کراچی کی پہچان ’’ایمپرس مارکیٹ‘‘

July 05, 2022

کراچی کے اکثر شہری کسی زمانے میں ماہانہ خریداری کے لئے صدر کے بیچوں بیچ واقع ایمپریس مارکیٹ جایا کرتے تھے، کراچی شہر میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے کبھی نہ یہاں سے خریداری نہیں کی ہوگی، ایک وقت تو ایسا تھا کہ دور دراز سے لوگ یہاں اشیائے خوردنوش ، ڈرائی فروٹس، تازہ پھل، سبزیاں، گوشت اور مچھلی کی خریداری کے لئے ایمپریس مارکیٹ آیا کرتے تھے یہاں کی دکانیں بے حد صاف ستھری ہوا کرتی تھیں، صدر کا علاقہ ہمیشہ سے مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے اور اس علاقے میں واقع یہ مارکیٹ دنیا بھر میں کراچی پہچان ہے۔

کراچی میں جب ہر علاقے سے بڑی بسیں چلا کرتی تھیں تو اکثر بسوں کے روٹس لازمی طور پر ایمپریس مارکیٹ سے گزرا کرتے تھے اور بعض بسیں تو ایمپریس مارکیٹ پر آکر خالی ہوجایا کرتی تھیں، کراچی کا کوئی بھی علاقہ ہو وہاں سے مسافروں کو لے کر بسیں صدر پہنچتیں اور ایمپریس مارکیٹ کے سامنے یہ سب قطار در قطار کھڑی نظر آتی اور مسافر ان بسوں سے اترتے اور چڑھتے نظر آتے یہ عمل سارا دن جاری رہتا۔ رات بارہ بجے کے بعد ان بسوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی اور پھر صبح چھ بجے سے یہ بسیں دوبارہ نظر آنا شروع ہوجاتیں۔

ایمپریس مارکیٹ کی ایک جانب تاریخی جہانگیر پارک واقع ہے جبکہ دوسری جانب ریمبو سینٹر ، صدر دوا خانہ ہے اور سامنے تین سڑکیں گزرتی ہوئی نظر آتی ہیں جن میں پہلی سڑک مینسفیلڈ اسٹریٹ ہے جبکہ ایمپریس مارکیٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے والی سڑک میر کرم علی تالپور روڈ اور اس کے بعد والی سڑک دائود پوتہ روڈ ہے، ذرا سا آگے جائیں تو کراچی کی مشہور ’’زیب النساء اسٹریٹ‘‘ ہے جو ’’ایلفی اسٹریٹ‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی تھی، زیب النساء اسٹریٹ کے بعد عبداللہ ہارون روڈ اور پھر اس سے ملحق ریگل چوک واقع ہے، شمال میں سینٹ پیٹرک چرچ ہے جبکہ ایمپریس مارکیٹ کے قریب ہی بوہریوں کا سب سے بڑا جماعت خانہ موجود ہے، یوں یہ علاقہ ہمیشہ سے کاروباری ، تجارتی ، مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور آج بھی روزانہ لاکھوں افراد مختلف ضروریات کے تحت صدر کا رخ کرتے ہیں اور اپنی اپنی ضروریات کی چیزیں سستے داموں خریدتے ہیں۔

ایمپریس مارکیٹ کے اطراف ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء دستیاب ہیں ایک جانب ریمبو سینٹر واقع ہے جہاں ہر طرح کی پاکستانی ، انڈین اور انگریزی فلموں اور گانوں کی سی ڈیز اور کمپیوٹر سے متعلق اشیاء دستیاب ہیں، ریمبو سینٹر کے قریب پرندہ مارکیٹ موجود ہے جو پہلے ایمپریس مارکیٹ کا حصہ ہوا کرتی تھی، اس پرندہ مارکیٹ میں ایسے ایسے پرندے دکھائی دیتے ہیں جو چڑیا گھر میں بھی موجود نہیں ہیں، مرغیوں کی اتنی اقسام ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اسی طرح طوطوں کی مختلف اقسام جن میں گرے پیریٹ ، کاک ٹیل، لوٹینو، فرشرز گرے سمیت ایسے ایسے رنگ برنگے طوطے موجود ہیں جو آپ نے اس سے پہلے نہیں دیکھے ہوں گے۔

بعض طوطے آپ کی خیرت پوچھ کر آپ کو حیران کردیتے ہیں، تیتر، بٹیر، مور،چکور، رنگ برنگی چڑیاں اور مختلف پالتو جانور بھی یہاں آپ کو مل جائیں گے، ایسے خوبصورت اور انتہائی دیدہ زیب پرندے اور پالتو جانور اس مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی آپ کا دل چاہے گا کہ فوراً خرید لیا جائے ، موٹی تازی غیر ملکی بلیاں بھی یہاں ملیں گی اور بندر بھی اس مارکیٹ میں آپ کو چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے نظر آئیں گے بعض پنجروں میں الو اور حضرت سلیمان ؑ کے درباری پرندے کی نسل سے تعلق رکھنے والا پرندہ ہد ہد بھی یہاں آپ کو مل سکتا ہے، ذرا آگے بڑھیں تو مشرقی دروازے کے ساتھ ہی پہلے پتنگوں کی ایک بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی جہاں رنگ برنگی پتنگیں دستیاب ہوتی تھیں، ان کے ساتھ ساتھ ڈور ، مانجھا، سدھی، چرخیاں اور دیگر سامان بھی مل جایا کرتا تھا لیکن تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد اب یہ مارکیٹ یہاں سے ختم کردی گئی ہے۔

تاریخی ایمپریس مارکیٹ کب اور کیسے بنی اس کے بارے میں مورخین بتاتے ہیں کہ 1839ء میں کراچی پر قبضہ کرنے والی برطانوی افواج کے سپاہیوں کے لئے کیمپ کے علاقے میں خرید و فروخت کے لئے جس بازار کی ابتداء کی گئی تھی وہ حیرت انگیز طور پر ترقی کرکے بہت جلد پورے شہر میں ’’کیمپ بازار ‘‘کے نام سے مشہور ہوگیا اور شہر کے دور دراز کے محلوں کے لوگ یہاں خرید فروخت کے لئے آنے لگے، کراچی کی اس وقت کی انتظامیہ نے اس بازار کی عوام میں مقبولیت دیکھتے ہوئے یہاں ایک عظیم الشان مارکیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، اس مجوزہ مارکیٹ کا ڈیزائن کراچی کے مشہور انجینئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے تیار کیا اور انہی کی نگرانی میں اس کی تعمیر مکمل کی گئی۔

الیگزینڈر ایف بیلی نے اپنی کتاب میں ’’ایمپریس مارکیٹ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ایمپریس مارکیٹ ایک دلکش عمارت ہے سپر اسٹرکچر کے لئے اس عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ تین کنٹریکٹرز کو دیا گیا تھا جس میں مسٹر جے ایس ایٹ فیلڈ، مسٹر ولی محمد جیون اور مسٹر ڈلو کھجو تھے۔ ان تینوں ٹھیکیداروں نے مل کر اس عمارت کو انتہائی توجہ اور لگن کے ساتھ مکمل کیا‘‘۔

ایمپریس مارکیٹ کا سنگ بنیاد اس وقت کے گورنر بمبئی سر جیمز فرگوسن نے 10 نومبر 1884 ء کو رکھا انہوں نے اسی روز سر ویلم میری ویدر کی یادگار کے طور پر تعمیر کئے جانے والے میری ویدر ٹاور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی ، سر میری ویدر 1868 ء سے 1877ء کے درمیان سندھ کے کمشنر رہے، فنڈز کی کمی کی وجہ سے دونوں منصوبوں پر سست رفتاری سے کام ہوا تاہم ایمپریس مارکیٹ کو ایک لاکھ 20ہزارو روپے کی لاگت سے مکمل کرلیا گیا۔ 12 مارچ 1889ء کو ایک رنگا رنگ تقریب میں کمشنر سندھ مسٹر رچرڈ نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا چونکہ اس سال ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی چنانچہ اس کی مناسبت سے اس عمارت کا نام ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا۔

کمشنر مسٹر رچرڈ نے افتتاحی تقریب کے موقع پر بتایا تھا کہ بمبئی کی کرافورڈ مارکیٹ اس کے ہم پلہ ہے تاہم کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کا ٹاور جو 140 فٹ بلند ہے وہ کرافورڈ مارکیٹ کے ٹاور سے 12 فٹ زیادہ بڑا ہے۔ اس ٹاور میں ایک بڑا گھڑیال نصب ہے جس کے اطراف ڈائل ہیں جو ایک زمانے میں دور دور سے نظر آتے تھے اور لوگوں کو وقت دیکھنے میں آسانی ہوتی تھی لیکن اب چاروں طرف بلند عمارتیں تعمیر ہونے کی وجہ سے یہ ٹاور دور سے نظر نہیں آتا۔ اس زمانے میں کراچی میں دو اور کلاک ٹاور تھے ایک سینٹ اینڈ ریو چرچ تھا جس کے ٹاور کی لمبائی 135 فٹ تھی جبکہ اس وقت کراچی کا بلند ترین ٹاور گریزن چرچ کا ٹاور آف ٹرینٹی تھا جس کی لمبائی 150 فٹ تھی۔

ایمپریس مارکیٹ میں 258 دکانیں تعمیر کی گئی تھیں عمارت کے اندر 46 فٹ چوڑائی کی چار گیلریاں بنائی گئی، درمیان میں 130 فٹ لمبا اور 100 فٹ چوڑا کھلا صحن رکھا گیا اس مارکیٹ میں 280 اسٹالز بھی بنائے گئے جہاں پھل، گوشت، سبزیاں ،خشک میوہ جات ، اجناس، برتن، مختلف قسم کے تیل، پلاسٹک کا سامان اور دیگر اشیاء دستیاب تھیں۔

چاروں طرف بیرونی جانب محرابی شکل کی کھڑکیاں دی گئیں، ان آرکیڈز کے ہر کونے پر پویلین ہیں جو آگے بڑھتے ہیں اور آرکیڈ کی چھت سے اوپر کی طرف اٹھتے ہیں، ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والے حصے میں ایک شاندار کلاک ٹاور تعمیر کیا گیا تھا، اس مارکیٹ کے قائم ہونے کے بعد کئی برس تک یہاں مقامی لوگوں کو خرید و فروخت کی اجازت نہیں تھی ، اس عمارت کو یورپین طرز تعمیر کے تحت تعمیر کیا گیا اس میں جودھپوری سرخ پتھر استعمال کیا گیا ۔

کراچی میں یورپین گوتھک طرز کی عمارتیں عجیب تضاد پیش کرتی ہیں، یہ اجنبی انداز تعمیر باہر سے درآمد کیا گیا تھا اور پھر اسے اس قدر چاہت کے ساتھ رکھا گیا کہ رفتہ رفتہ یہ عمارتیں ایک جادوئی معیار حاصل کرگئیں، ایمپریس مارکیٹ اس کی ایک شاندار مثال ہے، یہی وجہ ہے کہ 131 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ مارکیٹ اپنی خوبصورتی، دلکشی اور پختگی کے اعتبار سے بے مثال ہے اور آج بھی یہ کراچی کی مرکزی مارکیٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور اپنے ابتداء ہی سے کراچی کی شناخت بنی ہوئی ہے۔

ہندوستان میں برطانوی تعمیرات کے محقق جان مورس لکھتے ہیں کہ ’’برطانوی حکمراں کورڈ مارکیٹس کے شوقین تھے یعنی ایسی مارکیٹ جو اوپر سے ڈھکی ہوئی ہوں ‘‘۔ ہندوستان میں اگرچہ بعض کورڈ بازار موجود تھے مگر برطانوی حکومت نے یہاں شاندار اور متاثر کن عمارتوں میں بازار بنائے جو کہ برصغیر کے لئے ایک نئی بات تھی، جان مورس کے مطابق ان مارکیٹوں کی بدولت بے ہنگم پھیلی ہوئی دکانوں اور بازاروں کو یکجا کرنے میں مدد ملی اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہوسکا کہ ان کی مکمل چیکنگ کی جاسکے جس میں صحت و صفائی کا خیال، اوزان کا معائنہ، مقررہ قیمتوں پر اشیاء کی فروخت شامل تھی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی، اس وقت کراچی میونسپلٹی شہر میں 8مارکیٹوں کا انتظام سنبھالتی تھی، ان میں سب سے بڑی ایمپریس مارکیٹ تھی۔

ایمپریس مارکیٹ جس جگہ تعمیر کی گئی یہ جگہ مارکیٹ سے پہلے برطانوی حکومت کے خلاف 1857 ء کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والے فوجیوں کو موت کی سزا دینے کے لئے استعما ل ہوتی جنہیں توپ کے دھانے پر باندھ کر اڑا دیا جاتا یا سر عام پھانسی کی سزا دی جاتی۔13 اور 14 ستمبر 1857 ء کی رات بارہویں رجمنٹ میں بغاوت کرنے والے سپاہیوں کو توپوں کے سامنے رکھ کر اڑایا گیا تھا تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور بغاوت نہ کرسکیں۔ کراچی تب ایک چھوٹا سے قصبہ ہوا کرتا تھا جہاں زیادہ تر فوجی یا مچھیرے رہا کرتے تھے، قیام پاکستان کے بعد کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور آبادی بڑھتی چلی گئی۔

ایمپریس مارکیٹ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کے اطراف تجاوزات قائم کرنا شروع کردیں اور مارکیٹ کے اطراف بنا ہوا پارک ناجائز طور پر بنائی گئی دکانوں اور اسٹالز کے باعث ختم ہوگیا۔ مارکیٹ کی خوبصورتی اور دلکشی کو ان تجاوزات نے نگل لیا، دیکھتے دیکھتے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف قائم کی گئی دکانوں کی تعداد کم و بیش ایک ہزار سے زائد ہوگئی، ان دکانوں میں چائے کی پتی، اسٹیشنری، کپڑے، پان چھالیہ اور برتن فروخت کئے جاتے تھے جبکہ کئی دکانوں میں ’’نیلام گھر‘‘ بھی قائم تھے جہاں مختلف اشیاء نیلام کے ذریعے فروخت کی جاتی تھیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی نے 5 نومبر 2018ء کو یہ فیصلہ کیا کہ ان تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جائے اور تمام دکانیں اور مارکیٹیں ختم کرکے ایمپریس مارکیٹ کی اصل حیثیت کو بحال کیا جائے۔

یہ آپریشن تین مرحلوں میں شروع کیا گیا، پہلے فیز میں فٹ پاتھوں پر قائم تمام تجاوزات کو ہٹایا گیا، دوسرے فیز میں وہ تجاوزات جو دکانوں کے ساتھ قائم تھیں انہیں صاف کیا گیا جبکہ تیسرے فیز میں اندرون ایمپریس مارکیٹ جو تجاوزات قائم کرلی گئی تھیں ان کو ختم کرکے دکانوں کو اصل سائز اور حالت میں بحال کیا گیا، اس آپریشن کی نگرانی اس وقت کے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے کی جبکہ اتنی بڑی تعداد میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے پولیس اور رینجرز کا تعاون بھی حاصل کیا گیا تاکہ امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو اور آپریشن کسی بھی طرح مشکلات کا شکار نہ ہو، اس دوران ایک ہزار سے زائد پختہ دکانوں اور سینکڑوں ٹھیلوں اور پتھاروں کا ہٹایا گیا اس کارروائی میں چار سو اہلکاروں پر مشتمل افرادی قوت نے حاصل لیا۔

مارکیٹ کے ساتھ ساتھ دائود پوتہ روڈ ، زیب النساء اسٹریٹ ، مینسفیلڈ اسٹریٹ ، نیو پریڈی اسٹریٹ اور پارکنگ پلازہ کے اطراف سے بھی تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا جبکہ بھاری مشینری کا استعمال کرکے پختہ بنی ہوئی عمارتوں کو گرایا گیا، بعدازاں ایمپریس مارکیٹ کے چاروں اطراف پارک تعمیر کرنے کا آغاز کیا گیا اور تجاوزات سے محفوظ رکھنے کے لئے بائونڈری وال تعمیر کی گئی، زمین کو ہموار کرکے سبزہ کاری کی گئی۔ اس طرح ایمپریس مارکیٹ اور ملحقہ علاقے ایک بار پھر کشادہ اور دلکش نظر آنے لگے اور علاقے کا نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا شہریوں نے اس عمل کو بے انتہا سراہا اور بلدیہ عظمیٰ سے یہ مطالبہ کیا کہ کراچی میں جتنی بھی تاریخی عمارات ہیں انہیں ایمپریس مارکیٹ کی طرز پر اصل حالت میں بحال کیا جائے۔

حال ہی میں ایڈمنسٹریٹر کراچی و مشیر قانون سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اعلان کیا ہے کہ مئی 2022 ء سے تاریخی ایمپریس مارکیٹ کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جائے گا اور اسے اصل حالت میں بحال کیا جائے گا جبکہ عمارت پر نصف گھڑیال کی بھی مرمت کی جائے گی کیونکہ یہ مارکیٹ ہمارا تاریخی ورثہ ہے اس لئے اس عمارت کے اصل حسن کو برقرار رکھنا ضروری ہے، حکومت سندھ نے اس حوالے سے فنڈز مختص کردیئے ہیں۔

توقع ہے کہ اسی سال دسمبر تک ایمپریس مارکیٹ کی تزئین و آرائش کرکے اصل حالت میں بحال کردیا جائے گا اور شہری ایک بار پھر اطمینان و سکون کے ساتھ اس تاریخی، خوبصورت، دلکش اور اپنی یادوں میں بسی مارکیٹ سے اپنی ضروریات اور من پسند کی اشیاء خرید سکیں گے۔