جمیل ادیب سیّد
اُستاد کسی بھی معاشرے کی ایک انتہائی قابلِ احترام شخصیت ہوتا ہے کہ وہ طلبہ کو علم کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم و تعلّم کو ایک غیردِل چسپ، بوریت کا حامل عمل بنا دیاگیا ہے۔ عام طور پر طلبہ، اساتذہ سے خوف کھاتے اور اُن سے دُور بھاگتے ہیں، جو کسی طور دُرست نہیں۔
ہم خود بھی ایک عرصے سے بچّوں کوٹیوشن دے رہے ہیں اور ایک معلّم کی حیثیت سے درس و تدریس کے شُعبے میں اصلاحات کے خواہاں ہیں، تاکہ ہماری قوم کے بچّے بہ خوشی تعلیم حاصل کریں اور اس کےنتیجے میں پاکستان دُنیا بَھر میں ایک شان دار اور غیرمعمولی ترقّی یافتہ مُلک کی حیثیت اختیار کرے، جس کے عوام ترقّی یافتہ ممالک کے شہریوں کی مانند مہذّب و منظّم ہوں۔
ہماری خواہش ہےکہ دیگر لُطف انگیز مشاغل کی طرح اساتذہ تعلیمی دورانیے (اسکولز اور کالجز میں ہونے والے پیریڈز)کوبھی ایک خُوب صورت، پُرکشش اور دِل چسپ مشغلہ بنائیں، تاکہ طلبہ حصولِ تعلیم کے عمل سے نہ صرف لطف اندوز ہوں، بلکہ ہر روز اس دورانیے اور مختلف مضامین پڑھانے والے اساتذہ کا بے چینی سے انتظار کریں اور تعلیمی دورانیہ ختم ہونے پر اُنہیں مسرّت کی بہ جائے ملال ہو۔
متعدد مرتبہ یہ جملہ نظر سے گزرا کہ درس و تدریس انبیاء علیہ السّلام، سرکارِ دوعالم ﷺ، اُمّہات المؤمنین اور تمام بزرگان دینِ کا وَرثہ ہے، تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا ان اولوالعزم اور عظیم المرتبت ہستیوں کو بھی اپنے طلبہ پر غُصّہ آتا تھا اور کیا اُن کے ذہن میں بھی سزا کا تصوّر تھا؟
مگرجب اس حوالے سےتحقیق کی، تو تمام سوالات کا جواب نفی میں ملا۔ یہ حقیقت عیاں ہونے کےبعد ہمیں اپنے دو اساتذہ یاد آئے، جن سے ہم نے چَھٹی سے آٹھویں جماعت تک پڑھا تھا۔ دونوں ہی نہایت شفیق اساتذہ تھے اور اپنےطلبہ پرجان چھڑکتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں انبیاءؑ اور بزرگانِ دین کے وارث تھے۔ مجھ سمیت تمام طلبہ اُن سے ملنے کےلیے بےچین رہتے۔ چُھٹی ہونے پر ہمیں ملال ہوتا تھا۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ آج ہمارے ٹیوشن کے طلبہ بھی ہمارا انتظار کرتے ہیں۔
ہمیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے طریقۂ تدریس سے لُطف اندوز ہوتے اور ٹیوشن کا دورانیہ ختم ہونے پر اداس ہوجاتےہیں، لہٰذا ہماری دِلی خواہش ہے کہ اساتذہ تدریسی عمل کوبےگارنہ سمجھیں بلکہ ترسیلِ علم کو ایک دِل چسپ مشغلہ بنانے کی بھرپور کوشش کریں، تاکہ طلبہ طریقۂ تدریس سے لُطف اندوز ہوں، اساتذہ کا بےچینی سے انتظار، اُنھیں دیکھ کر بےحد خوشی کا اظہار کریں اور پیریڈ ختم ہونے اور اُن کے جانے پر انہیں ملال ہو۔ درحقیقت یہی اصل اور کام یاب طریقۂ تدریس ہے۔
ہم چاہتے ہیں ِکہ پاکستان میں دُنیا کے بہترین طلبہ، بہترین مسلمان، شان دار پاکستانی اور شان دارانسان پیدا ہوں، جن کا دُنیا بَھر میں اعلیٰ مقام ہواور اگر ہمارے اساتذہ اپنے طریقۂ تعلم کو انبیاء کرامؑ کے اسلوبِ تدریس کے مطابق ڈھال لیں، توایسا یقیناً ممکن ہے۔
اساتذہ یہ بات یاد رکھیں کہ سخت سزائیں دینے کے نتیجے میں طلبہ کا دماغ کم زور اور تعلیم میں دل چسپی کم ہوجاتی ہے۔ نیز، سزائیں دینے والے اساتذہ کا رُعب تو قائم ہو جاتا ہے، لیکن طلبہ کے دِل میں اُن کی عزّت و احترام باقی نہیں رہتا۔