دُنیا میں ترقّی اور آخرت میں سُرخ رُوئی کے لیے ہمارے پیارے نبیﷺ کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ ’’تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (سُننِ ابنِ ماجہ224:) موجودہ دَور میں جن اقوام نے جدید تعلیم کو اپنایا اور تحقیق پر توجّہ دی، وہی دُنیا میں سب سے طاقت وَر اور خوش حال ہیں۔
گرچہ آج کئی اسلامی ممالک معاشی طور پر تومستحکم ہیں، لیکن چُوں کہ انہوں نے تعلیم و تحقیق پر خاطر خواہ توجّہ نہیں دی، تو ان کی اسی کم زوری کی بناپر 57اسلامی ممالک ہونے کے باوجود گزشتہ دوبرسوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد 65 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے، جب کہ ایک لاکھ 65 ہزار 697 شہری زخمی ہو چُکے ہیں، جب کہ تمام اسلامی ممالک فلسطینی مسلمانوں کی جان و مال کا تحفّظ فراہم کرنے کی بجائے محض زبانی کلامی مذمّت تک محدود ہیں۔ جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے میں 600 سال سے زائد عرصے تک تین برِّاعظموں پرشان دارانداز میں حکومت کی۔
اُس زمانے میں مسلمانوں نے طبّ، ریاضی، فلکیات، فلسفے، قانون اورفنونِ لطیفہ کے شُعبوں میں بےمثال ترقّی کی اور ایشیا اور یورپ کے مابین راستے بنا کر دُنیا میں اپنا نام و مقام بنایا، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ موجودہ دَور میں مسلمان تعلیم کو خاص اہمیت نہیں دیتے اور اسی سبب دُنیا میں ہماری کوئی عزّت و وقعت نہیں۔
بالخصوص پاکستان میں تو تعلیم جیسے شُعبے سے سخت بےاعتنائی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اور خصوصاً صوبۂ سندھ کی صُورتِ حال دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ دِگرگُوں ہے، البتہ کراچی کی،جو’’مِنی پاکستان‘‘ کہلاتاہے، صُوبے کے دیگر شہروں کی نسبت صُورتِ حال کچھ بہترہے، مگر پچھلے سال انٹرمیڈیٹ کے امتحانات اور حالیہ ایم ڈی کیٹ کے نتائج خاصے حیران کُن تھے، جس پر کافی احتجاج بھی ہوا۔
اندرونِ سندھ سرکاری اسکولزکی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کئی گرلز اسکولز میں معلمات بمشکل ہی نظر آتی ہیں۔ یوں بھی دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا رواج کم ہے۔ اگر سندھ بَھر کے سرکاری اسکولز کی بات کی جائے، تو یہاں 49,103اسکولز میں سے صرف 36,659فعال ہیں۔
ان اسکولز میں اساتذہ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 33ہزار ہے، جن میں سے بیش تر غیر حاضررہتےہیں۔ سندھ کے 5,169سرکاری تعلیمی ادارے چھت، 26,207 پینے کےپانی، 19,469واش رُوم، 21,000 چار دیواری اور 31,000بجلی سے محروم ہیں، جب کہ اساتذہ کا معیارِ تعلیم یہ ہے کہ وہ اپنے مضمون سے متعلق بھی صحیح معلومات نہیں رکھتے۔
معیارِ تعلیم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آئی بی اے (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کی، جس کا شُمار مُلک کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، سکھر برانچ کےطلبہ سےسوشل میڈیا کے ایک پروگرام میں جب یہ پوچھا گیا کہ ’’آئی بی اے‘‘ کس کا مخفّف ہے، تو بیش ترطلبہ کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ وہ جس ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اُس کا پورا نام کیا ہے۔ دوسری جانب اندرونِ سندھ کے شہروں کی طرح کراچی میں بھی امتحانات کے دوران نقل کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جو مزید تباہ کُن عمل ہے۔
نقل کے سنگین نتائج کا اندازہ نیلسن منڈیلا کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’کسی قوم کو تباہ کرنےکے لیے ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف اُس کا تعلیمی معیار گرانے اور نقل کی اجازت دینے سے یہ مقصد پورا ہو سکتا ہے۔‘‘
کیوں کہ ناقص تعلیمی نظام کے سبب مریض نااہل ڈاکٹرز کے ہاتھوں جان سے جائیں گے، انجینئرز عمارات کے انہدام کا سبب بنیں گے، ماہرینِ اقتصادیات معیشت کو تباہ کر دیں گے اور ججز سےانصاف نہیں مل سکے گا۔ مختصراً یہ کہ ہر شُعبہ تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔
مزید برآں، پاکستان بالخصوص صوبۂ سندھ کا تعلیمی نصاب انتہائی فرسودہ بلکہ ناکارہ ہے۔ ہم صرف سرٹیفکیٹس اورڈگریزبانٹ رہے ہیں، جن کا مقصد محض نوکریوں کا حصول ہے، جب کہ ہمارے مُلک میں بچّوں کی کردار سازی پر کوئی توجّہ نہیں دی جارہی۔ یاد رہے، تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہ ہو، تو معاشرے میں بہت سی بُرائیاں جنم لیتی ہیں، جب کہ طلبہ کی تربیت ہی سے قومیں ترقّی کرتی ہیں۔
جاپان میں، جو اس وقت کردار اوراخلاقیات کے لحاظ سے پوری دُنیا میں سرِفہرست ہے، بچّوں کی کردار سازی پرائمری اسکولز کی سطح ہی پر شروع کردی جاتی ہے، کیوں کہ جاپانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ’’ایک جوان کے مقابلے میں بچّے کی کردارسازی کہیں زیادہ آسان ہوتی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ہول ناک تباہی کا سامنا کرنے کے باوجود آج جاپان کا شُمار دُنیا کے تہذیب و ترقّی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ جاپانی باشندے اپنی دیانت داری، حُبّ الوطنی اورقانون کی پاس داری کے حوالے سے دُنیا بَھر میں مشہور ہیں۔ لہٰذا، ہماری حکومتِ سندھ سے درخواست ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کامستقبل بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات پر عمل درآمد ممکن بنائے، تاکہ حصولِ تعلیم کا اصل مقصد حاصل ہوسکے۔
٭… صوبےکا بجٹ بناتے ہوئے تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔٭ اندرونِ سندھ تعلیمی انفرااسٹرکچر بین الاقوامی معیار کے مطابق قائم کیا جائے۔٭اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے اور ان کی تن خواہیں اتنی پُرکشش ہوں کہ قابل لوگوں کو اس پیشےکی جانب راغب کرسکیں۔٭اساتذہ کو جدید تقاضوں کےمطابق تربیت دی جائے۔ ٭ فرسودہ تعلیمی نصاب کی بجائے جدید تقاضوں کے مطابق بامقصد تعلیم دی جائے، جو مُلک کی معیشت بہتر بنا سکے۔ ٭پرائمری تعلیم پر زیادہ توجّہ دی جائے۔ ٭ تمام سرکاری اسکولز میں انگریزی کی تعلیم پہلی جماعت سے فراہم کی جائے۔ ٭پرائمری لیول ہی پر طلبہ کی کردار سازی شروع کی جائے۔ ٭لڑکیوں کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ ٭ پراجیکٹس پر مبنی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ٭ذہین طلبہ کو جدید ٹیکنالوجی اورمہارت حاصل کرنے کے لیے، اس اقرار نامے کے ساتھ ترقّی یافتہ ممالک بھیجا جائے کہ وہ اپنے مُلک واپس آکر خدمات انجام دیں گے۔ ٭ نقل کا رجحان مکمل طور پر ختم کیا جائے اور نقل کرنے پر سخت سزا دی جائے۔ ٭ اندرونِ سندھ اسکولز میں بجلی، پانی، واش رُومز، فرنیچر اور معیاری عمارتوں کامناسب انتظام کیا جائے۔ ٭تعلیمی اداروں کو سیاسی اثرات سے پاک کیا جائے۔ ٭اہل انتظامیہ کےذریعے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل نگرانی کی جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ خلوصِ نیّت اور محنت سے تعلیمی پالیسیز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ہم جلد اپنے وطنِ عزیز کو دُنیا کے ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر سکتے ہیں۔ بقول نیلسن منڈیلا، ’’تعلیم وہ طاقت وَر ترین ہتھیار ہے، جسے دُنیا کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (مضمون نگار،سابق ڈائریکٹر، کےڈی اے ہیں)