• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آلودہ آلات سے ختنہ کرنے پر 58 سالہ ڈاکٹر کو 5 سال 7 ماہ قید کی سزا

لندن (پی اے ) لندن کراؤن کورٹ نے برمنگھم سے تعکق رکھنے والے ایک 58 سالہ ڈاکٹر محمد صدیق کو آلودہ آلات سے خطرناک طریقے سے ختنہ کرنے پر جس کی وجہ سے بچوں کو بہت زیادہ درد برداشت کرنا پڑتاتھا 5 سال 7 ماہ قید کی سزا سنادی۔ 58 سالہ ڈاکٹر محمد صدیق لوگوں کے گھروں پرجاکر بچوں کے ختنہ کرتاتھا۔ہائجن کے اصولوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس کے بعض مریض درد کی شدت سے سسکتے رہتے تھے ۔ صدیق نے 25 جرائم کا اعتراف کیا تھا، جن میں حقیقی جسمانی نقصان پہنچانے کے 11 الزامات، بچوں پر ظلم کے 6 الزامات، اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نوجوان اور کمزور مریضوں کو صرف نسخے کے مطابق دوا دینے کے8الزامات شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ صدیقی کو معطل کر دیا گیا اور بعد میں اس کی رجسٹریشن بھی ختم کر دی گئی لیکن وہ فیملی کے گھروں میں ختنہ کرتے رہے، جراثیم سے پاک کئے بغیر آلات استعمال کرتے رہے اوران کے اس عمل کے سبب متعدد چھوٹے بچوں کو اسپتال لے جانا پڑا، جن میں سے ایک لڑکا ʼتقریبا مر چکا تھا۔ یہ الزامات 21 لڑکوں سے متعلق ہیں اور اپریل 2014 اور جنوری 2019 کے درمیان کے ہیں۔ جج نوئل لوکاس کے سی نے کہا کہ وہ صدیقی کے متاثرین کے رشتہ داروں کے خدشات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہا کہ ختنہ کا ضابطہ اب طویل عرصے سے زیر التواہے۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملے سے ظاہر ہوت ہے کہ اب حفاظتی اقدامات اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قانون فوری طور پر نافذ کیا جانا چاہئے۔جج لوکاس کے سی نے صدیقی کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے دسمبر 2020 میں پہلی بار فوجداری عدالتوں میں ان کے خلاف قانونی کیس آنے کے بعد سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ صدیقی نے کیس کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئےنسل پرستی اور تعصب کے الزامات اور قانونی عمل کے معیار کے بارے میں بے بنیاد شکایات کا سہارا لیااور دانستہ اور مضحکہ خیز انداز میں مقدمے کو تاخیرکا شکار کرنے کی کوشش کی ۔ جج نے کہا کہ صدیقی کے روئیے کی وجہ سے ان لوگوں کو حقیقی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جنہیں ان کی بلاجواز شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔ جج نے نوٹ کیا کہ صدیقی نے کئی مواقع پر ان سے خود کو کیس سے الگ کرنے کے لئے کہا تھا ، انہوں نے مدد کی پیش کش کو مسترد کردیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ سماعت غیر منصفانہ ، مسلم مخالف اور صیہونی تھی۔ جج نے صدیقی سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ شکایتیں کرتے وقت آپ نے اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے کہ آپ کے متاثرین مسلمان لڑکے اور ان کے اہل خانہ ہیں۔ صدیقی نے اپنی درخواست کو لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں جیوری ٹرائل میں تبدیل کر دیا جس میں انہوں نے اپنی نمائندگی کی۔ مزید 14 الزامات کو فائل پر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ پانچ سالہ سنگین منظم جرائم کی روک تھام کےحکم کے تحت صدیقی کو رہا ہونے کے بعد بغیر دواؤں کے ختنہ کرنے سے روک دیاجائے گا یہ عمل اسی دن سے شروع ہوگا جس دن وہ جیل سے رہا ہوگا۔ جون 2012 سے صدیقی ایک نجی موبائل ختنہ سروس چلاتے تھے اور یونیورسٹی اسپتال ساؤتھمپٹن این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ میں پیڈیاٹرک سرجری میں کام کرتے ہوئے انستھیٹک حاصل کرتے تھے۔ انہوں نے برطانیہ بھر کا سفر کیا اور ملاقات کے ذریعے ایک ماہ سے 15 سال کی عمر کے مریضوں کے دواؤں کے بغیرختنے کیے۔ پراسیکیوٹر بین ڈگلس جونز کے سی نے جج کو بتایا کہ 2015 میں صدیقی کو جی ایم سی رجسٹر سے اس وقت نکال دیا گیا تھا جب میڈیکل پریکٹیشنرز ٹریبونل سروس کے ایک پینل نے انہیں 4بچوں کے ان کے گھروں پر جاکر غیر طبی طریقے سے ختنہ کرنے میں کا قصوروار پایا تھا، جن میں سےان کے ایک عمل کے نتیجے میں بچہ تقریبا مر چکاتھا۔ عدالت میں مریض اے کے نام سے جانے جانے والے اس لڑکے کو سرجری کے دوران جسم کے ایک حصے کو بے حس کرنے کیلئے استعمال ہونے والی بوپیویکین کا انجکشن لگوانے کے بعد فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا۔ ڈگلس جونز نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ بچہ تقریبا مر چکا تھا اور اسے ایمبولینس کے ذریعے اے ای لے جانا پڑا۔ موت یا موت کے قریب ایک ایسی چیز ہے جس کی توقع اس مدعا علیہ (صدیقی) کو اپنے تجربے کو دیکھتے ہوئے کرنی چاہیے تھی۔ اس کی وجہ سے بچے کو غیر ضروری تکلیف اور درد برداشت کرنا پڑا ۔ اس واقعے کے بعد جی ایم سی رجسٹر سے نکالے جانے کے باوجود صدیقی 2019 تک اپنی خدمات جاری رکھنے میں کامیاب رہے، کیوں کہ غیر طبی ختنہ غیر منظم ہے اور اسے رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر کے ذریعہ انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے۔جج نے 15 سال کی عمر کے ایک لڑکے کے بارے میں بھی سنا صدیقی نے 2017 میں جس کا ختنہ کیا تھا۔ صدیقی ابتدائی طور پر بچے کی سرجری کرنے سے ہچکچا رہے تھے، جسے اس کی عمر کی وجہ سے عدالت میں چائلڈ اے کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن اس کے والدین سے 300 پاؤنڈ وصول کرنے کے بعد اس نے سرجری کی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ نوجوان کو سرجری کے لیے اسپتال لے جایا گیا کیونکہ آپریشن کے کچھ ہی دیر بعد خون کے لوتھڑے بننے کی وجہ سے اس کا عضو خون سے پھٹ گیا تھا۔ اسپتال میں ڈاکٹروں نے دیکھا کہ چائلڈ اے کے عضو میں پلاسٹی بیل ختنہ کی انگوٹھی لگائی گئی تھی جو بہت چھوٹی تھی۔ ڈگلس جونز نے جج کو بتایا کہ اس کی وجہ سے بہت زیادہ درد اور تکلیف ہوئی اور اس نے اس عمل کو خطرناک بنا دیا ۔ استغاثہ نے جج کو بتایا کہ صدیقی نے غیر جراثیم کش اوزار بھی استعمال کیے، جن میں قینچی اور ٹوویزر کے کھلے ہوئے جوڑے بھی شامل تھے، جنہیں وہ طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے بیگ میں ڈال لیتا تھا۔

یورپ سے سے مزید