ریاست کے اندر ریاست؟

June 30, 2022

ریاست کے اندر ریاست (DEEP State) ہے کیا بلا؟ 7 جنوری 1951ء ایک ایسا دن، جب پاکستان آرمی وجود میں آئی، لیفٹیننٹ جنرل ایوب خان پہلے سپہ سالار بنے۔ وہم و گمان میں نہ تھا کہ قومی عسکری قیادت نوزائیدہ ریاست پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں آتے ہی تحفظات، تفکرات کا بیج بو دے گی۔ 10 مارچ 1951ء گوخوش قسمت دن کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اْلٹنے کی سازش ناکام بنا دی گئی، کئی سوالات تفکرات جنم دے گئی۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کراچی دارالحکومت میں، دو جرنیل اکبر خان اورنذیر ملوث، باقی تقریبا ًسارے سینئر افسران ممدو معاون، بانی پاکستان کے معتمد ساتھی کو اقتدار سے محروم کرنے کے متمنی۔ ٹرائل ہوا، جج صاحب نے جنرل اکبر جو سرغنہ تھا، سوال کیا کہ ’’ آپ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ کیوں اْلٹنا چاہتے تھے؟‘‘،دنگ کر دینے والا جواب، ’’ حکومت نااہل، بھارت کیلئے بریشم اور بدعنوانی عام ‘‘۔1951ء میں دیا جرنیلوں کا عدالتی بیان، گونج آج بھی موجود۔ 70 برسوں سے بار بار کانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ آج تک حکومتوں کو ناپنے تولنے کا پیمانہ بن چکا، شدومد سے رائج۔ اسی پیرائے میں تب سے ’’ریاست اندر ریاست ‘‘کے رائج رائج نظام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ گو70 سال پہلے ریاست کے اندر مضبوط ریاست نے جنم لیا۔اوائل میں سول بیورو کریسی مضبوط اسٹیبلشمنٹ کے طور پر ابھری اور چند سال کے اندر توانا، طاقتور اور بلاشرکت غیرے خم ٹھونک کر سامنے آگئی۔ریاست اندر ریاست (DEEP STATE)کی تاریخ رقم ہونے کا آغاز ہوچکا تھا۔ ویسے تاریخ میں ایسی اصطلاح وجود نہ رکھتی ہے۔ (DEEP STATE) کی تعریف ہے کیا اور برائے مخمصہ۔ آخر کو یہ راز ہے کیا؟ کیا ریاست پاکستان پہلے دن سے تاریخ اور پس منظر، سائنس میں لمبی چوڑی بحث میں جائے بغیر، اس کا عملی استعمال 1990 میں پہلی مرتبہ ترکی (ترکیہ) میں ہوا۔ عرصہ نو سال میں دس وزیراعظم تبدیل ہوئے، انتہائی اسلامسٹ نجم الدین اربکان سے لے کر آخری خاتون وزیراعظم تنسو چیلر (Tansu Chilor) تک بدلتے رہے۔ (ملتا جلتا معاملہ 50 کی دہائی میں پاکستان پر بیتا) ہر تبدیلی کے پیچھے ترکی فوج کی سوچ تھی۔ ترکی میں ایک حقیقت اور بھی کہ فوج نے ملک بنایا اور اپنا کردار آئین میں درج کیا۔ DERIN DEVEITکا سیدھا سادہ ترجمہ DEEP STATE تھا۔یعنی کہ ریاست کے اندر ریاست، اور اب یہ ایک باقاعدہ پولیٹکل ٹرم کے طور پر استعمال میں ہے۔جدید ریاستی نظام پر نظر ڈالیں توحقیقت سامنے کہ ایسا نظام صدیوں سے موجود، ہر ملک میں دامے درمے اس کا وجود بھی۔چند سال پہلے ہیلری کلنٹن سے اس بارے پوچھا گیا، سوال:’’ یہ DEEP STATE ہے کیا؟‘‘پہلے تو ہیلری ہڑبڑا گئی، جواب ملاحظہ ہوکہ ’’میں اس کی مثال کچھ ایسے دوں گی کہ قائداعظم نے سیاسی جدوجہد سے پاکستان بنایا لیکن فوج نے پیچھے رہ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور حکومتوں کی تبدیلی بزور بازو کی،پردہ سیمیں میں ریاست کو کنٹرول کر رہے ہیں‘‘۔ ہیلری کلنٹن کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تو امریکہ کے درجنوں جرائم، اقوام عالم کی اْتھل پتھل اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے میں مؤثر کردار، مگر تفصیل طلب کرنے کی اس وقت گنجائش موجود نہیں۔

پاکستان سے بھلا یہ اعزاز کون چھین سکتا ہے کہ 27جنوری 1951میں ادھر کمان پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھ ، اْدھر ریاست کے اندر ریاست کا وجود قائم۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے گٹھ جوڑ کر کے غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا،گورنر جنرل غلام محمد نے اسی سازش کو آگے بڑھایا اورناظم الدین کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔سپریم کورٹ نے کندھا بڑھایااور برطرفی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔گورنر شاہد حامد اپنی کتاب TREASURED MEMORIES میں لکھتے ہیں کہ ’’ ایک دن گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم ناظم الدین سے استعفیٰ طلب کیا (دائیں بائیں کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور سیکرٹری دفاع جنرل اسکندر مرزا)،ناظم الدین کے انکار پر ان کو برطرف کر دیا گیا‘‘۔

اگلے چند سال میں6وزرائے اعظم کی ایسی شناخت پریڈ کہ جواہر لال نہرو کو کہنا پڑ گیا کہ ’’اتنے پاجامے نہیں بدلے جاتے جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلے جا رہے ہیں‘‘1964-65کے انتخابات میں فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے SHAMالیکشن میں حصہ لیا تو غداری اور کردار کشی کا سامنا کیا۔بھٹو صاحب کا اقتدار اس لیے منفرد کہ پاک فوج 1971میں بھارت سے شکست کے بعد پژمردگی کا شکار ضرور،آفرین چھ سال بعد بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے میں دقت نہ رہی۔ اپنے ہاتھوں سے جونیجو کا بت تراشا،فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں رکھی،جونیجو کو پھر بھی برخاستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بے نظیر،نوازشریف، نواز شریف،بے نظیر کی SEE SAWسونگ رہی۔جمالی جونیجو سے بھی کمزورمگر ایک سال بمشکل نکال پائے۔

2008میں زرداری، 2013 میں نواز شریف اور 2018میں عمران خان حکمران ضرور رہے،اہم قومی فیصلے ایوان وزیر اعظم سے باہر ہوتے رہے۔

یہ وہ ادوار جب نام نہاد وزرائے اعظم نام نہادجمہوریت کی پیداوار، مارشلائی ادوار کا ذکر اس لیے نہیں کیاکہ DEEP STATE قابض رہی مگر بھٹو اور عمران خان میں POTENTIAL موجودکہ ترکی کی طرح ردِ عمل آسکتا تھا۔ بھٹو صاحب کی ذہانت، سیاسی سمجھ بوجھ ضرب المثل ،ستیاناس کہ پارلیمان کی حکمرانی سے زیادہ مطلق العنانی اور اپنے اقتدار کو دوام دینا رہنما اصول ٹھہرا۔عمران خان سیاسی سوچ سمجھ، فہم و فراست سے یکسر محروم ،خواہشات دائمی اقتدار کی بھٹو صاحب سے زیادہ جبکہ دائمی اقتدار کے اجزائے ترکیبی،ہتھیار سب کے سب اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط یا مرہون منت۔

صدر اردوان جو ایک عرصے سے ترک فوج کے ناخن اور دانت نکالنے پر جْتا تھا جب 2016میں بغاوت ہوئی تو اس نے کمال مہارت سے دانت کھٹے کر دیئے۔عمران خان نے بھی ابھی تک ہمت نہیں ہاری، بدقسمتی سے عمران خان کے چند مسائل، ذاتی کمزوریاں، عقلی استعداد وسیاسی فہم و فراست کی غیر موجودگی، چند ماہ بعد عمران خان کا نام تاریخ کی کتابوں میں بھی شاید درج نہ ہو پائے۔ موجودہ حکومت تو مکمل طور پر اندر ریاست کے رحم و کرم پر۔ میری پسند یا ناپسند ایک طرف، 23کروڑ پاکستانیو! پرانی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ ڈیپ اسٹیٹ (DEREN DEVELT) مستقبل قریب و بعید ،پاکستان کا کمبل، اس اسٹیٹ کے متولی بھی فکر مند کہ کمبل سے جان کیسے چھڑوائیں۔ ایک نہ سلجھنے والی گتھی، ریاست کیلئے جان لیوا۔