ڈینگی سے بچاؤ کیلئے احتیاط اور علاج لازمی ہے

September 15, 2022

پاکستان بھر میں جولائی سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، اس موسم میں مکھیوں اور مچھروںکی بہتات ہوجاتی ہے۔ جگہ جگہ بارش کا پانی جمع رہنے سے مچھروں کی افزائش ہوتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مچھروں کے ذریعے ہونے والی یہ بیماریاں بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ اسی لیے مچھروں سے تحفظ کے لیے سخت احتیاط کرنی ضروری ہے، خاص طور پر اگر گھر میں چھوٹے بچے موجود ہیں۔

ڈینگی کیسے لاحق ہوتا ہے؟

ڈینگی کی بیماری ایک مخصوص مادہ مچھر ایڈیس ایجپٹائی (Aedes Aegypti)کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ مچھر انسانوں کو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت کاٹتا ہے۔ ڈینگی پھیلانے والا مچھر عام طور پر زیبرے کی طرح دھاری دار ہوتا ہے اور ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ یہ مچھر صاف پانی میں افزائش پاتا ہے۔

بارشوں کے بعد ان مچھروں کی افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کے کاٹنے سے ڈینگی بخار کے کیسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ایک متعدی بیماری ہے اور ایک مخصوص وائرس سے پھیلتی ہے۔ کمزور قوت مدافعت والے افراد عام طور پر ڈینگی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہ بیماری چند ہی روز میں خطرناک صورتحال اختیار کرلیتی ہے اور موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

علامات

ڈینگی کی چار اقسام ہیں، اس کی ایک قسم سے متاثرہ شخص میں زندگی بھر کیلئے صرف اسی قسم کی وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہو سکتی ہے لیکن دوسری سے وہ پھر بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ مریض میں چاروں اقسام میں سے صرف ایک ہی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے ظاہر ہوتے ہی فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا مرض کی شدت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

ابتدائی علامات میں تیز بخار، جسم میں شدید درد اور کمزوری کا احساس، ٹانگوں اور جوڑوں میں درد، سر درد، آنکھوں کے پیچھے درد، منہ کے ذائقہ میں تبدیلی، چہرے کا رنگ سرخ یا پھر جسم کے بعض اعضا کا گلابی پڑجانا، بے ہوشی، پیشاب کے رنگ کا گہرا ہوجا نا اور کم آنا، دھڑکن کا تیز ہونا،پیٹ میں درد،قے ہونا اور سردی لگنا شامل ہیں۔

اس بیماری میں مریض کے جوڑوں اور پٹھوں کا درد اتنی شدت اختیار کرلیتا ہے کہ اسے اپنی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، اسی لیے اس کو’بریک بون فیور ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جسم میں پلیٹلیٹس کی کمی ہونا ہے۔ عمومی طور پر ایک صحت مند شخص میں پلیٹلیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ فی مائیکرولیٹربلڈ ہوتی ہے۔ موسمی بخار میں یہ کم ہوکر 90ہزار سے ایک لاکھ ہوسکتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی صورت میں پلیٹلیٹس بہت زیادہ کم ہوکر تقریباً 20ہزار یا اس سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔

تشخیص کیلئے ٹیسٹ

ڈینگی کی علامات ظاہر ہونے پر جلدازجلد تشخیص ہونا ضروری ہے تاکہ بروقت علاج کیا جاسکے۔ اس کیلئے ڈاکٹرز مختلف ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ متاثرہ شخص کے خون کا نمونہ لے کر ذیل میںدرج ٹیسٹ کے ذریعے بیماری ہونے یا نہ ہونے کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

٭ ڈینگی وائرس کی تصدیق کے لیے مالیکیولر ٹیسٹ (PCR) ٹیسٹ کروایا جاتا ہے، جس میں اس بات کا بھی پتہ لگایا جاتا ہے کہ کس قسم کا ڈینگی وائرس انفیکشن کی وجہ بنا ہے۔

٭اینٹی باڈی ٹیسٹ IgMاور IgG کے ذریعے متاثرہ شخص کے مدافعتی نظام سے خارج ہونے والی اینٹی باڈیز سےڈینگی کی تشخیص کی جاتی ہے۔

٭کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ(CBC)سے متاثرہ شخص میں پلیٹلیٹس کی تعداد کا پتہ لگایا جاتا ہے، کیونکہ ڈینگی سے متاثرہ شخص میں فوری طور پر پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے مریض میں ہیموگلوبن، Hematocrit اور ریڈ بلڈ سیلز(RBC)کی تعداد کا بھی پتہ لگایا جاتا ہے۔

٭ بیسک میٹابولک پینل (BMP) ٹیسٹ کے ذریعے مریض کے گردوں کی حالت کا پتہ چلایا جاتا ہے کہ آیا گردے ٹھیک کام کررہے ہیں یا نہیں۔

علاج

تحقیق سے ثابت ہے کہ ڈینگی کا مرض ٹائیفائیڈ سے زیادہ نقصان دہ نہیں، بشرطیکہ اس کا علاج بروقت شروع ہوجائے۔ اس وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 90 فیصد مریض عام علاج معالجے اور غذائی ردو بدل سے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔

ایسے مریض جو ڈینگی وائرس کی زائد مقدار خون میں سرائیت کرجانے سے نازک صورتحال تک جاپہنچیں، ان کو صاف خون لگا کر اس وائرس سے نجات دلائی جاسکتی ہے لیکن انتقال خون کے وقت تسلی کرلی جائے کہ وہ دیگر تمام متعدی امراض کے وائرس، جراثیم اور بیکٹیریا سے پاک ہو۔

مریض کی غذا

ڈینگی سے متاثرہ شخص کو ایسی غذائیں دینی چاہئیں جو اس کی قوت مدافعت کو بڑھائیں۔ انار اور ٹماٹر قدرتی طور پر بیماریوں کے خلاف بہترین کام کرتے ہیں جبکہ ادرک ، لہسن او ر پیاز اینٹی وائرل اور اینٹی بائیوٹک خصوصیات کے حامل ہیں۔ مریض کو زود ہضم اور ہلکی غذائیں کھلائی جائیں، اس کے علاوہ سبزیاں پکاتے وقت سرخ مرچ کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ ہری مرچ اور ہلدی کامناسب استعمال کریں کیونکہ ہلدی بھی بدنی مدافعتی نظام میں بہتری کا ذریعہ بنتی ہے۔

ڈینگی کے مریض کیلئے شہد کا استعمال بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ نیم گرم پانی میں شہد ملا کر پینے سے بھی ڈینگی بخار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سیب، ناشپاتی اور انار کے جوس میں چند قطرے لیموں ڈال کر پینے سے بھی ڈینگی بخار میں آرام ملتا ہے۔ پپیتے کے پتوں کا قہوہ بھی قوت مدافعت بڑھاتاہے۔ پپیتا، ڈینگی میں متاثرہ ہونے والے پلیٹلیٹس کو بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

احتیاط علاج سے بہتر ہے

ڈینگی سے تحفظ کے لیے اب تک کوئی مخصوص ویکسین دریافت نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بچاؤ کیلئے عالمی ادارہ صحت کی تجاویز بھی حفاظتی نوعیت کی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت(WHO) کے مطابق احتیاط کے ذریعے ہی ڈینگی سے بچنا ممکن ہے۔

٭ گھر میں کھانے پینے کی تمام اشیا حتٰی کہ گھروں میں موجود پینے کے پانی کے برتن بھی ڈھانپ کر رکھے جائیں۔

٭ ڈینگی مچھر کے حملے سے بچنے کیلئے اس کی افزائش نسل کو روکا جائے، جس کیلئے ضروری ہے کہ گھر وں میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ آس پاس موجود گڑھوں کو مکمل طور پر بھر دیا جائے تاکہ ان میں پانی جمع نہ ہو۔

٭ ڈینگی وائرس کا حامل مچھر گندے جوہڑوں اور تالابوں کی بجائے صاف پانی میں پرورش پاتا ہے، لہٰذا گھروں میں استعمال ہونے والی پانی کی ٹنکیوں اور پانی اسٹور کرنے والے برتنوں کو صاف رکھا جائے۔

٭ گملوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں اور پودوں پر مچھر مار ادویات کا اسپرے تواتر سے کرتے رہیں۔

٭ گھر میں ہرمل اور گوگل کی دھونی دینے سے ہر قسم کے کیڑے مکوڑے، مچھر، لال بیگ اور چھپکلی وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر ہرمل کا سبز پودا کمرے میں رکھا جائے تو مچھر کمرے میں داخل نہیں ہوتے۔ نیازبو اور لیمن گراس کے پودوں کی خوشبو سے بھی مچھر بھاگ جاتے ہیں۔

٭ اگر جسم کے کھلے حصوں پر کڑوا تیل (تارامیرا کا تیل) لگایا جائے تو مچھر کاٹنے سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جسم کے کھلے حصوں پرلوشن وغیرہ لگانا بھی ٹھیک رہتا ہے۔

٭ چھتوں پر رکھے سامان میں بھی مچھروں کی پرورش ہوتی ہے ، لہٰذا ایسی تمام جگہوں کی صفائی کی جائے۔

٭ اندھیرے کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں کیونکہ یہ وقت مچھروں کے حملے کا ہوتا ہے۔ گھر میں دروازوں اور کھڑکیوں پر جالیاں لگائیں۔