قانونی حیثیت کا تعین عدالت کرے گی

September 23, 2022

تفہیم المسائل

سوال: میں نے اپنے ایک پارٹنر محمد اشرف کے ساتھ گنّے کا کاروبار شروع کیا، اس کاروبار میں میرا اور میرے بھائیوں کا70فیصد حصہ تھا ،محمد اشرف کا 29 فیصد اور ایک فیصد اللہ کی راہ میں۔ باہمی مشاورت سے محمد اشرف کو کاروبار کا نگران بنایا، پیسوں کا لین دین محمد اشرف کرتا تھا۔ نفع کے عوض اب کروڑوں کی رقم جمع ہوگئی ،تو ہم نے محمد اشرف سے پیسوں کا تقاضا کیا، پہلے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ،پھر رقم دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں مسجد میں جاکر قرآن اٹھانے کے لیے تیار ہوں کہ ان کے کوئی پیسے مجھ پر نہیں ہیں ۔ ہمارے پاس تمام تحریری ثبوت ہیں ، شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت : اس کاروباری معاہدے کے گواہ بھی موجود ہیں ،ہماری رقم اس کے ذمے نکلتی ہے ، اس پر بھی گواہ اور حسابات کے رجسٹر موجود ہیں۔ ایک ماہ قبل علاقہ معززین جمع ہوئے، ان کے سامنے سارے حسابات رکھے گئے، علاقہ معززین نے محمد اشرف پر رقم کی ادائیگی کے لیے دباؤ ڈالا، لیکن اس نے پھر بھی رقم دینے سے انکا ر کردیا، اس صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ (چوہدری انوارالحق ،میر پور خاص سندھ)

جواب: صورتِ مسئولہ میں چونکہ آپ کے بقول کاروباری معاہدے کی تحریر اور گواہ موجود ہیں ، گواہ اگر عادل ہیں تو اُن کی گواہی مانی جائے گی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیاجائے گا۔ مسجد میں جاکر قرآن اٹھانے سے فیصلہ نہیں ہوگا اور نہ ہی مُدّعٰی علیہ اس دَین سے بری ہوگا ،کیونکہ شرعاً قسم اُس وقت لی جاتی ہے، جب مُدّعی کے پاس کوئی گواہ موجود نہ ہوںاور مُدعیٰ علیہ قبولِ دعویٰ سے انکار کرتا ہو۔

حدیث پاک میں ہے:ترجمہ:’’ عمرو بن شعیبؓ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: کسی بھی دعوے کے ثبوت کے لیے مُدّعی پر لازم ہے کہ وہ گواہ پیش کرے (ورنہ گواہ نہ ہونے کی صورت میں) مدعیٰ علیہ( اگر قبول دعویٰ کا انکار کرتا ہے، تو) اس سے قسم لی جائے گی،(سنن ترمذی: 1339) ‘‘۔

غرض مُدّ عیٰ علیہ کے دعوے سے انکار اور مدعی کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں مُدّعٰی علیہ کو قسم دینے کی نوبت آتی ہے۔ درپیش صورتِ حال میں آپ کے پاس گواہ موجود ہیں تو گواہی پر ہی فیصلہ ہوگا اور مُدَّعیٰ علیہ کو قسم دینے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ظاہر ہے ایسے معاملات قانون کی عدالت ہی میں طے ہوسکتے ہیں ، عدالت ہی طے کرے گی کہ آپ کے پاس جو دستاویزی ثبوت یا گواہ ہیں ،وہ قاضی کی نظر میں ثِقہ ہیں اورعدالت کے معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حقائق پر فیصلہ ہوگا، وہاں ہیر پھیر نہیں چلے گا۔

حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ تم میرے پاس مُقدمات لے کر آتے ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے موقف کو دوسرے کی بہ نسبت زیادہ دلائل کے ساتھ پیش کرے اور اس سماعت کے اعتبار سے میں بالفرض اس کے حق میں فیصلہ کردوں، سو جس شخص کو میں اس کے بھائی کا حق دےدوں، وہ اسے نہ لے ،کیونکہ میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں ،(صحیح مسلم: 4359)‘‘۔