• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
گزشتہ سے پیوستہ
گزشتہ ہفتے کے کالم میں میں نے امریکہ کے دھونس اور بدمعاشیوں کی پالیسی پر کچھ تاریخی اسباب ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ جو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ امریکہ کی ریاستی پالیسی دنیاپر عقابی نگاہیں رکھتی ہے اور موقع پاتے ہی جھپٹتی بھی ہے ۔ اسی چھیننے اور جھپٹنے کی صلاحیت کو ہم سپرپاور کہتے ہیں۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سپرپاور کی طاقت جاننے کے لئے اس کی عسکری طاقت اور اقتصادی طاقت دونوں کو جاننا ضروری ہے۔ اس وقت دونوں قوتوں میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ چین اب اقتصادی دوڑ میں امریکہ سے سبقت لے جانے کے قریب ہے۔ دنیا میں ابھی تک دو بڑی عالمی جنگیں ہو چکی ہیں۔ دونوں جنگیں بنیادی طور پر یورپ میں ہی ہوئی تھیں اور یہ تمام بڑی یورپی طاقتیں اپنی صنعتوں کو سستا خام دینے کے لئے اپنی نوآبادیوں میں اضافہ کرتی جا رہی تھیں۔ حتیٰ کہ زمین ختم ہوگئی اور ان ممالک کی بھوک میں اضافہ ہو گیا اور ایک دوسرے کا مال چھینے بغیر اس لوٹ کھسوٹ کو آگے بڑھانا ممکن نہیں رہا تھا۔ سو پہلی عالمی جنگ ہوئی پھر دوسری اور معاملات نے نئی شکل اختیار کی۔ امریکہ ان دونوں بڑی جنگوں سے الگ بیٹھا اپنے لئے مواقع بنا رہا تھا۔ اس کی شمولیت اتنی تھی کہ اس نے ان دونوں جنگوں میں ہتھیار سپلائی کئے تھے۔ چند محاذوں پر امریکہ کو کچھ جانی نقصان جھیلنا پڑا لیکن معاشی طور پر امریکہ کی چاندی ہوگئی۔ اس نے خوب دولت کمائی اور جرمنی، فرانس اور اٹلی کو اتنے ہتھیار بیچے کہ امریکہ منافع میں رہا۔ دونوں عالمی جنگیں امریکہ کو بہت راس آئیں اور یورپی ممالک کمزور تر ہونے لگے۔ ان کی کرنسی گرنے لگی تو انہوں نے سوچا کہ بچت اسی میں ہے کہ ہم امریکی ڈالر خرید لیں۔ جس سے امریکی ڈالر کی قدر بہت بڑھ گئی اور چوالیس ممالک نے اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس طرح امریکی ڈالر انٹرنیشنل کرنسی بن گیا اور دنیا کا کاروبار اور اس کی قدر امریکی ڈالر سے متعین ہونے لگی۔ انہی جنگوں کے خاتمے پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ جیسے ادارے بھی معرض وجود میں آئے اور ان اداروں نے فیصلے کئے کہ اب وہ ٹریڈ اور تجارت میں خود کو گلوبلائز کریں گے یعنی تجارت کی کوئی بانڈری نہیں ہوگی۔ یعنی جو بات ان عالمی جنگوں کا سبب بنی تھی وہ اب قومی سرحدوں سے نکل کر انٹرنیشنل ہوگئی۔ لیکن ہوا یہ کہ اس تمام پیش رفت کے نتیجے میں دو سپرپاور ز بن کے سامنے آگئیں روس اور امریکہ۔ اب دونوںنے آپس میں براہ راست لڑنے کی بجائے پراکسی وارز Proxy wars شروع کردیں جسے کولڈ وار یا سرد جنگ کا دور کہا جاتا ہے جہاں دوسروں کی سرزمین کو اپنے اپنے زیراثرلانے کے لئے لڑائی لڑی جانے لگی۔ امریکہ کمیونسٹ اثرورسوخ میں آنے والی ریاستوں کو تخت و تاراج کرنے کی کوشش کرتا اور روس امریکی طاقت کو روکنے کی کوشش کرتا اور اپنا اثر بڑھانے کے لئے اپنی ہم خیال قوتوں کو سپورٹ کرتا ۔ دونوں سپرپاورز نے دہشت گرد گروپ بھی بنائے اور سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنے مفادات کے حوالے سے سپورٹ کرتے۔ مثال کے طور پر ویتنام لڑائی اور بعد میں افغانستان میں طالبان کو روسی اثرکم کرنے کے لئے جنم دیا اور پال پوس بھی کی ۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں بڑی دہشت گردی نے جڑیں پکڑیں جسے امریکہ نے نیوورلڈ آرڈر قرار دیا۔ دیگر کئی ممالک میں اس سرد جنگ کے نتیجے میں کئی ممالک امریکی اثر میں چلے گئے اور اس کے اوپر انحصار کرنے لگے جو امریکی طاقت میں بڑے بڑھاوے کا سبب بنا۔ آج دنیا بھرمیں امریکہ کے آٹھ سو سے زیادہ فوجی اڈے ہیں جو کہ دنیا کے ستر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان تمام ممالک میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لئے امریکہ نے اپنی عسکری قوت میں خوب اضافہ کیا۔ 1949 میں یورپی ممالک کے ساتھ مل کے روس کے اثر کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ نے نیٹو بنائی اور یوں یورپی معیشتیں بھی امریکہ پر انحصار کرنے لگیں۔ ادھر سویت یونین ٹوٹ گیا یوں امریکہ اکیلا دنیا کی سپرپاور بن گیا۔ کچھ داخلی اسباب بھی امریکی طاقت کو بڑھاوا دینے کا سبب بنے جو ان جیوپولیٹیکل اسباب سے ہٹ کے تھے۔ وہ تھا کہ امریکہ کی پالیسی دنیا بھر کے ٹیلنٹ کے لئے پرکشش رہی اور دنیا بھر کے ٹیلنٹ کو ہمیشہ خوش آمدید کہا گیا۔ اس کے لئے وظائف مقرر کئے گئے، ویزا پالیسی نرم کی گئی جو آج تک موجود ہے۔ یوں دنیا بھر سے اپنے اپنے شعبوں میں ٹاپ کرنے والوں کو امریکہ کھینچ کے لے گیا۔ انہیں سہولتیں اور تعلیم و تربیت دی جو آج تک دی جاتی ہے۔ جدت کو پروموٹ کیا جاتا ہے اس سب کچھ کا مطلب یہ نہیں کہ آج ہر امریکی امیر ہے بلکہ آج بھی وہاں 35 فیصد لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں ان کی آمدنی کم ہے اور امریکی دولت کا 45 فیصد صرف امریکہ کے دس فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ فاسٹ فوڈ نے نوجوانوں کو نئی نئی بیماریوں میں جکڑ رکھا ہے بے کار لوکل امریکی اعلیٰ تعلیم تک پہنچنا کم آمدنی کی وجہ سے برداشت نہیں کرسکتے اور جو طلبہ پڑھتے ہیں وہ بھاری قرضوں تلے دب جاتے ہیں۔ اسلحے کے قوانین بہت نرم ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سال پانچ، چھ سو سے زائد امریکی اس گن کلچر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سپرپاور بنے رہنے کے چکر میں انسانیت چکنا چور ہو چکی ہے۔ اس مفادات کی لڑائی نے پوری دنیا میں عام انسانوں کو غیرمحفوظ اور بے بس کر دیا ہے اور ساری دنیا ان سپرپاورز کی غلام بن کے رہ گئی ہے۔
یورپ سے سے مزید