سیاسی اور معاشی حالات

October 02, 2022

پاکستان کے سیاسی حالات ہر روز جس تیزی سے بدل رہے ہیں ، اتنی جلدی تو موسم بھی نہیں بدلتا۔ چند دن پہلے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی لندن سے واپسی، اور پھر مریم نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے 7سال کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سیاسی میدان میں کسی دھماکے سے کم نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود معاشی سرگرمیوں میں وہ تیزی نہیں آسکی ، جو آنی چاہیے ، ہو سکتا ہے آنے والے چند ہفتوں میں اِس فرنٹ پر کوئی بہتری آسکے۔ اِس وقت تو 30سال پہلے اور پھر چار سالوں میں عوام کے معاشی مسائل عوامی تواقعات کے مطابق حل نہیں ہو سکے، جس کے باعث اِس وقت جہاں ایک طرف معیشت اور سیاست کا بُرا حال ہے تو دوسری طرف قومی سطح پر عوام بد ترین معاشی مسائل اور خاص کر مہنگائی، بُری گورنس اور دیگر معاشی چیلنجز در پیش ہیں، اِس صورتحال کی وجہ سے کراچی ہو یا لاہور ، پشاور ہو یا کوئٹہ ہر جگہ قانون شکنی اور جرائم کے واقعات پریشان کن حد تک بڑھتے جا رہے ہیں، جس کے بنیادی اسباب میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ، روز گار کے مواقع میں کمی ، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے، اسلام آباد میں آج آڈیو لیک اور ایک دوسرے پر سیاسی جماعتوں کے قائدین میں الزام تراشی کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے ، جو کسی بھی لحاظ سے عوامی سطح پر قابل قبو ل نہیں ہے ، سیاسی حالات میں کشیدگی کم کرنے کے لئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اِس سے سیلاب کے متاثرین کو ریلف مل سکتا ہے کہ اب شاید سیاسی جماعتیں اور قومی سطح پر حکمران بھی فوٹو شوٹ کے شوق سے نکل کر کوئی عملی کام کر سکیں گے ۔ اب تک محتا ط اندازے کے مطابق سیلاب کی تباہی کے بعد بحالی کے کاموں کے لئے 30ارب ڈالر کے اخراجات کا اندازا لگایا جا رہا ہے ۔ اِس وقت پاکستا ن کو اپنے اربوں ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرانے کے لئے موثر سفارتی سرگرمیاں شروع کرنا پڑیں گی، کیونکہ ابھی تک اس حوالے سے کو ئی قابل ذکر اعلانات کسی ملک یا کسی عالمی ادارے کی طرف سے نہیں آئے ، اور نہ ہی پاکستان کو عملی امداد دینے کے لئے کو ئی بڑا اعلان سامنے آیا ہے ، البتہ عرب امارات، سعودی عرب ، اقوام متحدہ کی تنظیم وغیرہ کی متاثرہ افراد اور خاندانوں کے لئے ریلف سپورٹ تو آتی رہی ہے ، لیکن عالمی اداروں کی طرف سے پاکستانی سرکاری اداروں پر عدم اعتماد کے خدشات لمحہ فکریہ ہیں۔پاکستان میں حکمرانوں کی ساکھ اس حد تک متاثر ہو چکی ہے کہ کوئی عالمی ادارہ براہ راست پاکستان کو کوئی بڑی سپورٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں، اِس صورتحال میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں میں مفاہمت اور مختلف اہم ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے ، اِس کے لئے سیاسی فرنٹ پر ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور عام انتخابات کے معاملات پر بات چیت کے دروازے کھولے جائیں، انتخابات سے قبل اسلام آباد میں نگران حکومت کے قیام پر بھی اگر سیاسی جماعیتں مل بیٹھ کر فیصلہ کریں گی تو اِس سے نگران حکومت متنا زعہ نہیں ہو سکے گی۔ یہ سب اقدامات کرنے سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا ، اور عام آدمی کو امید ہو گی کہ شاید اِس سے اُن کے معاشی اور سماجی حالات میں بہتری آجائے ، اِس وقت سیاسی حلقوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر تبصرے اور بیان بازی ہو رہی ہے ، ہمارے خیال میں وہ بھی جلدی پاکستان آئیں گے ، اور پھر سیلمان نواز شریف بھی آئیں گے ، اور کوئی نہ کوئی ریلف لے کر چلے جا ئیں گے ، اب وہ پاکستان کے شہری ہیں یا برطانوی شہری ہیں، البتہ میاں نواز شریف یہاں بھرپور سیاست کریں گے اور اُن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے سر براہ عمران خان سے ہوگا، اِس طرح اِس سال کے اختتام سے قبل سیاسی میدان میں گرما گرمی بڑھ جائے گی، پھر اِس کا انجام کیا ہوتا ہے ، یہ اللہ پاک ہی بہتر جانتے ہیں۔ البتہ اس بات کے خدشات احتساب اور حساب کتاب کا کوئی نیا کام بھی اس دوران شروع ہو سکتا ہے ، جب نئی نگران حکومت بنے گی اور کام شروع کرے گی تو پھر خدا جانے وہ کیا کیا کریگی۔ یہ سب کچھ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا، اس وقت تک یہ بات قیاص آرائی سے زیادہ نہیں ہے ، اس ساری سیاسی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اصل اور فوری ضرورت معاشی اور سماجی حالات میں بہتری لانا ہے ، اَس لئے کہ عوام ابھی سب کچھ برداشت کر ہے ہیں لیکن اِس کے باوجود معاشرے میں منفی احجانات کا بڑھنا ہر لحاظ سے تشو یشناک ہے ۔