حضرت مُجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ

September 23, 2022

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

شیخِ سرہند،امامِ ربّانی‘ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جس عہد میں تبلیغ دین‘ اصلاحِ عقائد اور رُشد و ہدایت کے سلسلے کوعام کرنے کا بیڑا اٹھایا، وہ ظلم و جبر‘ اسلامی تعلیمات سے دوری‘ الحاد و زندقہ اور لادینیت کا دور تھا۔ جلال الدین اکبر کا دربار الحاد و لادینیت‘ جدیدیت اور دین کے خلاف فتنوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہ اسلام اور ملّتِ اسلامیہ کی انفرادیت‘ اسلامی تشخص اور قرآن و سنّت کی حقیقی تعلیمات کو مٹا کر مختلف مذاہب کے اشتراک، مخلوط بنیادوں پر وطنی قومیت اور دینی اقدار کے خلاف خود ساختہ متحدہ تہذیب کو فروغ دینا چاہتا تھا۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے اس دور میں سلطان جائر کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا۔ آپ نے شریعت کی بالادستی اور دینی اقدار کے تحفّظ کے لیے علمِ جہاد بلند کیا اور تبلیغ دین کا فریضہ پوری ذمّے داری سے ادا کیا۔

حضرت مجدّدؒ کا اسمِ گرامی احمد ہے۔ آپ ہندوستان کے مشہور شہر ’’سرہند‘‘ (جسے کبھی شیروں کا مسکن ہونے کے سبب ’’شیرِ ہند‘‘ کہا جاتا تھا) میں 1564ء میں پیدا ہوئے اور 1624ء میں وہیں آپ کا وصال ہوا۔ سرہند ہی میں آپ مدفون ہوئے۔ آپ کے والد شیخ عبدالواحدؒ اپنے وقت کے نہایت متقی‘ ولیِ کامل اور مشائخ میں شمار کیے جاتے تھے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی‘ مجدّد الف ثانیؒ نے تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد سلوک و معرفت کی راہ میں قدم رکھا تو ابتدا میں چشتیہ، سہروردیہ اور قادریہ سلسلے میں اپنے والد بزرگوار سے بیعت ہوئے اور پھر نقش بندیہ سلسلے میں حضرت خواجہ باقی باللہؒ سے بیعت ہوئے۔

اکبر کے دربار میں نبوّت و رسالت‘ وحی‘ جنّت و جہنّم‘ حج اور دیگر اسلامی شعائر کا برملا مذاق اڑایا جاتا‘ دربارِ اکبری کے رکنِ رکین فیضی نے اپنی ایک غزل میں طوافِ کعبہ کو بُتوں کی پرستش کے ہم معنیٰ ٹھہراتے ہوئے کہا!

آنکہ می کرد مرا منع پر ستیدن بُت

در حرم رفتہ طوافِ درو دیوار چہ کرد

ایک قصیدۂ فخریہ میں فیضی نے اپنے عقائد کا اعلان ان الفاظ میں کیا!

شکرِ خدا کہ عشقِ بُتاں است رہبرم

درملّتِ برہمن و دردینِ آزرم

دین کے خلاف الحادو زندقہ کی اس تحریک کی انتہا اس وقت ہوئی، جب 1552ء میں علمائے سُوء‘ درباری سرکاری علماء کی مشاورت سے ایک نئے مذہب‘ دینِ الٰہی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ دین اسلام‘ اسلامی عقائد و تعلیمات‘ قرآن و سنّت کے فرامین و ارشادات‘ دینی اقدار اور اسلام کی حقیقی رُوح کے خلاف دربارِ اکبری کی ذہنی اختراع اور جدّت کی انتہا تھا۔ اس نئے مذہب کے اصول و عقائد فرنگیوں‘ پارسیوں اور ہندوؤں سے ماخوذ تھے‘ اس طرح ریاست کے اصولوں کو شریعت پر برتر اور غالب قرار دیا گیا‘ دربارِ شاہی میں غیر اسلامی ہندوانہ رسوم اور بدعات رائج کی گئیں اور ایک ایک کرکے اسلامی شعائر کو رخصت کردیا گیا۔ حلال و حرام کی نئی خود ساختہ شریعت وضع کی گئی۔ سود اور جوا حلال کردیا گیا‘ عائلی قوانین بدل دیئے گئے‘ حلال جانوروں کا گوشت حرام اور حرام جانوروں کا گوشت حلال قرار دیا گیا۔ عربی پڑھنے‘ پڑھانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ فقہ‘ تفسیر‘ حدیث اور دیگر اسلامی علوم کے پڑھنے پڑھانے والے مردود و مطعون قرار دیئے گئے۔

اسلام‘ اسلامی شعائر اور دینی اقدار کے برخلاف جدیدیت اور لادینیت کی اس تحریک کا مرکزی کردار درحقیقت درباری‘ سرکاری علمائے سُوء کا وہ طبقہ تھا، جو اکبر کے دربار میں مشاورت کے مناصب پرفائز تھا۔ وہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار کا کردار ادا کر رہا تھا۔ علمائے سُوء بے دینی اور گمراہی کی اس تحریک کا ہراول دستہ تھے۔ تاریخ میں ان علمائے سُوء میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ حاجی ابراہیم سرہندی‘ قاضی خان بدخشانی‘ ملّا عالم کابلی‘ ملّا ابوسعید‘ تاج الدین اجودھنی‘ ملّاشریف آملی‘ ملّا ابوالفضل، فیضی‘ ملّا عبداللہ سلطان پوری وغیرہ۔

چناں چہ ان علمائے سُوء میں سے حاجی ابراہیم سرہندی نے بادشاہِ وقت کو سجدہ کرنے کا فتویٰ دیا۔ ملّا عبداللہ سلطان پوری نے حج کے اسقاط کا فتویٰ دیا۔ ابوالفضل نے اکبر کے لیے بادشاہِ دوراں اور پیشوائی دو جہاں کا مسئلہ وضع کیا۔ غرض کلمہ تک بدل دیا گیا۔ان حالات میں امامِ ربّانی، حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے سیف و قلم کے ذریعے اس الحادی تحریک اور باطل کے خلاف جہاد میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔

حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے عہدِ اکبری اور دورِ جہانگیری کی بدعات،خود ساختہ رسوم، دینی اقدار اور اسلامی شعائر کے منافی امور اور گمراہیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ اسلامی شریعت کی ترویج اور مسلم نشاۃِ ثانیہ کے لیے جو کوششیں آپ نے کیں، تجدید و اصلاح کی تاریخ میں انہیں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے اپنے مُریدوں کی ایک بڑی تعداد دعوت و تبلیغ کے لیے تیار کی اور انہیں مختلف اطراف میں اس کام کے لیے مقرر کیا۔ بااثر حکام اور نام ور شخصیتوں سے خط و کتابت کی اور ان پر دینی اقدار کی حفاظت اور شرعی اصولوں کی ترویج کی اہمیت واضح کی۔

بادشاہ کے مقربین اور امراء کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کیا، تاکہ وہ بادشاہِ وقت کو خلافِ اسلام کارروائیوں سے روکنے کی موثر کوشش کرسکیں۔ حضرت مجدّدؒ کی دعوت کا دائرہ صرف شہری حکّام تک محدود نہ تھا،بلکہ شاہی افواج کے حکام تک بھی وسعت اختیار کرچکا تھا۔ آپ کی تبلیغ کا سلسلہ جس قدر بڑھتا جا رہا تھا، اسی قدر آپ کے مخالفین کی سازشوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ان لوگوں نے بادشاہ کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔ آخر اس نے آپ کو بلا بھیجا، جب حضرت مجدّدؒ جہانگیر سے ملاقات کے لیے گئے تو آپ نے اسے نہایت معقول جوابات دیے، جس پر جہانگیر لاجواب ہوگیا۔ اس دوران بادشاہ سے کسی نے کہا کہ شیخ کا تکبّر تو ملاحظہ کیجیے کہ آپ کو سجدہ نہیں کیا۔ حالاںکہ آپ ظلّ اللہ اور خلیفۂ الٰہی ہیں۔ اس پر جہانگیر غضب ناک ہوا اور اس نے آپ کو قلعہ گوالیار میں قید کرادیا۔

آپ نے قید و بند کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا گوارا کیا ، لیکن بادشاہ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ وقت کے ظالم و جابر اور سلطان جائر سے ٹکر لینے کے مترادف تھا، لیکن آپ نے عَلم شریعت کو بلند رکھا اور اپنا سرِ نیاز غیراللہ کے سامنے جھکانے سے انکار کردیا۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:

حاضر ہوا میں شیخ مجدّدؒ کی لحد پر

وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار

حضرت مجدّد الف ثانیؒ کا ایک اہم کارنامہ دین کو بدعات سے پاک کرنا ہے۔ یوں تو ایک مدّت سے نفس پرست بادشاہوں، جاہل صوفیوں اور علمائے سُوء نے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں خلافِ اسلام نظریات اور اعمال کی آمیزش کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، لیکن حضرت مجدّدؒ کے قریبی زمانے میں اس میں بہت شدّت آچکی تھی۔ حضرت مجدّدؒ نے اس فتنے کے سدّباب کے لیے بھرپور جدّوجہد فرمائی۔ ان کی تعلیمات کا اکثر و بیشتر زور بدعات کے استیصال اور سنّت کے احیاء پر ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بدعت میں کوئی خوبی اور نورانیت نہیں، ظلمت و کدورت کے سوا اس میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

انہوں نے ہمیشہ بدعت سے بچنے اور سنّت کی اتباع کرنے کی تلقین کی اور اس حدیث کی طرف مریدوں کو متوجّہ کیا، جس کی رُو سے کسی متروک اور فراموش کردہ سنّت کو زندہ کرنے سے سو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ انہوں نے شریعت و طریقت میں فرق کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ مستقیم الاحوال صوفیاء احوال و اقوال، اعمال و علوم و معارف میں ہر گز شریعت سے تجاوز نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک استقامت کا طریقہ شریعت اور باطن کی درستی کی علامتِ ظاہر کو شرعی احکام سے سنوارنا ہے۔ حضرت مجدّدؒ نے اپنے زمانے کے صوفیاء کے برعکس اس امر کا اعلان کیا کہ حقیقت اور طریقت دونوں شریعت ہی کی خادم ہیں، نہ کہ شریعت اور ہے اور طریقت و حقیقت کچھ اور۔ انہیں علیحدہ علیحدہ کرنا الحادو زندقہ ہے۔

حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے قرآن و سنّت کی ترویج واشاعت ،اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کے لیے ’’مکتوبات‘‘ کا ذریعہ اختیار کیا، تاکہ ہر علاقے کے ماحول اور حالات کے تقاضوں کے مطابق مکتوبات لکھے جائیں اور ان کے ذریعے لوگوں کے عقائد کی درستی اور اخلاق و اعمال میں اخلاص کی پختگی پیدا ہوسکے اور لوگ صحیح معنوں میں سچّے اور پکّے مسلمان بن سکیں۔

معروف محقق اور روحانی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خانؒ لکھتے ہیں:’’حضرت مجدّدؒ نے اپنے مکتوبات میں اسلامی نظریۂ حیات کو اس خوبی سے نبھایا ہے کہ جس کے پڑھنے سے شوقِ عمل اور ذوقِ کار پیدا ہوتا ہے اور ایک طالب و سالک صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے اکابرِ طریقت نے سالکین کے لیے مکتوبات کا مطالعہ لازمی قرار دیا ہے۔

ذیل میں حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے چند مکاتیب کے اقتباسات سے دین کی عظمت و سر بلندی، اسلامی شعائر کے احیاء، دینی و اخلاقی قدروں کی بقا اور قرآن و سنت کی ترویج واشاعت کے لیے شیخ سرہند حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی طلب اور تڑپ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ان مکتوبات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ نے ریاستی حلقوں کو اپنا ہم نوا بنانے اور انہیں اسلامی تحریک کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سیادت پناہ شیخ فرید کے نام ایک مکتوب میں آپ لکھتے ہیں: ’’حق تعالیٰ آپ کا مدد گار اور معاون ہو۔ آج اسلام بہت غریب ہورہا ہے، اس کی تقویت میں ایک چیتل کا صرف کرنا کروڑہا روپوں کے بدلے قبول کرتے ہیں۔ دیکھیں کون سے بہادر کو وہ اس دولتِ عظمیٰ سے مشرف فرماتے ہیں۔ دین کی ترقی اور مذہب کی تقویت، ہر وقت خواہ کسی سے وقوع میں آئے، بہتر اور زیبا ہے، لیکن اس وقت جب کہ اسلام غریب ہوتا جارہا ہے، آپ جیسے جواں مرد سے نہایت ہی زیبا اور خوب ہے، کیوں کہ یہ دولت آپ جیسے بزرگوں کے خاندان کی میراث ہے۔ اس کا تعلق آپ سے ذاتی ہے اور دوسروں سے عارضی، حقیقت میں نبی اکرم ﷺکی وراثت اسی عظیم القدر امر کے حاصل کرنے میں ہے۔ رسولِ اکرمﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: تم ایسے زمانے میں موجود ہوئے ہوکہ اگر اوامرو نواہی میں سے دسویں حصے کو ترک کردو، تو ہلاک ہوجائو اور تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ اگر وہ اوامرو نواہی میں سے دسویں حصّے کو بجالائیں، تو خلاصی پائیں گے۔ اب یہ وقت وہی وقت ہے اور یہ لوگ وہی لوگ ہیں۔

کفار کے ساتھ جہاد کرنا ، دین کی ضروریات میں سے ہے۔ کفر کی باقی رسمیں جو پہلے زمانے میں پیدا ہوئی تھیں، اس وقت کے بادشاہ اسلام کو اہلِ کفر کے ساتھ وہ توجہ نہیں رہی، یہ مسلمانوں کے دلوں پر بہت گراں اور بھاری معلوم ہوتی ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ بادشاہ کو ان بدمذہبوں کی رسموں اور بُرائیوں سے اطلاع بخشیں اور ان کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ شاید بادشاہ کو ان بقایا رسوم کی بُرائی کا علم نہ ہو۔ اگر وقت کے لحاظ سے مناسب سمجھیں تو علمائے اسلام کو اطلاع دیں، تاکہ وہ آکر اہلِ کفر کی برائی ظاہرکریں۔‘‘

مجدّدالف ثانیؒ،صدر جہاں کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:’’حق تعالیٰ آپ کو سلامتی و عافیت سے رکھے۔ احکامِ شریعت کے جاری ہونے اور دین مصطفویؐ کے دشمنوں کی ناکامی کی باتیں سُن کر مسلمانوں کے دلوں کو خوشی اور روح کو تازگی حاصل ہوئی، اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور یہ اس کا احسان ہے۔ اللہ مالک و قدیر سے سوال ہے کہ اپنے نبی بشیرو نذیرﷺکے طفیل اس بڑے کام کو فروغ دے، مجھے یقین ہے کہ اسلام کے مقتدا یعنی ساداتِ عظام اور علمائے کرام خلوت و جلوت میں اس دین کے فروغ اور صراطِ مستقیم کی تعمیل کے لیے کوشاں ہوں گے۔

علمائے سُوء، دین کے چور ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ خلق خدا کے نزدیک مرتبہ اور ریاست میں وسعت حاصل ہوجائے،اللہ تعالیٰ ان کے فتنے سے بچائے، ہاں ان میں سے جو بہتر ہیں، وہ سب خلقت سے اچھے ہیں، کل قیامت کے دن ان کی سیاہی کو فی سبیل اللہ شہیدوں کے خون کے ساتھ تولا جائے گا اور ان کی سیاہی کا پلّہ بھاری ہوجائے گا۔ سب لوگوں میں برے، برے عالم ہیں اور سب خلقت سے اچھے، اچھے عالم ہیں۔‘‘

صدر جہاں کے نام ایک اور مکتوب میں آپ ارشاد فرماتے ہیں:’’اب جب کہ سلطنتوں میں انقلاب پڑ گیا ہے اور دشمنی اور فساد نے اہلِ مذہب کو بگاڑ دیا ہے، اسلام کے پیشوائوں یعنی وزیروں، امیروں اور عالموں پر لازم ہے کہ اپنی ہمّت کو شریعت کی ترویج میں لگائیں اور سب سے اوّل اسلام کے گرے ہوئے ارکان کو قائم کریں، کیوں کہ تاخیر میں خیر ظاہر نہیں ہوتی اور غریبوں کے دل اس تاخیر سے نہایت بے قرار ہیں، گزشتہ زمانے کی سختیاں ابھی تک مسلمانوں کے دلوں میں برقرار ہیں، ایسا نہ ہو کہ ان کا تدارک نہ ہوسکے۔ جب بادشاہ سنّتِ مصطفویؐ کی ترویج میں سرگرم نہ ہوں اور بادشاہ کے مقرب بھی، اس بارے میں اپنے آپ کو الگ رکھیں اور چند روزہ زندگی کو عزیز سمجھیں، تو اہلِ اسلام بے چاروں پر زمانہ بہت ہی تنگ ہوجائے گا۔‘‘

اسلامی نشانوں میں سے ایک نشانِ اسلام شہروں میں قاضیوں کا مقرر کرنا ہے۔ جو گزشتہ زمانے میں ختم ہوگیا تھا۔ ’’سرہند‘‘ اہلِ اسلام کے بڑے شہروں میں سے ہے۔ یہاں کئی سال سے کوئی قاضی نہیں۔ قاضی یوسف الدین کے باپ دادا، جب سے سرہند آباد ہوا ہے، قاضی ہوتے چلے آئے ہیں۔ چناںچہ بادشاہوں کی اسناد ان کے پاس ہیں اور یہ اصلاح و تقویٰ سے بھی آراستہ ہیں، اگر بہتر سمجھیں تو اس عظیم الشان کام کو سرہند میں قاضی یوسف الدین کے حوالے کردیں۔‘‘(اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو شریعت کے سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھے)

حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے اصلاحِ عقائد اور اصلاحِ معاشرہ کی وہ تحریک برپا کی جس کے نتیجے میں ہندو مسلم تہذیب کا معجونِ مرکّب اور وحدتِ ادیان کا خود ساختہ فلسفہ دم توڑنے لگا۔

آپ پوری شدّت اور دینی حمیت کے ساتھ درباری علمائے سُوء اور بادشاہِ وقت کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ آپ کی اصلاحی تحریک کے اثرات بالآخر ظاہر ہونے لگے۔ رفتہ‘ رفتہ غیر اسلامی اثرات مسلمانوں کے ذہنوں سے زائل ہونے لگے اور اسلامی تہذیب و تمدن کو برگ وبار لانے کا موقع فراہم ہوا۔

مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ باقی باللہؒ نے اپنے خطوط میں حضرت شیخ سرہندیؒ کے متعلق (جو بعد ازاں امامِ ربّانی اور مجدّد الف ثانی کے مناصب جلیلہ پر فائز ہوئے) پیش گوئی کرتے ہوئے انہیں مستقبل کا ایسا روشن چراغ قرار دیا تھا‘ جس کے نور سے ظلمتیں کافور ہوجائیں گی‘ بالآخر وہ بشارت پوری ہوئی اور آپ ہی کے ہاتھوں اکبر کی جدیدیت جو کہ درحقیقت لادینیت تھی۔ اس کا وضع کردہ دینِ الٰہی اور اکبری الحاد کا خاتمہ اور قلع قمع ہوا۔

مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ نے اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کیا خوب لکھا ہے!’’حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں اللہ تعالیٰ دو ہستیوں کو پیدا نہ کرتا اور ان سے اپنے دین کی دستگیری نہ فرماتا۔ (یوں تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کا نگہبان ہے‘ اس کی حفاظتِ دین کے طریقے ہزار ہیں) تو بظاہر تیرہویں صدی تک یا تو اسلام ہندوستان سے بالکل فنا ہوجاتا‘ یا اتنا بگڑ جاتا جتنا ہندو مذہب۔ یہ دو بزرگ ہندوستان کے مسلمانوں کے جلیل القدر محسن اور اسلام کے عظیم الشان پیشوا‘ حضرت امامِ ربّانی مجدّد الف ثانی، شیخ احمد سرہندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ ہیں۔‘‘شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے!

وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار

آپ کی تعلیم اور تحریک آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔ آپ کی تحریریں اور مکتوبات آج بھی اصلاحِ نفوس اور اصلاحِ معاشرہ میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ بجھے دلوں میں ایمانی حرارت پیدا کرتی اور دین سے تعلق اور رشتے کو مضبوط کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج اور ہر دور میں جدیدیت اور لادینیت کے فتنوں کی سرکوبی کے لیے حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی تعلیمات سے فیض حاصل کیا جائے اور انہیں عام کیا جائے۔