مہاتما گاندھی کے بدیسی نظریات

September 23, 2022

پنڈت جواہر لال نہرو جن دنوں مسلمانوں سے عوامی رابطے کی مہم کے نام پر شدھی تحریک چلا رہے تھے، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اپنے ماہنامے ’ترجمان القرآن‘ میں اُن پر سخت گرفت کر رہے تھے جس کے باعث مسلمانوں میں رابطے کی تحریک ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اُسی زمانے میں مہاتما گاندھی خالص ہندو تصورات کے مبلغ بن کے آئے تھے۔ اُن کا سارا زور عدم تشدد یعنی اہنسا پر تھا اور اُنہوں نے مزاحمت کا ایک نیا طریقہ رائج کیا تھا کہ وہ اِحتجاج کے طور پر مرن برت رکھتے، پورے ملک میں ایک سنسنی پھیل جاتی اور پھر فیس سیونگ کی کوئی سبیل نکل آتی۔ مولانا اُن کے نظریۂ آزادی کا بھی تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے اپنے ہم وطن مسلمانوں کو اُس خطرے سے آگاہ کر رہے تھے جو ’’لادینی ریاست‘‘ کے تصوّر میں چھپا ہوا تھا۔ صاف صاف کہا جا رہا تھا کہ اقلیتوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام اسٹیٹ کے فرائض سے خارج ہے۔ اُس کے برعکس یہ چیز اُس کے فرائض میں داخل ہے کہ باشندوں کو ایسی تعلیم دے جو اُن کے ذہنوں سے اپنے مذہب کی برتری کا خیال نکال دے۔ خود مہاتما گاندھی جنہوں نے بااصرار اَپنے مذہب کو رویا اسکیم کا جزوِلاینفک بنایا تھا، وہ اَپنے مذہب کے سوا دُوسرے باقی تمام مذاہب کو تعلیم سے خارج کر دینے کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں:

’’میرے نزدیک یہ بات مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کے درمیان دوستانہ اسپرٹ کی نشوونما کو ختم کرنے والی ہو گی، اگر اُنہیں یہ سکھایا جائے کہ اُن کا مذہب دوسرے مذاہب سے بہتر ہے یا یہ کہ وہی سچا مذہب ہے۔ اِس قسم کا طرزِعمل اختیار کرنے کے نتائج اِس قدر خوفناک ہوں گے کہ اُن کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اِسی خیال کی ترجمانی وزیرِتعلیم مسٹر سیمور نانند نے اِن الفاظ میں کی ’’وہ شخص جو ہندو یا مسلم تہذیب کے قائم رکھنے اور اُسے مدارس میں رائج کرنے پر زور دیتا ہے، وہ یقینی طور پر ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مَیں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ ہندوستان میں یہ چیز مطلوب ہونی چاہئے کہ ہم ایک ہندوستانی مذہب چاہتے ہیں جو ہندوؤں اور مسلمانوں اور دُوسروں کے لئے ہو جو اِس ملک میں آئے ہیں اور جنہوں نے اِسے اپنا گھر بنایا ہے، فقط ایک ہو۔ جب ہندو اَور مسلم تہذیبیں مٹ جائیں گی، تب ہی ہندوستانی تہذیب زندہ ہو سکے گی۔‘‘

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اُن کے اِس نقطۂ نظر پر نکتہ چینی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ’’ ہمارے وطن پرست ہندوستان میں جس قسم کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، اُس کی تین خصوصیات ہیں جو انڈین کانگریس کے اپنے حقیقی خالق یعنی انگریزوں سے مستعار لی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نیشنل اسٹیٹ ہو اِس معنی میں کہ ہندوستان کی پوری آبادی کو ایک قوم قرار دِیا جائے اور جداگانہ قومیتوں کی نفی کر دی جائے۔ دوسری یہ جمہوری اسٹیٹ اِس معنی میں کہ باشندگانِ ہند کو ایک مجموعہ قرار دے کر اُس میں اکثریت کا اصول نافذ کر دیا جائے۔ تیسری یہ کہ دنیوی اسٹیٹ اِس معنی میں کہ جہاں تک ہندوستان کی مختلف قوموں کے مذاہب کا تعلق ہے، اُس کے لحاظ سے وہ ایک لادینی اسٹیٹ ہو۔‘‘

مولانا آگے چل کر ہندوستان کے حالات پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اِس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہاں قومی، جمہوری اور لادینی ریاست قائم کرنے کے معنی کیا ہو سکتے ہیں۔ جمہوری اسٹیٹ کے معنی یہ ہیں کہ تمام باشندگانِ ہند کو اسٹیٹ میں حاکمیت حاصل ہو، مگر عملاً اُس حاکمیت کو وہ جماعت استعمال کرے جو اکثریت میں ہو۔ جمہوری کے ساتھ قومی کی قید لگانے سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ مختلف قومیتوں کے وجود کی نفی کر دی جائے اور تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دِیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں اِس کے یہ معنی ہوئے کہ ہندوستان کی حکومت میں کسی شخص کا حصّہ اِس حیثیت سے نہیں ہو گا کہ وہ ہندو یا مسلمان ہے، بلکہ اِس حیثیت سے ہو گاکہ وہ ہندوستانی ہے۔ لادینی کی قید اِس میں ایک چیز کا اضافہ کرتی ہے کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی مذہب کا پیرو ہونے کی حیثیت سے اسٹیٹ میں حصّےدار نہیں ہے۔ اُسے اسٹیٹ کے دائرے میں آنے کےلئے مذہب کی نفی کرنا ہو گی اور اُسے اسٹیٹ کا فیصلہ طوعاً و کرہاً تسلیم کرنا ہو گا۔ مزید یہ کہ اگر وہ اپنے گروہ کی مذہبی تنظیم کے لئے اسٹیٹ سے وسائل حاصل کرنا چاہے گا، تو اُسے کہہ دیا جائے گا کہ وہ کوئی مذہبی اسٹیٹ نہیں ہے۔

اِن امکانات اور خدشات کو پوری طرح اجاگر کرتے ہوئے مولانا صاف صاف لکھتے ہیں کہ ایک جمہوری اور لادینی اسٹیٹ بنانے کے معنی اِس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ اکثریت، اقلیت پہ ظلم کرے، اُسے غلام بنائے رکھنے اور اُسے تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دے دیا جائے۔ وہ قومی اسٹیٹ دراصل اکثریتی قوم کی اسٹیٹ ہو گی اور لادینی ریاست صرف اقلیت کے لئے لادینی ہو گی۔ اُس میں اکثریت کو نہیں بلکہ صرف اقلیت کو اَپنی جداگانہ قومی حیثیت اور مذہب کی نفی کرنا ہو گی۔ اقلیت اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنے ادب اور فلسفۂ حیات کا نام نہیں لے سکے گی جبکہ مہاتما گاندھی، لارڈ ڈفرن اور لارڈ رِپن کے زیرِاثر وطنی قومیت کا راگ الاپ رہے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب کانگریس کی ہندوستان کے سات صوبوں میں وزارتیں قائم تھیں اور اُس کے وزیروں نے اُن تمام خدشات کو درست ثابت کر دیا تھا جو سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اپنی تحریروں میں بیان کر رہے تھے۔ دو برس کے دوران مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئےجن کا مقصد مسلمانوں کو اقلیت کی حیثیت سے فنا کر دینا تھا۔ مولانا مودودی علمی تجزیے کی بنیاد پر جن خدشات کی نشان دہی کر رہے تھے، وہ بھیانک حقیقت کے طور پر مسلمانوں پر نازل ہو رہے تھے۔ یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ مہاتما گاندھی ہندوستان میں ہندو رَاج قائم کرنے کے لئے مختلف بہروپ دھارتے رہتے ہیں۔ تب آل انڈیا مسلم لیگ نے قائدِاعظم کی صدارت میں اور لاکھوں مندوبین کی موجودگی میں مسلمانوں کے لئےجداگانہ وطن کی قرارداد منظور کی اور عوام کی حمایت سے ہندوؤں اَور اَنگریزوں کو شکستِ فاش دی اور پاکستان ایک عجب شان کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ (جاری ہے)