کنفیوژ 75 سال …

August 13, 2022

روز آشنائی… تنویرزمان خان، لندن
پاکستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے75برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی سیاسی جماعتیں آزادی کا نعرہ لگا کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہیں اور مقبول عام بیانیہ بناکر پیش کررہی ہیں۔ اس ایشو اور تقسیم ہند کے 75برس پہلے کا مختصر جائزہ لینے سے پہلے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صرف23سال بعد ہی پاکستان میں سے ایک اور ملک یعنی بنگلہ دیش نکل کے آزاد ریاست بن گیا تھا۔ ان باتوں پر غور کرنے کے لیے ہمارا کالم تو بہت ناکافی ہے۔ البتہ ہم تھوڑا پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑا کر حقیقت کے کچھ پردے ضرور چاک کرسکتے ہیں تاکہ ہمیں اپنی آج اور آنے والے کل کی بابت صحیح حکمت عملی بنانے کا موقع ملے۔ مجموعی طور پر اس تقسیم میں دو ہی صوبے متاثر ہوئے تھے۔ یعنی بنگال اور پنجاب، بنگال کو تو انگریزوں نے پہلے بھی ایک مرتبہ1905ء میں تقسیم کیا تھا لیکن1947ء میں ریڈ کلف ایوارڈ میں مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ بن گیا اور مغربی بنگال ہندوستان پھر مشرقی پنجاب انڈیا کے کھاتے میں چلا گیا اور مغربی حصہ پاکستان کے پاس آگیا۔ تقسیم ہند کا باقاعدہ مطالبہ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ نے1940ء میں کیا ۔ 1944ء میں گاندھی، جناح ملاقات میں طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلم لیگ سمجھتی ہے کہ مسلم اکثریت ہے، وہاں رائے شماری کروالیں گے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ کون کس طرح رہنا چاہتا ہے۔ علیحدہ ملک یا ہندوستان، اس زمانے میں انگریز اسٹیبلشمنٹ (مقتدرہ) اور وائسرائے، کانگریس اور گاندھی کے خلاف تھے کیونکہ کانگریس انگریز کو ہندوستان سے مکمل طور پر نکالنا چاہتی تھی۔ بعد میں قائداعظم اس رائے شماری کے حق میں نہ رہے۔ پھر اسلام کے نام پر بننے والی تحریک میں مسلمانوں کی پنجاب میں سکھوں کے ساتھ اور مجموعی طور پر انڈیا میں ہندووئوں کے ساتھ دشمنی بہت بڑھ گئی، جو بالآخر تقسیم کے موقع پر بڑے قتل عام پر انجام پذیر ہوئی۔ پنجاب بہت بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ خوشحال علاقہ تھا جہاں ہندوئوں اور سکھوں کے بہت کاروبار اور جائیدادیں تھیں۔ آج بھی لاہور شہر کی پرانی عمارتیں دیکھیں تو بیشتر ہندوئوں، سکھوں یا انگریزوں کے ناموں سے عبارت ہیں۔ یہی وجہ بھی بنی کہ مغربی پاکستان بلکہ مغربی پنجاب سے جب ہندوئوں اور سکھوں کو مذہبی بنیاد پر ہونے والی تقسیم پر اپنے گھربار چھوڑنا پڑے تو مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوئی۔ انگریزوں نے مسلم لیگ کے سہولت کار کا کردار ادا کیا کیونکہ انگریز دوسری جنگ عظیم کے بعد سووویت یونین کے خلاف اپنا کیمپ مضبوط کررہے تھے اور کانگریس سوشلسٹ نظریات کی طرف جھکائو رکھتی تھی بلکہ1976ء میں انڈیا کے آئین کے ابتدایے میں انڈین ڈیمو کریٹک سوشلسٹ ریپبلک لکھ دیا گیا تھا لیکن پاکستان نے متوازن حکمت عملی کی بجائے مغرب کی جانب جھکائو کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا۔ آج افغان جہاد اس کی واضح مثال کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف ادوار میں ابھرنے والی مذہبی منافرت نے ہمیں مستحکم نہیں ہونے دیا۔ کبھی احمدیوں کے خلاف تو کبھی دیوبندی، بریلوی اور کبھی شیعہ، سنی فسادات، دھماکے اور بدامنی دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔ یہی وجہ بھی ہے کہ ہم پہلے24سال میں اپنا کوئی متفقہ آئین نہیں بناسکے تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلم لیگ پاکستان بنانے کی آخری دہائی میں کسی ایک بیانیے پر متفق نہیں تھی۔ بلکہ مختلف جگہوں پر بیانیے میں ٹھوس یگانگت نہ ہونے کی وجہ سے آئین بھی نہ بن سکتا تھا بلکہ قائداعظم محمدعلی جناح نے ایک مرتبہ مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے ایک وفد سے ملاقات میں کہا تھا کہ انہوں نے آئین کا معاملہ آئین ساز اسمبلی پر چھوڑ دیا ہے لیکن بعد میں اتفاق رائے ممکن نہ ہوسکا۔ آج ایک آئین ہونے کے باوجود ہم جمہوری پاکستان یا شرعی پاکستان کی بحث سے باہر نہیں آسکے۔ مذہبی جماعتیں خلافت کا راگ الاپتی ہیں تو کوئی اسے ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے اور کوئی جمہوری سیاست کا علم اٹھائے ہوئے ہے۔ مذہب کا نعرہ باآسانی قابل استعمال ہے بلکہ پاکستان کی مقبول ترین پارٹی پی ٹی آئی مذہب کو دبا کے استعمال کررہی ہے۔ انگریز کے زمانے میں پنجاب پورے انڈیا میں زراعت میں سب سے آگے تھا لیکن آج ہم زرعی ملک کہلانے کے باوجود بنیادی غلہ اور خوردونوشی درآمد کرتے ہیں۔ یہ دراصل ہماری حکومتوں، ریاست اور سیاسی پارٹیوں کی نااہلی ہے کہ ہم کوئی ٹھوس اقتصادی پالیسی نہیں بناسکے۔ ہم نے تعلیمی نظام کا اپنے ہاتھوں سے بیڑھ غرق کیا۔ انگریز ہندوستان میں لبرل تعلیم لے کر آیا تھا۔ جبکہ مسلمانوں کی تعلیم اس وقت میں مساجد اور مدارس سے منسلک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آکر ہم نے کھلے ذہن کے پنپنے کے دروازے بند کردیے ہیں۔ ہم جو1947ء کے بعد برسوں میں خطے میں معاشی طور پر سب سے آگے تھے۔ اب سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان تمام پسماندگی کے اسباب پر تاریخی طور پر بھی اور عہد حاضر کے تقاضوں کو بھی زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔