طالبہ اور اساتذہ میں ذہنی ہم آہنگی بڑھانے کی اہمیت

November 13, 2022

عالمی وبائی مرض کووِڈ-19نے تعلیم پر کئی طرح سے طویل مدتی اثرات ڈالے ہیں۔ وبائی مرض کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کی بندش، بیماری، سماجی دوری اور دیگر پابندیوں نے طلبہ کے سیکھنے کے خسارے کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ شاید اس کا ازالہ کبھی نہ کیا جاسکے۔ رہ جانے والے کام کا بوجھ، تاخیر اور پیچیدگیاں آنے والے طویل عرصہ تک محسوس کی جائیںگی۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ کووِڈ-19نے طلبہ میں انزائٹی اور ڈپریشن جیسے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ دوسری طرف، وبائی مرض نے اساتذہ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ سکھانے کے عمل کو مختلف طریقوں سے انجام دے سکیں۔ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے نتیجے میں، تعلیمی اداروں کو رُک کر یہ سوچنے کا موقع ملا کہ وہ سکھانے کے عمل میں بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کو شامل کریں۔

اکثر اوقات، پیش آنے والے تجربات سے ہم ان مواقع کے بارے میں سیکھتے ہیں جو دستیاب ہوتے ہیں اور وہ بھی جو دستیاب نہیں ہوتے لیکن ناگزیر ہوتے ہیں۔ کووِڈ-19سے اساتذہ نے جو ایک چیز سیکھی وہ ہے سیکھنے کے عمل میں مفادِ عامہ اور انسانی تعلقات کی مرکزیت۔ چار دیواری کے اندر محدود رہنے اور سماجی دوری نے طلبہ، اساتذہ، والدین اور انتظامیہ کو اس بات کا احساس دِلایا کہ ایک دوسرے سے طبعی اور جذباتی میل جول، کمیونٹی اور لوگوں کے درمیان رہنا بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ سیکھنے کا عمل خشک اور تکنیکی عمل نہیں ہے۔ یہ ایک جذباتی اور سماجی رجحان ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ماہرِ نفسیات تو ایک طویل عرصہ سے بات کررہے ہیں لیکن باقی کسی کو اس کا احساس نہیں تھا۔

نظم و ضبط

حالیہ کئی مطالعات سے واضح ہوا ہے کہ کووِڈ-19کے بعد تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کے سنجیدہ مسائل نے سر اُٹھایا ہے۔ ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ جھگڑوں، بدمعاشی اور غیرمناسب رویوں کے باعث امریکی اسکولوں میں اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ ایک اور مطالعہ کے مطابق، وبائی مرض کے بعد جنوبی افریقا میں ہراسگی، بدزبانی، جسمانی حملوں، دھمکیوں اور چاقوؤں سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہہ رہے ہیں کہ وبائی مرض کے بعد، ماضی کے مقابلے میں طلبہ اور اساتذہ میںاس طرح کے رویوں میں شدت دیکھی گئی ہے۔

جینیوا کے ایک اسکول میں ہیڈ آف انسٹیٹیوٹ کی خدمات انجام دینے والی ایک خاتون ٹیچر ایڈمنسٹریٹر بتاتی ہیں کہ، کووِڈ-19کے مشکل ترین دور سے گزر کر ا بھی جب دوبارہ سے ہمارا تعلیمی ادارہ عمومی ماحول کی طرف لوٹ رہا ہے تو ایسے میں ہمیں طلبہ میں انزائٹی، سیکھنے کے عمل میں خلیج اور نظم و ضبط کے بڑھے ہوئے مسائل کا سامنا ہے۔

نفسیات جاننے والے ماہرینِ تعلیم ، گھر کے ماحول کے پس منظر میں طلبہ میں نظم و ضبط کے مسائل دیکھتے ہیں۔ والدین کے مثبت رویے، روزمرہ معمولات (جیسے رات کا کھانا فیملی کے ساتھ کھانا) اور سماجی سپورٹ (سُننا، گفتگو کرنا، ایک ساتھ وقت گزارنا)کا بچوں پر بڑے پیمانے پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ہر بچے کو فیملی کی طرف سے مکمل جذباتی اور نفسیاتی سپورٹ حاصل نہیں ہوتی۔

سرپرستی اور بحث و مباحثہ

اساتذہ کو ہر طالب علم کے ساتھ ون-آن-ون ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ اسکول تو دور کی بات، اکثر اسکولوں میں ایک کلاس ہی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ کئی طلبہ اپنے استاد کی توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ ہر طالب علم کی اپنے اساتذہ کے ساتھ اس حد تک ذہنی ہم آہنگی ہونی چاہیے کہ وہ ان پر اعتماد کرسکے جبکہ ایک استاد کو کئی طلبہ کا کوچ بننا چاہیے۔ ایک استاد کے حصے میں جتنے کم طلبہ ہوں گے، نتائج اسی حد تک بہتر ہوںگے۔

اگر ہر طالب علم کو اپنے استاد کے ساتھ بیٹھ کر اپنے تعلیمی مسائل اور پیشرفت بتانے کا موقع ملے تو اس سے استاد اور طالب علم کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح کے بحث و مباحثے میں استاد خود کو ایک کوچ کی پوزیشن پر رکھتے ہوئے کچھ اس طرح کے سوالات کر سکتا ہے؛ ہاؤ آر یو؟ (کیسے ہو؟)، ٹیل می یور اسٹوری؟ (مجھے اپنی کہانی سناؤ؟)،واٹ ووڈ یو لائیک ٹو ٹاک اباؤٹ؟ (تم کس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہو؟)، ہاؤ آر تھنِگس اِن یور لائف؟ (تمہاری زندگی کے معاملات کیسے چل رہے ہیں؟) وغیرہ۔

اس طرح کے سوالات کے ذریعے طلبہ کو اپنے مسائل اور جذبات کا اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سے وقت کے ساتھ اساتذہ اور طلبہ کے مابین ذہنی ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی حکمتِ عملی کے ذریعےطلبہ کو ان کے تنہا پسند رجحان سے نکال کر میل جول پسندی کی جانب لایا جاسکتا ہے۔ ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے اور بامعنی گفتگو کے ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے ’’مینٹور پروگرام‘‘ طلبہ میں ذہنی دباؤ کم کرنے اور ان کی فلاح و بہبود میں اضافےکے لیے بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ طلبہ میں نظم و ضبط کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جاسکتا ہے، تاہم اتنا فرق ضرور پڑے گا کہ ان مسائل پر کسی بھی طالب علم سے فوری اور بامعنی گفتگو شروع کی جا سکتی ہے۔ جب طلبہ کو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے کسی بھی مسئلے یا تکرار پر بلا جھجھک استاد کے پاس جاکر شکایت یا بات کرسکتے ہیں تو یہ بات ان میں دباؤ کو کم کرنے کا باعث بنتی ہے اور وہ آپس کے تکرار کو بڑھانے کے بجائے استاد کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔