ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری، لاہور
لاہور، پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے، جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ شہر اپنی قدیم تاریخ، ثقافتی ورثے اور اہم تاریخی مقامات کےحوالے سے معروف ہے۔
دریائے راوی کے کنارے واقع شہر لاہور، پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے، یہ پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ اس شہر کا کوئی ایک حوالہ نہیں، یہ کئی جہتیں رکھتا ہے اور اِس کی ہر جہت اپنی مثال آپ ہے۔
لاہور شہر میں اگرچہ کئی پرانے اور نئے تعلیمی ادارے موجود ہیں، تاہم ان میں کچھ ادارے انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ تو آئیے، جانتے ہیں کہ لاہور کے قدیم اور تاریخی تعلیمی اداروں میں کیا کیا چُھپا ہے۔
جامعہ پنجاب : اکتوبر 1882ءمیں قائم ہونے والی جامعہ پنجاب، لاہور کی سب سے بڑی اور قدیم ترین یونی ورسٹی ہے، پہلے اس کا کیمپس مال روڈ اور انارکلی بازار کے ساتھ ہی تھا۔ 1970ء کی دہائی میں اس کے کچھ شعبے نیو کیمپس میں منتقل ہو گئے۔ لاہور کے پرانے کیمپس کو علامہ اقبال کیمپس اور نئے کیمپس کو قائدِاعظم کیمپس کہا جاتا ہے۔
جامعہ کا ایک ذیلی کیمپس خانس پور کے پہاڑی علاقے میں بھی قائم ہے۔جامعہ پنجاب کے قیام میں بنیادی کردار، کنگز کالج، لندن کے پروفیسر گوٹلیب ولہیم لیٹنرکا ہے۔ وہ جامعہ کے پہلے رجسٹرار بھی رہے۔ اس وسیع جامعہ کی کچھ باتیں اسے دوسرے تعلیمی اداروں سے منفرد بناتی ہیں۔
مثلاً یونی ورسٹی کے نیو کیمپس کی حدود میں واقع ’’شاہ دی کھوہ‘‘ نامی صدیوں پرانے گاؤںمیں سردار فتح سنگھ کی حویلی بھی موجود ہے۔ واضح رہے کہ فتح سنگھ خود بھی خالصہ دربار اور برطانوی نو آبادیاتی دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔
ایچی سن کالج: پاکستان کا یہ مشہور تعلیمی ادارہ،ایک مدّت تک ’’چیفس کالج‘‘ کہلاتا تھا۔اس کا سنگِ بنیاد 3نومبر 1886ء کو لارڈ ڈفرن نے رکھا۔ قیام ِپاکستان کے بعد یہ والیانِ ریاست کے لیے مخصوص نہ رہا، تاہم یہاں وہی بچّے تعلیم پاتے ہیں، جن کے والدین صاحبِ حیثیت ہیں۔ پاکستان کی کئی نام وَر شخصیات نے اسی کالج سے تعلیم حاصل کی۔
ویسے تو لاہور کے بہت سے کالجز میں کہیں مسجد، کہیں مندر اور کہیں سکھوں کی سمادھیاں موجود ہیں، لیکن ایچی سن کالج ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس کے احاطے میں مندر، مسجد اور گردوارہ تینوں موجود ہیں۔ ایچی سن کالج، جنوری1886ء میں اشرافیہ کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ کالج کا نام اس دور کے گورنر پنجاب سر چارلس ایچی سن کے نام پر رکھا گیا، جب کہ سنگِ بنیاد وائسرائے ہند، فریڈرک ہملٹن بلیک وُوڈ نے رکھا تھا۔
اس ادارے کی عمارت کا نقشہ بھائی رام سنگھ نے بنایا،جب کہ تعمیر سر گنگا رام نے کروائی، جو اُس دَور کے معروف معمار تھے۔چوں کہ یہاں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور بیش تر طلبہ رہائش پزیر بھی تھے، سو ادارے کے اندر 1900ء میں ریاست بہاول پور کے نواب محمد بہاول خان عباسی پنجم نے اپنی طالب علمی کے دوران ایک خُوب صُورت مسجد تعمیر کروائی۔چوں کہ ہندو اور سکھ طلبہ کے لیے بھی مذہبی تعلیم لازم تھی، سو ان کے لیے کیمپس میں ایک گوردوارہ اور مندر بھی تعمیر کیا گیا۔
کنگ ایڈورڈ میڈکل یونی ورسٹی: 1860ء میں تعمیر کی گئی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی، خطّے کا سب سے پہلا طبّی ادارہ تھا، جو پہلے میڈیکل کالج ہوا کرتا تھا۔ بعدازاں، برطانوی دورِ حکومت میں، دسمبر1911ء میں برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ادارے کا خیال1857ءہی میں پیش کر دیا گیا تھا، لیکن جنگ ِآزادی کی وجہ سے معاملہ لٹکا رہا اور پھر 1960ء میں باقاعدہ اس کالج کے قیام کے بعد اس کے پہلے پرنسپل، کلکتہ کے ڈاکٹر آئی بی شریوان کو مقرر کیا گیا۔
1860ء میں یہ ادارہ آرٹلری بیرکس کے ساتھ ملحق تھا، جسے1864ء میں انار کلی سے ملحقہ ایک ڈسپینسری کے قریب منتقل کر دیا گیا۔1871ء میں انارکلی ڈسپینسری ختم کرکے اس کی جگہ میو اسپتال قائم کیا گیا، جس کا نام اُس وقت کے برطانوی راج کے سربراہ ‘‘ ایرل آف میو‘‘ کے نام پر رکھا گیا۔
اسی سال اس کالج کا الحاق پنجاب یونی ورسٹی سے کر دیا گیا۔ پٹیالہ بلاک کی لمبی راہ داریاں، کشادہ ہال، پرانا زینہ، یادگاری تختیاں اور بڑی بڑی کشادہ کھڑکیاں انسان کو ماضی میں لے جاتی ہیں۔ یہاں زم زمہ توپ کا چھوٹا سا ماڈل اور ایک عجائب گھر بھی موجود ہے۔
اسلامیہ کالج، سول لائنز : یہ کالج، آریہ سماج تنظیم کی طرف سے یکم جون 1886ءمیں دیانند اینگلو ویدک اسکول کے طورپر قائم کیا گیا۔ بعدازاں، ادارے کوکالج کا درجہ دے کر اس کے بانی اور مشہور ہندو رہنما، دیانند سرسوتی کے نام موسوم کردیا گیا۔ تقسیم کے بعد یہ ادارہ اسی نام سے انبالہ منتقل ہو گیا،جب کہ یہاں رہ جانے والے ادارے کا نام تبدیل کرکے ’’گورنمنٹ اسلامیہ کالج، سول لائنز‘‘ کر دیا گیا۔
یاد رہے، بھگت سنگھ نے اسی کالج سے دورانِ تعلیم اپنی عملی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس کالج کے اندر ایک چبوترے پر تین تاریخی (رنجیت سنگھ کے خاندان کی) سمادھیاں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک سمادھی راج کور عرف ’’داتر کور‘‘ سے منسوب ہے، جو نکئی مثل کے سردار، رن سنگھ کی بیٹی اور مہاراجا رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی تھی۔
دوسری’’چندر کور‘‘ سے منسوب ہے، جو رنجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، راجا کھڑک سنگھ کی بیوی اور نو نہال سنگھ کی والدہ تھی،جب کہ تیسری سمادھی چندر کور کی لاڈلی بہو ’’صاحب کور‘‘ سےمنسوب ہے، جو نونہال سنگھ کی بیوی تھی۔ساس، بہو کی یہ سمادھیاں آج بھی کالج کے ایک حصّے میں اِستادہ تاریخ کے کچھ اوراق کھولتی نظر آتی ہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹس: نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے)فنونِ لطیفہ کے حوالے سے لاہور اور پنجاب کا منفرد اور بہترین ادارہ ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم اور جنوبی ایشیا کا دوسرا قدیم آرٹ کالج ہے، جس کی بنیاد1876ء میں بطور ’’میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹس‘‘ رکھی گئی۔ تاجِ برطانیہ کے دَور میں تعمیر کیے گئے اس ادارے کا نام وائسرائے ہند، لارڈ میو کے نام پر رکھا گیا۔
بعدازاں،`1958میں، اسکول کا نام بدل کر نیشنل کالج آف آرٹس رکھ دیا گیا۔ جان لاک ووڈ کپلنگ (روڈیارڈ کپلنگ کے والد) ادارے کے پہلے پرنسپل تعینات ہوئے، جنہیں لاہور میوزیم کا پہلا کیوریٹر بھی مقرر کیا گیا۔ اس ادارے کا ایک کیمپس راول پنڈی اورایک گلگت میں بھی ہے۔
گرچہ بطور ادارئہ فنونِ لطیفہ یہاں بہت تنوّع، رنگا رنگی ہے، لیکن جگہ جگہ جو مجسّمے، تصاویر، اسکلپچرز اور ماڈلز نظر آتے ہیں، ان کا کسی اور ادارے سے کوئی مقابلہ نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے پورا ادارہ ہی ایک ’’عجائب گھر‘‘ ہے۔
گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی: جامعہ پنجاب کے بعد لاہور کا یہ سب سے مشہور ادارہ ہے، جو1864ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے بطور گورنمنٹ کالج، لاہور قائم کیا گیا۔ شروع میں یہ ادارہ ڈوگرہ وزیراعظم، راجا دھیان سنگھ کی حویلی میں قائم کیا گیا تھا، جس کا الحاق کلکتہ یونی ورسٹی سے تھا۔
کیمبرج، آکسفورڈ اور ڈبلن یونی ورسٹی کے اساتذہ یہاں پڑھایا کرتے تھے۔ 1871ء میں انارکلی کے ایک بڑے بنگلے اور پھر ڈاکٹر رحیم خان (کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پہلے مسلمان پرنسپل) کی کوٹھی سے ہوتا ہوا یہ کالج 1876 ء میں اپنی موجودہ جگہ، مال روڈ پر آ گیا۔ اس کا ایک کیمپس کالا شاہ کاکو میں بھی ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلیب ویلہیم لیٹنر تھے، جنہوں نے جامعہ پنجاب کی بھی بنیاد رکھی۔ یہ کالج لگ بھگ ایک سو پندرہ سال تک پنجاب یونی ورسٹی سے منسلک رہا۔ بعدازاں2002ء میں اسے یونی ورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ تاہم، کالج کی تاریخی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے اس کے نام میں کالج کا لفظ برقرار رکھا گیا۔
یوں تو اس ادارے میں بھی بہت کچھ منفرد ہے، لیکن خاص طور پر اس کی انفرادیت کا سبب اس کا گھنٹہ گھر ٹاور ہے، جس کے سامنے مشہور اوول گراؤنڈ ہے۔ 176فٹ بلند یہ ٹاور کنہیا لعل کی زیرِ نگرانی تعمیر ہوا، جب کہ عمارت اور ٹاور کا نقشہ ڈبلیو پرڈون نے بنایا، جس میں نوآبادیاتی دَور کے طرزِ تعمیر کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔
چار منزلہ اس ٹاور کی دو منزلیں چوکور، جب کہ اوپری حصّہ ہشت پہلو اور تکونی گنبد پر مشتمل ہے، اس کے چاروں طرف محرابی کھڑکیاں ہیں۔ وسیع برآمدے، اونچی چھتیں، خُوب صُورت دالان اور محرابی کھڑکیاں، جہاں سے گھنٹہ گھر صاف نظر آتا ہے۔ ایسے خوب صورت ماحول میں تعلیم و تربیت کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔
یونی ورسٹی آف ویٹرنری اینیمل سائنسز: یہ لاہور میں جانوروں سے متعلق تعلیم کا سب سے پہلا اور پرانا سرکاری ادارہ ہے، جسے عرفِ عام میں ’’یُوواس‘‘ کہا جاتا ہے۔1882ء میں برطانوی دور میں قائم کیے گئے اس ویٹرنری اسکول کو بعدازاں کالج کا درجہ دیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف برِعظیم، بلکہ ایشیا میں جانوروں کی صحت اور ریسرچ سے متعلق اپنی طرز کا پہلا ادارہ ہے۔
اس کے سب کیمپس نارووال، پتوکی، جھنگ، لیہ اور بہاول پور میں بھی موجود ہیں۔ایک صدی سے بھی زیادہ پرانے اس ادارے کی مرکزی عمارت آج بھی تاریخی شان و شوکت کی حامل ہے، جس کی گواہی یہاں کے محرابی دالان، گزرگاہیں اور لکڑی کے زینے دیتے ہیں۔
یوں تو یہ پوری عمارت ہی تاریخی ہے، لیکن یہاں موجود گھوڑوں کی علاج گاہ اسے کچھ زیادہ خاص بناتی ہے۔ دیگر اداروں کے برعکس یہاں کتّے، بلّیوں، خرگوشوں اور مرغیوں کے علاوہ زیادہ تر گھوڑوں کا علاج کیا جاتا ہے، اسی لیے یہاں کے مقامی افراد اسے ’’گھوڑا اسپتال‘‘ بھی کہتے ہیں۔
ایف سی کالج، لاہور : فار مین کرسچین کالج، لاہور برصغیر کے چند تاریخی اور معیاری کالجز میں سے ایک ہے۔ اس کے بانی ایک برطانوی ڈاکٹر چارلس ولیم فارمین تھے۔ 1847ء میں وہ برِ عظیم آئے،تو یہاں کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔
دو سال بعد وہ لاہورچلے گئے اور رنگ محل اسکول، لاہور کا سنگِ بنیاد رکھا۔ 1865ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا اور اس کا نام کالج کے بانی ڈاکٹر چارلس ولیم فارمین کے نام پر رکھا گیا۔ ڈاکٹر چارلس ولیم فارمین نے پنجاب میں معیاری تعلیم کے فروغ کے ضمن میں خاصی سنجیدہ کوششیں کیں۔
ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ کالج کے سابق طلبہ اور فیکلٹی کے اراکین نے یہاں6 مارچ 2015 ء کو ایک ’’ٹائم کیپسول‘‘ دفن کیا۔ یہ کیپسول، ٹھیک پچاس سال بعدیعنی 2065ء میں کھولا جائے گا، جب اس کالج کو دو سو سال پورے ہو چکے ہوں گے۔
شیشے کے اس کیپسول میں مختلف اشیاء مثلاً جامعہ کے تحت شائع ہونے والی قیمتی کتابیں، مگ، ایک گارڈ کی ٹوپی، کیمپس کی تصاویر اور سابق طلبہ کے نوٹس وغیرہ سیل کرکے ایک گڑھے میں دبائے گئے ہیں اور اس کے اوپر سنگِ مرمر کی ایک یادگاری تختی اور ڈائل بنایا گیا ہے۔ ٹائم کیپسول اب سے لگ بھگ40برس بعد6مارچ 2065 ءکھولا جائے گا، تاکہ ’’فارمینیٹس‘‘ کی آنے والی نسلوں کو ایف سی کالج کی تاریخ کی ایک جھلک مل سکے۔
گورنمنٹ ایم اے او کالج: گورنمنٹ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، جسے عرفِ عام میں ایم اے او کالج بھی کہا جاتا ہے،1933ء میں قائم کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسے سناتن دھرم کالج، لاہور کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا تھا۔علی گڑھ کی طرز پر تعمیر کیے گئے اس کالج کی بنیاد انجمن اسلامیہ نے امرتسر میں رکھی تھی۔
تقسیمِ ہند کے وقت ادارے کا زیادہ تر عملہ اور طلبہ لاہور چلے گئے، جہاں سابق سناتن دھرم کالج (قائم شدہ 1916ء) کے احاطے میں ایم اے او کالج امرتسر کو منتقل کیا گیا تھا۔ اسی طرح لاہور کا سناتن دھرم کالج انبالہ کینٹ منتقل ہوگیا۔کالج منتقل ہونے کے بعد اس کی نشانیاں باقی رہ گئیں۔یہاں آج بھی ہندوؤں کا ایک پرانا مندر دیکھنے کو ملتا ہے، جو کالج کے بوٹانیکل گارڈن کے احاطے میں ہے۔
یہ مندر کب اور کس نے تعمیر کیا، اس حوالے سے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں، تاہم طرزِ تعمیر سے اس کی عمارت زیادہ قدیم نہیں لگتی۔ مندر کی تعمیر، مٹی کی جلی ہوئی اینٹوں سے کی گئی ہے، جو عام طور پر مغل فنِ تعمیر میں ’’لکھوری‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ اگرچہ ہندوؤں کے تعلیمی ادارے میں کسی مندر کا ہونا کسی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن یہ بات لائقِ تحسین ہے کہ اسے ملک کا ورثہ سمجھتے ہوئے اب تک برقرار رکھا گیا، جب کہ اس کے قریب ہی ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔
یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی: پاکستان کی سب سے پرانی اور پنجاب کی سب سے بڑی اس سرکاری انجینئرنگ یونی ورسٹی کا قیام1921ءکو عمل میں لایا گیا، جسے برطانوی دورِ حکومت کے گورنر، ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن نے مغل پورہ ٹیکنیکل کالج کے نام سے قائم کیا تھا۔ 1923ء میں اس کا الحاق جامعہ پنجاب سے کیا گیا، جب کہ1961ء میں اس کا نام بدل کے ’’مغربی پاکستان یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ رکھا گیا، جب کہ موجودہ نام1971ءمیں دیا گیا۔
اس جامعہ میں فی الوقت چھے فیکلٹیز ہیں، جن کے تحت 23 ڈیپارٹمنٹس کام کر رہے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق یہ جامعہ ملک کی چند بہترین انجینئرنگ یونی ورسٹیزمیں سے ایک ہے۔ یہاں کے پرانے مرکزی بلاک کے سامنے دو سنگِ مرمر کی تختیاں لگی ہیں، جو ایک ہی تاریخ اور مہینےمیں لگائی گئیں، لیکن دونوں کے بیچ ایک سو سال کا فرق ہے۔
ایک افتتاحی تختی ہے، جو اس وقت کے گورنر پنجاب سر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن کے ہاتھوں لگائی گئی تھی، جب کہ 9نومبر 2021ء کو ٹھیک ایک سو سال بعد لگائے جانے والے نئے کتبے پر بھی وہی الفاظ لکھے گئے ہیں، جو ایک سو برس قبل لکھے گئے۔ یوں عمارت کے دونوں طرف سو سال پر محیط تاریخ کی گواہ دو تختیاں (سسٹراسٹونز) نصب ہیں۔