اُستاد محض ایک رسمی ذمّےداری ادا کرنے والا فرد نہیں، انسانی تہذیب وتمدّن کا کلیدی ستون ہوتا ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ معاشرتی ارتقاء، فکری تعمیر کی بنیاد اُستاد ہی رکھتا ہے، تو یہ ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہوگی، مگر افسوس، صد افسوس کہ ہمارے معاشرے کا یہ ’’ستون‘‘ کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے اور وہ پیشہ، جوکل تک مقدّس ترین پیشوں میں شمار ہوتا تھا، آج ذلّت و ہزیمت کا شکار ہے۔ ہمیں نہ صرف اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، بلکہ اِس مسئلے کا کوئی دیرپا حل بھی نکالنا ہوگا۔
جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، تو پتا چلتا ہےکہ اُستاد کی عزّت وتوقیر ہر دَور میں انسانی معاشرے کا بنیادی جُزو رہی ہے۔ یونانی فلاسفہ، سقراط اور افلاطون کے مکالمات سے لے کر اسلامی تاریخ میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام بخاری اور دیگر جلیل القدر محدثین و فقہاء کے مابین تعلقات پر نظر ڈالیں، تو پتا چلتا ہے کہ طلبہ اپنے اساتذہ کو اپنے والدین سے بھی بڑھ کراحترام دیتے تھے۔
اُستاد اور شاگرد کا یہ تعلق علم کی بنیاد پر پروان چڑھتا اور آئندہ نسلوں کی تربیت کرتا رہا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کامسلمان معاشرہ اس حسین روایت سے منحرف ہوچُکا ہے۔ نتیجتاً، اُستاد کا والدین کی نظر میں وہ مقام رہا، نہ طلبہ کےدل میں اورنہ ہی ریاستی نظام میں۔ اس کے برعکس ترقّی یافتہ ممالک کا جائزہ لیں، تو یقیناً اپنےطرزِعمل پرسخت حیرت اورشرمندگی ہوگی کہ یورپ، امریکا، جاپان، چین اور کوریا جیسے ترقّی یافتہ ممالک اپنی قومی پالیسیزمیں اساتذہ کو کلیدی مقام دیتے ہیں۔
اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاپان کے وزیرِاعظم سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ ’’آپ نے دوسری جنگِ عظیم کی بربادی کے بعد جاپان کو کس طرح دُنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت میں بدلا؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم نے سب سے پہلے اپنے اساتذہ کو عزّت واحترام دیا۔‘‘ یاد رہے، جاپان میں اُستاد کو قانوناً وہ مقام حاصل ہے، جو معاشرےکےکسی دوسرے طبقے کے فرد کو حاصل نہیں۔
جاپان میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اگر ایک سپاہی اور ایک اُستاد ایک ہی جگہ کھڑے ہوں، تو پہلے سلام اُستاد کو کیا جائےگا، کیوں کہ سپاہی مُلک کا دفاع کرتا ہے، لیکن اُستاد سپاہی کوبناتا ہے۔‘‘ اِسی طرح فِن لینڈ میں، جو تعلیمی میدان میں دُنیا کی کام یاب ترین اقوام میں شمار ہوتا ہے، اساتذہ کی تربیت پر خصوصی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ وہاں معلّمین کی تن خواہیں سب سے زیادہ اور معاشرتی مرتبہ سب سے بلند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے طلبہ کا معیارِ تعلیم اور کردار دُنیا کے لیے عملی نمونہ ہے۔
اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں مدرّسین کی حالتِ زار قابلِ دید ہے۔ یہاں ایک استاد کو قلیل تن خواہ اور سہولتوں کی عدم فراہمی کے ساتھ منفی معاشرتی رویّوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک طرف حکومتی سطح پر اُستاد کو محض ایک کلرک یا انتظامی مشین کا پُرزہ سمجھا جاتا ہے، تو دوسری جانب طلبہ کے والدین بھی اساتذہ سے ناروا سلوک کرتے ہیں، حتیٰ کہ اساتذہ پر ہاتھ اُٹھانا اور اُن کی توہین کرنا ایک عام سماجی روش بن چُکی ہے، تو ذرا سوچیں کہ جس معاشرے میں علم کی ترسیل کرنے والے فرد کو ذلیل ورسوا کیا جائے، وہاں علم کے چراغ کیسے روشن ہوسکتے ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام انحطاط پذیر اور نئی نسل بے مقصدیت اور ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں اُستاد کا مقام سب سے روشن مثال ہے۔ خود نبیٔ اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لیے معلّم بنا کر بھیجا۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ’’اللہ نے نبی کو اس لیے بھیجا کہ وہ لوگوں کو کتاب اورحکمت سِکھائے۔‘‘(سورۂ جمعہ)
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منصبِ نبوّتؐ کا بنیادی پہلو تعلیم وتربیت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مُجھےمعلّم بناکربھیجا گیا ہے۔‘‘ گویا کہ حضور ﷺ کی بعثت ہی معلّمی کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے۔ پھر دیکھیے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے استاد و مربّی، نبیٔ اکرم ﷺ سے کیسا تعلق رکھا۔ وہ آپ ﷺ کی محفل میں اس طرح بیٹھتے، گویا ان کے سَروں پر پرندے بیٹھے ہوں، کوئی ہل چل یا بےادبی نہ کرتے۔ یہی ادب و احترام علم کے نورکودِلوں میں اُتارتا اور کردار میں راسخ کرتا تھا۔
افسوس، صد افسوس کہ آج ہم نے اس سُنّت کو فراموش کردیا ہے۔ شاگرد، اُستاد کےسامنے بے تکلّفی کوآزادی سمجھتاہے،جب کہ والدین، اساتذہ کو بُرا بھلا کہہ کر بری الذمّہ ہوجاتے ہیں اور حکومت معلّمین کو بھاری ذمّے داریوں میں جکڑ کر اُن کا وقار پامال کرتی ہے۔ نتیجتاً، وہ استاد جو کل تک اقوام کو بےدارکرتا تھا، آج خُود اپنے حق کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دوبارہ عروج کی راہ پر گام زن ہو، تو ہمیں استاد کی عزّت و تکریم بہرطور بحال کرنی ہوگی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ترقّی یافتہ اقوام کے پاس نہ ہماری طرح وسیع رقبہ ہے اور نہ قدرتی وسائل، لیکن انہوں نے صرف تعلیم اور استاد کو قدرو منزلت دے کر دُنیا پر غلبہ حاصل کرلیا۔ یاد رہے، ہمارے پاس قرآن و سُنّت کی وہ تعلیمات ہیں، جن کی رُو سے اُستاد کی عظمت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر ہم ان تعلیمات پرعمل کریں، توعلم کا وہ چراغ پھر سے روشن ہوسکتا ہے، جو قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے جلایا تھا۔
آج والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں کو اُستاد کی عظمت و مقام سے آگاہ کریں۔ طلبہ اپنے اساتذہ کی خدمت کو سعادت سمجھیں اور ریاست اپنے نظامِ تعلیم کو معلّمین کے گرد تعمیر کرے۔ یاد رہے، اُستاد کی عزّت محض اُستاد کی عزّت نہیں بلکہ یہ علم کی تکریم ہے اور علم کی تعظیم دراصل دِین اور انسانیت کی تکریم ہے۔ اُستاد کا مقام نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان سے بڑھ کر اور کس طرح واضح کیا جاسکتا ہے کہ ’’علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
اُستاد ہی وہ شخصیت ہے کہ جو اس وراثت کو نئی نسلوں تک پہنچاتا ہے۔ اگر ہم نے اس وارث کی توہین کی، تو گویا ہم نے نبوّتؐ کے وَرثے کی بے توقیری کی اور جس معاشرے میں وراثتِ نبوتؐ کی بےقدری ہو، وہاں روشنی باقی نہیں رہ سکتی۔
لہٰذا، ہمیں اجتماعی توبہ اور عزم کے ساتھ اساتذہ کے وقار کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ سب محض ایک پیشے کی عزّت بحال کرنے کے لیے نہیں بلکہ پوری تہذیب اور پوری اُمّت کا مستقبل سنوارنے کے لیے ہوگا، وگرنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔