کیا واقعی کوئی ستارہ ٹوٹتا ہے؟

October 31, 2022

آسمان میں ہونے والی کوئی بھی واضح حرکت انسان کو شروع سے ہی تجسس میں ڈالتی آئی ہے اور آج ہم انسانوں نے اپنے سمجھنے کے لئے انہی حرکات کے مختلف نام بھی رکھ لئے ہیں۔ان حرکات میں سے اس مضمون میں ایک حرکت کا ذکر کیا گیاہے۔ جسے ہم ’’ستارے کا ٹوٹنا‘‘کہتے ہیں۔ مذہبی تعریفوں سے ہٹ کر اگر ہم بات کریں تو پہلا سوال جو کہ ہر ایک کے ذہین میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ، ’’یہ آتے کدھر سے ہیں؟ کیا واقعی کوئی ستارہ ٹوٹتا ہے؟‘‘۔ اس بات کا جواب میں سوالیہ انداز میں دیتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جیسے ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہی ہے تو اگر یہ ستارہ پھٹے تو آسمان میں کیسا منظر ہوگا؟ یقیناً بہت خطرناک منظر ہوگا۔

تو پھر جسے ہم ستارے کا ٹوٹنا قرار دے رہے ہیں وہ کیا ہے؟ اس ٹوٹے ہوئے تارے کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہ مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان موجود سیاچوں میں سے ایک پتھر ہے جو کہ زمین کی کششِ ثقل کی وجہ سے زمین کی فضا میں داخل ہوجاتا ہے، پھر ہوا اور اس(پتھر) کی سطح کے درمیان رگڑ سے یہ گرم شعلے کی مانند نظر آتا ہے۔ ان شہابیوں میں بھی وہی مادّہ ہوتا ہے جو کہ ایک عام کوئلے میں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس میں آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ ان پتھروں کو ’’میٹی یور‘‘ (شہابیے) کہا جاتا ہے۔

ان میں سے اکثر شہابیے کششِ ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتے ہیں پر ان شہابیوں کے علاوہ کچھ ایسے ستارے بھی دیکھے جاتے ہیں جو ہوتے تو ستارے کی طرح ہی ہیں لیکن ان کی ’’دُم ‘‘ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ باقی ستاروں کی نسبت آسمان میں تیزی سے چل رہے ہوتے ہیں۔ کیا وہ بھی ’’میٹی یور‘‘ ہی ہوتے ہیں؟جی نہیں! وہ میٹی یور نہیں ہوتے لیکن ہوتے انہوں کے جیسے ہیں اور انہیں ’’دُمدار ستارے‘‘ کہا جاتا ہے۔ پر کیا یہ دُمدار ستارے بھی انہی سیاچوں کی پٹّی سے ہی الگ ہو کر زمین کی طرف آتے ہیں؟

اگر نہیں تو پھر یہ دُمدار ستارے آتے کدھر سے ہیں؟ دُمدار ستارے ایسے پتھر نما اجسام ہوتے ہیں جو ہوتے تو چٹان ہیں پر چونکہ ان کا مدار بہت زیادہ بڑا ہے۔ لہٰذا جب وہ سورج سے دور جاتے ہیں تو کم درجۂ حرارت کی وجہ سے ان میں موجود پانی جَم جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ سورج کے قریب آنے لگتے ہیں تو سورج کی گرمی سے یہی پانی آبی بخارات میں تبدیل ہو کر اس پتھریلے جسم کی دُم بنا دیتا ہے۔

ستارہ(یہاں مراد پتھر) آگے آگے اور دُم اس کے پیچھے ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام بھی دُمدار ستارہ رکھا گیا ہے۔ چوں کہ انسان، تخلیق کے بعد سے ہی، زمین پر قیام پذیر ہے اور جب بھی اس نے ان اجسام کو آسمان میں دیکھا، دُم کے ساتھ ہی دیکھا اس لئے اس کا نام ’’دُمدار‘‘ رکھاگیا، ورنہ سائنسی ترقی ہونے کے بعد سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ پتا لگایا ہے کہ جیسے جیسے یہ سورج سے دور جاتا ہے ویسے ہی اس کی دُم (جو کہ آبی بخارات کی وجہ سے بنتی ہے) ختم ہوتی جاتی ہے۔ اور یہ دُمدار ستارہ ایک بِنا دُم کے پتھریلا جسم بن جاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ، ان دُمدار ستاروں کا مدار بہت بڑا ہوتا ہے ۔اس لئے یہ سورج کے پاس دیر میں آتے ہیں لیکن یہ سب کے سب سورج کے پاس آنے کے بعد کدھر چلے جاتے ہیں؟ آئیے اس راز سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔ان تمام پتھروں کا جھرمٹ سورج سے تقریباً ایک نوری سال دور نظامِ شمسی کے گرد پتھروں کا بادل بناتا ہے۔ اس بادل کی نشاندہی ’’یان اورٹ‘‘ نے کی تھی۔ اس لئے اس بادل کا نام اسی سائنسدان کے نام پر ’’اورٹ بادل‘‘ رکھا گیا۔ اورٹ بادل کے بارے میں جاننے کے بعد آپ میں سے اکثر لوگ حیرانی کے عالم میں ہوں گے اور یقیناً یہ سوال آپ کے ذہن میں گھوم رہا ہوگا کہ ،’’اگر ان پتھروں کے جھرمٹ نے ہمارے نظام شمسی کو تمام اطراف سے گھیرا ہوا ہے تو ہم اس سے دور کی چیزوں کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ یہ بادل رکاوٹ کیوں نہیں بنتا؟

’’اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ اس بادل میں موجود پتھر ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور ہیں اور ان کے بیچ میں دوری اتنی ہے کہ یہ رکاوٹ نہیں بنتے۔یہ اورٹ بادل سورج سے ایک نوری سال دور ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ سورج کی کشش اس بادل میں موجود ہر پتھریلے اجسام پر بہت کثیف سی ہی ہوگی۔ اور اسی وجہ سے اس بادل میں سورج کے آس پاس کے ستارے کی کشش سے بھی خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے سورج سے قریب ترین ستارہ چار نوری سال دور ہے۔ یعنی یہ اورٹ بادل سورج اور اس سے قریب ترین ستارے کے درمیان فاصلے کی ایک چوتھائی دوری پر ہے۔

ظاہر ہے کہ اس ستارے کی بھی کشش اس بادل میں موجود اجسام کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوگی۔ تو اسی کھینچا تانی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ، ان اجسام سے قریب ہونے کی وجہ سے کسی جسم کو سورج اپنی طرف کھینچ لے گا، اور اس طرح یہ دُمدار ستارے زمینی رہائشیوں کے آسمان میں رونما ہوجائیں گے۔ان ہی دُمدار ستاروں میں سے ایک مشہور دُمدار ستارہ، جو کہ آسمان میں با آسانی نظر آجاتا ہے، وہ ہے ’’ہیلی‘‘۔

اس دُمدار ستارے کا نام مشہور سائنسدان ’’ایڈون ہیلی‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے، کیوں کہ اسی سائنسدان نے پیشگوئی کی تھی کہ، یہ دُمدار ستارہ ہر 76 سال بعد آسمان میں نظر آئے گا اور اس کی یہ پیشگوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ یہی دُمدار ستارہ 1986ء میں بھی نظر آیا تھا اور اگر آپ 2061ء میں کوئی دُمدار ستارہ آسمان میں دیکھیں گے تو آپ کو یقین آجائے گا کہ ہیلی دُمدار ستارہ واپس آگیا ہے۔