جدوجہد آزادی کے عظیم کردار

August 14, 2022

برصغیر میں انگریزوں اور کانگریس کے خلا ف مسلمانوں کی عظیم جدوجہد، جسے تاریخ میں’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کئی پہلوؤں سے 20ویں صدی کی ایک منفرد اور ممتاز تحریک تھی۔ اس کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سمیت دیگر ممتاز قائدین نے کی، جس کے نتیجے میں مسلمان ایک آزاد مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ’’پاکستان‘‘ اُبھر کر سامنے آیا۔ ملکی تاریخ میں تحریکِ پاکستان خاص اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر تحریکِ آزادی کے ہیروز کا ذکر کرتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح ؒ

تعمیر پاکستان کے لیے قائد اعظم کی خدمات کو مختصراً بیان کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ قدرت جب کسی قوم پر مہربان ہوتی ہے یا اسے کسی قوم کی تقدیر سنوارنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اس میں ایسے بے لوث اور سرفروش قائد پیدا کر دیتی ہے، جو اس قوم کی ڈولتی کشتی کو اپنے حسنِ تدبر سے ساحل تک لےآتے ہیں۔ قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسے ہی قائد بن کر اُبھرے۔ قائد اعظم ایک ایسی شخصیت تھے، جن کی عظمت اور بلندیٔ کردار کے مخالفین بھی معترف تھے۔

بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ہمشیرہ وجے لکشمی پنڈت نے کہا تھا، ’’اگر سو گاندھی، سو نہرو اور سو پٹیل مسلم لیگ کے پاس ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف اور صرف محمد علی جناح ہوتا، تو پاکستان کبھی نہ بنتا‘‘۔ قائد اعظم نے 1913ء میں مسلم رہنماؤں سر آغا خان سوئم، علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کی درخواست پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی۔ محمد علی جناح نے اپنے تدبر، فہم وفراست، سیاسی دور اندیشی اور جہد مسلسل کے باعث مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی۔

علامہ محمد اقبال ؒ

1877ء میں سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہونے والے علامہ اقبال 20ویں صدی کے عظیم شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی نامور شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بحیثیت سیاستدان علامہ اقبال کانمایاں کا رنامہ تصورِ پاکستان پیش کرنا تھا، جو انھوں نے 1930ء میں الٰہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیا۔ یہ تصور بعد میں قیامِ پاکستان کی بنیاد بنا۔ وہ خواب جسے علامہ اقبال نے دیکھا، وہ پوری ملت کی امنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان بن گیا۔

سرسید احمد خان

مؤرخین کے مطابق برصغیر میں آزادی کا بیج بونے کا سہرا ’’سرسید احمد خان‘‘کے سر ہے۔ سر سید ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے دو قومی نظریے کے ذریعے دنیا بھر کو آشکار کروایا کہ مسلمان اور ہندو دوالگ الگ قومیں ہیں۔ یہی وہ نظریہ تھا جو بعد میں پاکستان کے وجو د کا سبب بنا۔ سرسید احمد خان برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار بھی تھے۔ وہ یہ محسوس کرچکے تھے کہ انگریزوں کے دورِحکومت میں مسلمانوں کی زبوں حالی سے نجات کا واحد راستہ انگریزی زبان اور جدید تعلیم کا حصول ہے۔

انھوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کے لیے علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی ابتدا 1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ کےقیام سے کی گئی۔ یہ مدرسہ 1875ء میں ایم اے او اسکول اور پھر1877ء میںعلی گڑھ کالج کے قیام کا باعث بنا۔ سرسید کی علمی تحریک کے نتیجے میںتحریکِ پاکستان کے لیے کارکنوں کی تعلیم یافتہ کھیپ تیار ہوئی، جنہوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1945-46ء کے انتخابات کے دوران علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے ہراول دستے کا کام کیا۔

مولانا شوکت علی

1873ء میں رام پور میں پیدا ہونے والے مولانا شوکت علی خان نے بھی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا شوکت علی خان نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جس کے بعد انھوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1896ء سے1916ء کے دوران انھوں نے سرکاری طور پر خدمات انجام دیں، بعد ازاں آزاد ریاست کی جدوجہد کے لیے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے1919ء میں اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ تحریک خلافت کی بنیاد ڈالی۔

اس کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہفتہ وار اردو اور انگریزی زبانوں میں جریدہ نکالا۔ سیاسی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے اور انگریزوں کے خلاف مواد شائع کرنے کے سبب انھیں طویل عرصہ قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔ 1928ء میں نہرو رپورٹ اور کچھ دیگر اختلافات کے سبب انھوں نے مسلم لیگ کی پالیسیوں کی حمایت شروع کر دی اور محمد علی جناح کے ساتھ مل کر تحریکِ پاکستان میں پیش پیش رہے۔

مولانا محمد علی جوہر

تحریکِ پاکستان کی تاریخ مولانا شوکت علی خان کے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر نا صرف جنگ آزادی بلکہ اسلام کے بھی عظیم سپاہی تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کے کردار کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے مسلمان لیڈر تھے جنہوں نےانگریز حکمرانوں اور کانگریس کے قائدین مثلاً مہاتما گاندھی ، موتی لال نہرو اور لالہ لجپت رائے کو چیلنج کیا۔

حتیٰ کہ 1926ء میںموتی لال نہرو سے ہونے والی ملاقات میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ماسوائے مہاتما گاندھی، موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو کے تمام کانگریسی قائدین مسلمانوں کے دشمن ہیں‘‘۔1906ء میں بننے والی مسلم لیگ کے بانیان میں مولانا محمد علی جوہر کانام بھی شامل ہے۔ انھوں نے1911ء میں کلکتہ سےاخباری دنیا میں تہلکہ مچانے والا انگریزی ہفت روزہ اخبار ’’کامریڈ‘‘ جاری کیا۔ یہی نہیں اردو اخبار ’ہمدرد‘کے بانی بھی آ پ ہی تھے۔ دونوں اخبارات نے مسلمانانِ پاک و ہند کا سیاسی تصور بیدار کرنے میں بڑی مدد کی۔

نواب لیاقت علی خان

تحریک آزادی کا ذکر محسن ملت اورپاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام کے بغیر ادھورا ہے۔ یکم اکتوبر1895ء کو ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہونے والے نواب لیاقت علی خان نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا، جس کے بعد انھیں انڈین سول سروس میںنوکری کی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے انکار کرتے ہوئے اپنی زندگی قوم کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے1921ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شامل ہوئے۔تقریباً ایک سال بعد وہ ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے اس کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

اگلا برس آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے گویا ایک نیا جنم ثابت ہوا، جس کی منزل مسلمانوں کیلئے ایک آزاد مملکت کا قیام تھا۔ پورے ہندوستان میں جب مسلم لیگ کی باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا عمل شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ لیاقت علی خان تحریکِ آزادی کے حوالے سے ہر جدوجہد میں قائداعظم کے شانہ بشانہ رہے، اسی وجہ سے قائداعظم نے انھیں اپنا دست راست قرار دیا۔