دبستانِ شعر: ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں...

October 26, 2022

……الطاف حسین حالی……

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

ہیں دور جام اول شب میں خودی سے دور

ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں

یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر

تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیش عشق

رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا

خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر

اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی

دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈھتے ہو اب

آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

……معین احسن جذبی……

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی

اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو

دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

……عبید اللہ علیم……

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا

یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا

بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ

کھنچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم

جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی

میں سنگ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں

جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبان جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال

ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے وہی اب سنگ و خشت لاتا ہے

فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو

یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی