پاکستانی مختلف ایئر لائنز کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور

September 29, 2022

تحریر: ہارون مرزا۔راچڈیل
قومی ائر لائن کی بین الاقوامی پروازوں پر عائد پابندی کی وجہ سے جہاں تارکین وطن ایک طویل عرصہ سے اذیت کا شکار اور مختلف ائر لائنز کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں، وہیں اب معروف ائر لائنز کمپنیوں نے مسافروں کی کھال اتارنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے جس سے چاہتے نہ چاہتے بھی مسافر ٹریول ایجنٹس اور مختلف پرائیویٹ ویب سائٹس کے ذریعے ٹکٹ بکنگ کرنیوالوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر مجبور ہیں ، پاکستان میں جعلی پائلٹس کے انکشاف کے بعد سے یورپی ممالک نے قومی ائر لائن کیلئے اپنے دروازے بند کر دیئے جس سے نہ صرف ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا بلکہ زرمبادلہ بھی بند ہوگیابلکہ پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی ہوئی، برطانیہ، مڈل ایسٹ ، یورپی ممالک اور امریکہ سمیت افریقی ریاستوں میں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کیلئے اہم کردار ادا کر رہی ہے، پاکستان سے جب واپس اپنے ملک آنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیح پی آئی اے کی سروس ہوتی ہے جس میں بیٹھ کر وہ نہ صرف فخر کرتے ہیں بلکہ ا س سے ریونیو میں بھی اضافہ ہوتا ہے مگربدقسمتی سے پابندی کی وجہ سے یہ سلسلہ رک چکا ہے ،جہاز میں اکانومی اور بزنس کلاس کیلئے مسافروں کو الگ الگ ٹکٹیں فروخت کی جاتی ہیں، سہولیات کے حوالے سے بزنس کلاس کی ٹکٹ عمومی طو رپر مہنگی ہوتی ہے مگر اکانومی کلاس کے تمام مسافروں کیلئے ٹکٹ کا ریٹ یکساں ہوتا ہے، اب مسافروں کو اس سہولت سے بھی محروم کیا جا رہا ہے ایک ہی جہاز کی اکانومی کلاس میں مختلف درجہ بندیاں کر کے مسافروں سے زائد کرایہ جات کی وصولی کی جا رہی ہے جس سے وہ سخت پریشان ہیں، جہاز کی ایک ہی کلاس اکانومی مگر کرایہ مختلف اکانومی کلاس کو مختلف زون میں تقسیم کر کے بھاری رقم بٹور لی جاتی ہے مانچسٹر ائر پورٹ سے مختلف ممالک کو جانے والے مسافروں کی طرف سے احتجاج بھی منظر عام پر آ چکا ہے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ پرائیویٹ ویب سائٹس پر خریدی جانے والی ٹکٹیں ناقابل واپسی ہونے کے علاوہ سامان کے وزن کو بھی کم سے کم اور ناقابل ترمیم بھی ہوتی ہیں برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک سے روزانہ ہزاروں پاکستان نژاد پاکستان واپس جاتے ہیں ان روٹس پر چلنے والی ائر لائنز بھاری بھر کم منافع کما رہے ہیں، پی آئی اے تاحال ان پابندیوں کا شکار ہے ‘ ساتھ گھنٹے کا سفر 12گھنٹوں سے لیکر تین یوم تک محیط ہے ائر لائنز کے مختلف ہیڈ کواٹروں کے ائیر پورٹس پر سینکڑوں مسافر زمین پر سوتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ،ماضی میں کورونا جیسی عالمی وباء نے شعبہ ہوا بازی پر اپنے پنجے گاڑے تو مختلف پابندیوں سے اس صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، مسافروں کی آمدو رفت نہ ہونے سے زرمبادلہ بھی متاثر ہوا ب ائر لائنز کے اس مایوس کن رویئے سے مسافروں کی تعداد میں نمایاں طور پر کمی آنے کے بھی واضح امکانات سامنے آ رہے ہیں گزشتہ روز ڈونکاسٹر شیفیلڈ ہوائی اڈے کے مالکان نے اعلان کیا ہے کہ کاروبار کو ناقابل عمل قرار دیئے جانے کے بعد اسے اگلے مہینے کے آخر میں بندکیے جانے کی بازگشت حقیقت کا روپ بھی دھار سکتی ہے جس سے تقریباً 800 ملازمتیں خطرے میں پڑسکتی ہیں،مالکان کی طرف سے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے پیشکش ٹھکرائے جانے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 31اکتوبر سے پروازیں ختم کر دی جائیں گی پیل گروپ جو برطانیہ کے بڑے ہوائی اڈے کا مالک ہے نے کہا کہ زیادہ مقررہ لاگت اور حالیہ عالمی واقعات نے کاروبار کو مالی قابل عملیت کی بنیادی کمی کے ساتھ چھوڑ دیا ہے علاقائی ٹرمینل کے مینیجرز جو 54 مقامات پر ایک سال میں 1.4 ملین مسافروں کی خدمت کرتے ہیں حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بچاؤ کے منصوبے کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے ضر ورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے والے تارکین وطن کے دیرینہ مسئلے پر حکومت پاکستان سنجیدگی سے توجہ دے اور مسافروں کو لٹنے سے بچائے۔