ہم کیوں فکر کریں

October 03, 2022

رابطہ، مریم فضل
سردی بڑھ رہی ہے اور ہیٹنگ کا استعمال بھی ہوگا ، اتنی مہنگائی میں کیا 24 گھنٹے ہیٹر چلانا ممکن ہے، ممکن کرنا تو ہوگا ورنہ بچے بہت پریشان ہوجائیں گے ، یہ وہ سوچہے جو آج کل ہر برطانوی کے ذہنوں میں ابھر ابھر کر آرہی ہے کیونکہ مہنگی بجلی اور گیس نے جیبوں کو خالی کردیا ہے، ایسے میں آتی سردی میں مزید مہنگے توانائی بلز کو جھیلنے کی سکت کس میں ہے لیکن کیوں ہم یا کوئی اور برطانوی یہ سوچے کیا یہ کوئی ترقی پذیر ملک ہے کہ کسی دوسرے ملک کی جنگ میں اپنی ٹانگ اڑائی تو ایسے پھنسے کہ خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے ، مطلب جنگ ہو کہیں اور رہی ہے اور اس میں اتحادی ملک کی عوام زندگی گزارنے کی جنگ لڑنا شروع کردیں، نہ اس کے پاس کھانے کے پیسے ہوں نہ کپڑے خریدنے کےپیسے ہوں، ایسی باتیں تو سوچنا بھی ہم پر جچتا نہیں ہے ،یہ فکریں تو ترقی کرتے ممالک کی عوام کو سوچنا چاہئے کہ ہمارا ملک تو پہلے ہی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، قدرتی آفات سے نمٹنے کی ہمت نہیں، ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، کوئی سننے والا نہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں، حکمراں اپنی زندگی میں مست ہیں،ان کا کام صرف یہ ہو کہ صبح شام میڈیا پر آکر اپنے کارنامے گنواتے رہے اور گزری حکومتوں کی غلطیاں، ہم تو خوش قسمتی سے ترقی یافتہ ملک کے شہری بن چکے ہیں جہاں ایک نظام ہے، جہاں پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کی بے عزتی کرنا، ہنسی اڑانا، عوامی نمائندوں کا شیوا نہیں بلکہ مشکل کے دور میں شفافیت سے کام کرنا اولین فرض ہے ، جہاں عوامی عہدوں پر فائض کو نہ غلطی کی معافی ملتی ہے نہ رشتے داری میں عہدہ ، یہ تو وہ ملک ہے جہاں ہر مسئلے کا حل ڈھونڈا جاتا ہے، یہاں ہر محکمہ فرض کے اصولوں تلے ہی کام کرتا ہے، یہاں جب وبا پھیلتی ہے تب بھی لوگوں کو اطمینان سے گھر میں بٹھا کر ہر بنیادی سہولت کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت ہر ممکن طریقے سے پہنچانا حکومت اپنا فرض سمجھتی ہے ، یہاں قدرتی آفت زدوں کے لئے ملنے والی امداد کے ٹرکوں کا حساب کتاب صاف اور واضح ہوتا ہے کہ کتنا آیا اور کتنا دیا گیا ،یہاں تو سب آئینہ کی طرح صاف ہے ،چھپا کچھ نہیں تو پھر ہمیں کیوں فکر ہو ،بھلے پیٹرول مہنگا ہو یا بجلی یا پھر گیس ، ہماری حکومت سب مشکلات سے ہمیں نکال لے گی، مہنگے بلز کی ادائیگی بھی قسطوں کی شکل میں ہمیں پہنچائے گی اور ہمارے بچوں کو بھوکا بھی نہیں رہنے دے گی ، یہاں جب راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے تو پریشانی کس بات کی۔