کریں اور انہیں قومی عجائب گھر لے کر آئیں تاکہ انہیں ماضی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے۔ قومی عجائب گھر صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک آپ سب کا منتظر رہتا ہے۔ بلامبالغہ یہ عجائب گھر بار بار دیکھنے کے قابل ہے اور خاص طور پر بچوں کے ساتھ دیکھنے کی ایک دلچسپ، حیرت انگیز اور معلومات افزاء جگہ ہے۔