تھر پارکر ضلع (سندھ)

September 24, 2022

انتظامی لحاظ سے پاکستان صوبوں، ڈویژنوں، اضلاع اور تحصیلوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ انگریزوں نے ملکی نظم و نسق کو چلانے کیلئے ڈسٹرکٹس یعنی اضلاع کے نظام کو تشکیل دیا تھا۔ سب سے پہلے چارلس نیپیئر نے صوبہ سندھ کو تین اضلاع میں تقسیم کیا، اس زمانے میں جو اضلاع بنائے وہ (1)۔ کراچی(2)۔حیدر آباد(3)۔شکار پور تھے۔ ان کا قائم کیا ہوا اضلاع کا انتظام ہم نے بھی آزادی کے بعد جاری رکھا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد اضلاع میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج پاکستان میں (6؍ ستمبر2022ء) تک پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 135ہو چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے ضلع بدین کے بارے میں پڑھا ہوگا، اس ہفتے ’’تھرپارکر‘‘ کے بارے میں ملاحظہ کریں۔

تھرپارکر سندھ کے میرپورخاص ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔ 2017ء کی قومی مردم شماری کے مطابق ضلع کی کل آبادی 16,49,661 اور کل رقبہ 19638 مربع کلو میٹر ہے۔ 1990ء تک عمر کوٹ اور میرپورخاص کے اضلاع ضلع تھرپارکر کا حصہ تھے جس کا صدر مقام میرپورخاص شہر تھا۔ 1990ء میں اسے دو اضلاع میرپورخاص اور تھرپارکر میں تقسیم کردیا گیا۔ تھرپارکر کا ضلعی صدر مقام مٹھی ہے۔

رقبے کے لحاظ سے سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ ہندو۔ اس ضلع میں آباد ہیں۔ تھرپارکر کے مشرق میں بھارتی اضلاع بارمیر اور جیسل میر اور مغرب میں ضلع بدین اور جنوب میں رن کچھ کا متنازعہ علاقہ ہے۔ شمال میں میرپورخاص اور عمرکوٹ کے اضلاع ہیں۔ یہ ضلع سات تعلقوں (تحصیلوں) پر مشتمل ہے جو یہ ہیں، ڈیپلو، چھاچھرو ,مٹھی، ننگر پار، کلوئی، ڈھلیاوراسلام کوٹ۔

ضلع کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہےجبکہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن یہی سے گزرکربذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے مونابائو جاتی ہے۔ محمد خان جونیجو کے دور میں چند مہینوں کے لیے یہ بارڈر کھولا گیا تھا مگر پھر ناگزیر وجوہات کی وجہ سے بند کردیا گیا جو آج تک بند ہے۔ تھرپارکر کو ’’ڈزرٹ زون‘‘ یا ریگستانی علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ ڈزرٹ زون دو حصوں میں بٹا ہوا ہے یعنی شمال مغربی حصہ تھر کہلاتا ہے اور جنوب مشرقی حصہ پارکر کہلاتا ہے۔ تھر کا علاقہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے مماثل مٹی کے بڑے بڑے ٹیلوں اور ان کے درمیان زمین کے قدرے ڈھلوان یا سطح ٹکڑوں کی شکل میں ہے۔ جبکہ جنوب مشرقی میں واقع پارکر نسبتاً ہموار سطح میدانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں ایک پہاڑی سلسلہ بھی ہے، جو کوہستان کارونجھر کہلاتا ہے۔

تاہم ڈزرٹ زون میں تھر کے علاقے کی نسبت پارکر علاقہ چونکہ محض پندہ سولہ فیصد ہے ،تھرپارکر میں جرائم کی شرح سندھ کے دیگر شہری اور دیہی علاقوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مویشی مزے سے جنگل میں چرتے ہیں اور جب پیاس لگے تو گائوں کو لوٹ آتے ہیں۔ تھر میں 20 سے 140 فٹ کی گہرائی پر پانی نکل آتا ہے، خواہ ٹیلے پر کنواں کھودیں یاکسی اور جگہ پانی نکل ہی آئے گا۔ تھر میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور بعض اوقات تین تین سال تک نہیں ہوتیں۔ اس لئے زیر زمین پانی کی مقدار کم ہوگئی ہے۔

اونٹ یا بیل سے پانی کھینچنا شروع کریں تو دو چار گھنٹے کے بعد کنویں میں پانی کی سطح اتنی کم ہوجاتی ہے کہ ڈول میں پانی نہیں آتا۔ پھر کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تھر زرعی لحاظ سے کم زرخیز علاقہ ہے۔ اس لئے کہ یہاں پانی اور خشک سالی بہت ہے۔ لیکن جہاں نہری پانی دستیاب ہے وہاں علاقہ کافی زرخیز ہے۔ ان علاقوں میں گندم، کپاس اور کیلے کی کاشت ہوتی ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت نے اس علاقے کو بھی اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا تھا۔ مگر اللہ نےاس علاقے کو محفوظ رکھا۔ گرمیوں میں تھر کا موسم بہت گرم ہوتا ہے اور درجہ حرارت 40 درجہ حرارت تک پہنچ جاتا ہے۔ علاقے میں بارش کی سالانہ اوسط 172.5 ملی میٹر ہے۔

نگرپارکر کے قریب اس خطے کی واحد پہاڑیاں پائی جاتی ہیں جنہیں کروندھر کی پہاڑیاں کہتے ہیں۔ عمر ماروی کی لوک داستان بھی اسی ضلع سے منسوب ہے۔ اس ضلع میں اکبر بادشاہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ ضلع تھرپارکر دنیا کے نقشے پر 13-24 اور 25-22 درجہ شمال عرض بلند اور 68-40 اور 71-11 مشرق طول بلد کے درمیان واقع ہے۔ ضلع کے دو حصے ریتلے اور ایک حصہ میدانی ہے۔ یہ نہروں کے پانی سے سیراب ہوتا ہے اور بڑا سرسبز و شاداب ہے جہاں ہر آرائش موجود ہے۔ میدانی اور ریتلے علاقے کی حد بندی مشرق تارا کرتا ہے۔ ضلع تھرپارکر کی آب و ہوا مختلف ہے۔

نہری علاقے میں معتدل اور ریگستانی علاقے میں گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں سرد ہے۔ برسات کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جس سال برسات نہیں ہوتی اس سال قحط سالی ہوجاتی ہے۔ اگر بارش ہوجائے تو سبزہ ہی سبز ہوتا ہے۔ تھر کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت پر منحصر ہے۔ ریگستان میں زراعت کا انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ باقی علاقوں میں نہری نظام ذریعہ آبپاشی ہے۔ عورتیں کھیتوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہیں۔ اگرچہ گھرداری اور بچوں کی نگہداشت بھی کرتی ہیں۔ شہروں میں چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں مرد اور عورتیں کام کرتی ہیں جہاں ان صنعتوں سے کافی آمدنی ہوتی ہے۔

جہاں لوگ ملازمت کرتے ہیں وہاں ریگستانی لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ ضلع تھرپارکر میں کوئی خاص معدنیات نہیں پائی جاتی البتہ کارونجھر پہاڑ سے پتھر ملتا ہے۔ مٹھی میں برتن بنانے کی عمدہ مٹی ملتی ہے۔ ڈیپلو میں سارن جھیل سے نمک حاصل ہوتا ہے۔ اب کوئلہ بھی کافی مقدار میں ملنے لگا ہے۔ ہر گاؤں میں ڈاکخانے ہیں اور بڑے شہروں میں ٹیلی فون ایکسچینج ہیں۔ تھر میں ہندوئوں کی اکثریت ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ہندو اسی ضلع میں رہتے ہیں تحصیل مٹھی میں 70فیصد ہندو آباد ہیں۔ ویسے پورے ضلع تھرپارکر میں 64فیصد ہندو اور 36فیصد مسلم آبادی ہے۔ دیہات میں 58فیصد مسلمان اور 42فیصد ہندو آباد ہیں۔ ضلع کی تین تحصیلوں مٹھی، اسلام کوٹ اور ننگرپارکر میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ باقی چار تحصیلوں ڈیپلو، ڈھلی، چھاچھرو اور کلوئی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

کراچی سے مٹھی اور اسلام کوٹ تک بہترین سڑک تعمیر کی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے تھر میں پینے کے صاف پانی کے لیے کئی پلانٹس لگائے ہیں۔ نجھر کے پہاڑ ہیں۔ اور گرینائیٹ کے بڑے ذخائر ہیں۔ یہاں ایک ہی کاک مندر بھی ہے کیونکہ یہاں مور بکثرت تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مور مندر میں مور ہی مور دکھائی دیتے ہیں۔ ننگرپارکر سے اسلام کوٹ جاتے ہوئے ایک خوبصورت مسجد آتی ہے۔ مسجد کے قریب ہی روپلو کوہلی ریسٹ ہائوس ہے۔ ننگرپارکر سے 16 کلو میٹر دور بھارت کی سرحد جبکہ دائیں طرف 23 کلو میٹر کھوکھراپار ہے حیدرآباد اور جے پور کے درمیان چلنے والی تھر ایکسپریس یہیں سے گزرتی ہے۔

تھر میں فوک گیتوں کا بہت رواج ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں سے مشہور فوک سنگر مائی بھاگی نے فوک سنگرز میں بڑا نام کمایا مائی بھاگی کا انتقال 1986ء میں ہوا۔ مائی بھاگی کے بعد ایک اور لوک فنکارہ مائی دھائی بھی مشہور ہوئیں۔ انہوں نے دنیا کے بہت سے ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تھر کی تیسری فوک سنگر فوزیہ سومرو ہیں یہ ماڈرن گیتوں کے حوالے سے مشہور ہیں۔

تھر میں اگر علم و ادب کی بات کی جائے تو یہاں بہت اچھے ادیب و شاعر گزرے ہیں۔ محمد عثمان ڈیپلائی نے تھر کی صحافت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ڈراما نگار اور پروڈیوسر عبدالقادر جونیجو کا تعلق بھی تھرپارکر سے تھا۔ سیاسی میدان میں جن شخصیات نے نام کمایا ان میں سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ، ارباب زکااللہ، گیان چند، رام سنگھ سوڈو، آفتاب شاہ جیلانی اور علی نوازشاہ مشہور ہوئے۔

یہاں کی مقامی زبان سندھی اور قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ بلوچی، سرائیکی، مکرانی، راجھستان،ی میواتی، پنجابی اور پشتو زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ تھر کا کلچر ہمیں دو زبانوں یعنی سندھی اور ڈھانکی میں ملتا ہے۔ یہاں لباس میں اب قمیض،شلوار کا ہی رواج ہے مگر بلوچی خواتین پائوں تک چولے اور شلوار پہنتی ہیں۔ مرد بڑے پہران (کرتا) اور جھولدار شلوار۔ ہندو اور سماٹ عورتیں گھاگرہ اور گج پہنتی ہیں مرد چھوٹی قمیض اور تہہ بند باندھتے ہیں۔ ضلع تھرپارکر میں آمدورفت کے کئی ذرائع ہیں جن میں اونٹ تھر کے علاقے میں اور بسیں مختلف تحصیلوں میں جاتی ہیں سڑکوں کا اچھا نظام ہے۔ تھر بس اور ریل کے ذریعے پاکستان کے دیگر شہروں سے رابطے میں ہے انہی کے ذریعہ مال برداری بھی ہوتی ہے۔

تھر میں ایک ریلوے لائن بھارت کی سرحد مونابائو کھوکھراپار کے ذریعے بھی ملی ہوئی ہے۔ تھرپارکر سندھ کے کئی حکمرانوں کے ماتحت رہا ہے ان میں سامارا، سمہ، افغان، کلہوڑہ اور تالپور سرفہرست رہے۔ ان حکمرانوں کا زیادہ تر تعلق سندھ کے سینٹرل اور ویسٹرن علاقوں سے تھا۔ سنڈھری کے قریب پاری ننگر قدئم بندرگاہ تھی۔ اس کی بنیاد پہلی صدی ہجری میں رکھی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے یہاں پاری ننگر حکومت بھی قائم تھی یہاں پر اس دور میں سالیواھن نامی ایک راجہ کی حکومت تھی۔ پاری ننگر میں جین دھرم والوں کے خاص مندر تھے۔

پاری ننگر کے ساہوکاروں نے ایک بڑا تالاب بنایا تھا جس کا نام ’’کاجلا سرتلائو‘‘ تھا۔ سلطان محمود غزنوی 1026ء میں تھر سے گزرا اور بھوڈیسر جو ایک تالاب تھا اس کا پانی بھی پیا اور یہاں ٹھہرا بھی۔ یہاں رانا چندن نے تقریباً چوبیس سال تک حکمرانی کی۔ راجہ چندن کے بعد ڈریل مکوانو نے پارکر پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد سنیدھلوں نے پارکر پر حکومت کی۔ گجرات کے احمد شاہ نے سنیدھلوں پر چڑھائی کی۔ پارکر پر پھر سموئوں نے حکمرانی کی پھر گجرات کے حکمران محمود شاہ بیگڑہ نے سموئوں کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ پھر گجرات کے حکم بھیم دیو نے پارکر پر قبضہ کرلیا۔

انگریزوں نے برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کرکے قبضہ شروع کیا۔ 1613ء میں نکولس وٹنگٹن احمدآباد سے سندھ پہنچا اور ننگرپارکر بھی آیا اس نے شہر کی بہت تعریف کی۔ 1556ء میں ترکی کے سلطان سید علی ریس کو پرتگزیوں سے لڑنے کو بھیجا بحیرئہ عرب میں طوفان کے باعث اسے لوٹنا پڑا۔ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو قلعہ برھمن آباد کو فتح کرلیا اور یہاں کا انتظام سنبھال لیا۔ تھرپارکر دھلی سلطنت کے ماتحت 602ھ تا 700ھ رہا۔ خاندان غلاماں میں قطب الدین ایبک نے سندھ فتح کرکے اس صوبہ کو ناصرالدین بتاچہ کے حوالے کیا۔

ناصرالدین بتاچہ کے دور میں تھرپارکر بھی اس کے ماتحت تھا۔ جلال الدین خوارزمی بھی ٹنڈومحمدخان کے تعلقہ میں آیا تھا یہاں اس نے دیبل کے مقام پر جامع مسجد تعمیر کروائی تھی۔ خاندان غلاماں کے بعد خلجی سلطنت برسراقتدار آئی جلال الدین خلجی نے سندھ کا حاکم نصرت خان کو بنایا۔ خلجیوں کے بعد تغلق خاندان نے حکومت سنبھالی غیاث الدین تغلق نے سندھ پر چڑھائی کی سومروں نے بغاوت کی جس میں تھرپارکر کے باشندے شامل تھے۔ سومروں نے سندھ پر 344ھ میں قبضہ کیا اگرچہ سندھ میں مختلف حکمراں آتے رہے مگر سندھ کے حقیقی حکمراں سومرو ہی رہے سومروئوں کی حکومت زیادہ تر تھر میں رہی۔

سومرئوں کے بعد سمہ خاندان برسراقتدار آیا انہوں نے تھرپارکر اور پارکر آباد کیے یعنی بلوچوں کے چار ہزار خاندانوں کو سمہ دور میں آباد کیا گیا۔ 880ھ میں سلطان محمود گجراتی نے ننگرپارکر پر حملہ کرکے مالکوں کو نکال دیا۔ سلطان نے ملک کچھ اور تھر پر قبضہ کرکے اپنی حکومت میں شامل کرلیا۔ سندھ پر تالپوروں نے حکومت کی 1833ء میں میر مراد علی تالپور کے انتقال کے بعد حیدرآباد کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور 1843ء کو سندھ پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ 1829ء میں سید احمد شہیدؒ بھی سندھ میں آئے اور تین دن تک عمرکوٹ میں قیام رکھا۔ چارلس نیپئر نے 1843ء میں تالپور حکمرانوں کو شکست دی۔ ضلع تھرپارکر میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں NA-222اور NA-221 ۔ 2018ء کے الیکشن میں NA-221 سے نور محمد شاہ اور NA-222 سے مہیش کمار ملانی جیتے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں PS-54 سے PS-57 تک ہیں۔ تھرپارکر میں ہے جسکی 44 یونین کونسلز ہیں۔