فیضان شفیق جمالی، کراچی
دُنیا بَھر میں سماجی علوم یا سوشل سائنسز کا شعبہ خاص اہمیت رکھتا ہے، جو معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچوں کو سمجھنے اور ترقّی کے نئے راستے تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ترقّی یافتہ ممالک میں سماجی علوم کے طلبہ کو مختلف شعبوں میں ترقّی کے مواقع ملتے ہیں، جن میں پالیسی سازی، تحقیق، درس و تدریس اور این جی اوز وغیرہ شامل ہیں، جب کہ بین الاقوامی تعلقات، نفسیات اور پبلک پالیسی جیسے شعبے سماجی علوم میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، جن کے ماہرین معاشرتی مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے حکومت اور اداروں کے لیے مؤثرحکمتِ عملی تیار کرتے ہیں۔
تاہم، بدقسمتی سے پاکستان میں سوشل سائنسز کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور بیش تر نوجوان ان شعبوں میں محض سی ایس ایس کی تیاری کے لیے داخلہ لیتے ہیں، تاکہ بیوروکریسی میں قدم رکھ سکیں، لیکن اکثر سرکاری افسران اور بیورو کریٹس کسی ایم این اے یا ايم پی اے کے ماتحت ہی کام کرتے ہیں اور انہیں معاشرتی مسائل براہِ راست حل کرنے کی بجائے محدود دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا پڑتا ہے، جب کہ اس کے برعکس دیگر ممالک میں سماجی علوم کے طلبہ کو مختلف شعبہ جات میں کیریئر بنانے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپرمختلف سرکاری ونجی اداروں میں پالیسی سازی، تحقیق اور سماجی خدمات کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
گرچہ ہمارے مُلک میں بھی پالیسی سازی کے لیے چند تھنک ٹینکس موجود ہیں، لیکن یہ عوامی مفاد کی بجائےمخصوص اداروں کے مفادات کے لیے کام کررہے ہیں۔ اکثر یہ تھنک ٹینکس پالیسی تو بناتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا، جب کہ اس کے مقابلے میں دیگر ممالک میں تھنک ٹینکس تحقیق اور پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی تجاویز پر حکومت اورمتعلقہ اداروں کی جانب سے فوری عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔
پاکستان میں سوشل سائنسز کے طلبہ کے لیے کیریئر کے مواقع خاصے محدود ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنی مہارتوں کا بہتر استعمال نہیں کر پاتے۔ اکثر اوقات انہیں مختلف منصوبوں میں محدود کردار ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، انہیں اپنے نظریات کے مطابق کام کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہم عالمی سطح پر مؤثر پالیسی سازی اور تحقیق کے میدان میں دیگر ممالک سے خاصے پیچھے رہ گئے ہیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں سوشل سائنسز کے طلبہ کوان کی دل چسپی کےمطابق مختلف شعبہ جات میں کام کےمواقع ملتے ہیں اور وہ تحقیق، تدریس، سیاست اور معاشرتی خدمت جیسے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہیں۔ سو، ہمارے مُلک میں بھی سوشل سائنسز کے طلبہ کو پالیسی سازی میں براہِ راست شامل کرنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی مہارتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے معاشرتی مسائل کا مؤثرحل نکالنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اگر سماجی سائنسز کے طلبہ کو پالیسی سازی اور سرکاری منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے، تو ممکن ہے کہ ہم مختلف معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے بہتر حل کی جانب پیش رفت کر سکیں۔
یاد رہے، سماجی سائنسز کے مختلف شعبے، جیسا کہ بین الاقوامی تعلقات، عُمرانیات اور پبلک ایڈمنسٹریشن وغیرہ، ہمارے معاشرتی نظام کی مضبوطی، تعمیرو ترقّی کے لیے ناگزیر ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ شعبے محض ڈگری یا سرکاری ملازمت کے حصول کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، جب کہ دُنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں انہیں معاشرتی ڈھانچوں کی تشکیل اور پالیسی سازی کے اہم ستون کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ہمارے مُلک کا ایک اور اہم مسئلہ طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی بھی ہے، جس نے نوجوانوں کے لیے سیاست اور قیادت کے شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع محدود کر دیے ہیں۔ نیز، جامعات میں یونینز کی عدم موجودگی نے طلبہ کی سماجی وسیاسی تربیت کے راستے بھی مسدود کردیے ہیں۔ اِسی سبب نوجوانوں کےسیاسی شعورمیں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔
خیال رہےکہ دیگرممالک میں طلبہ یونینز نوجوانوں کو لیڈرشپ، حقوق و فرائض اور پالیسی سازی کےاصولوں سے روشناس کروانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، جب کہ ہمارے ہاں ان یونینز کی عدم موجودگی کے باعث نوجوانوں کی صلاحیتیں مکمل طور پر پروان نہیں چڑھ پاتیں۔
پاکستان کے پالیسی سازی نظام میں اِن ہی مسائل کے باعث ہم دوسرے ممالک سے کافی پیچھے رہ گئےہیں۔ جن ممالک میں سوشل سائنسز کے ماہرین کو حکومتی پالیسیوں میں براہِ راست شامل کیا جاتا ہے، وہ تعمیر و ترقّی کے سفر میں کہیں آگے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم بھی اپنے تعلیمی اور حکومتی نظام میں سماجی علوم کے شعبے کو ترقّی دیں اور نوجوانوں کو ان شعبوں میں بہتر مواقع فراہم کریں تاکہ وہ مُلک کی ترقی کے لیے مؤثر اور عملی پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔
اگر ہم سوشل سائنسز کوحقیقی معنوں میں اہمیت دیں اور پالیسی سازی میں سوشل سائنٹسٹس کو شامل کریں، تو یقیناً پاکستان کو معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی طور پر ایک مضبوط و مستحکم مُلک بنا سکتے ہیں۔ سماجی علوم کے طلبہ ہمارے مُلک کا روشن مستقبل ہیں اور ان کی صلاحیتیں بروئے کار لانا ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان میں سوشل سائنسز کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ایک بڑی ناکامی ہے، جو معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں معاشی ترقّی، سیاسی استحکام اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے بین الاقوامی تعلقات، عُمرانیات اور سوشل سائنسز کے دیگر شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد نے کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم، اب اس شعبے کے طلبہ کو محض بیوروکریسی کے دائرے تک محدود کردینا اور ان کے لیے مواقع فراہم نہ ہونا، کسی بدقسمتی سے کم نہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سوشل سائنسز کوایک مضبوط بنیاد فراہم کرنانہ صرف طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے، مُلک کی بہتری اور تعمیر و ترقّی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں، طلبہ کی صلاحیتیں نکھاریں اور انہیں ہرممکن حد تک پالیسی سازی کے عمل میں شامل کریں۔ المختصر، سوشل سائنسز کی وقعت و اہمیت کا ادراک ہی ہمارے مُلک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر ہم ان شعبوں کی قدر کریں، انہیں فروغ دیں، تو ہم ایک ایسا پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں کہ جو عالمی سطح پر اپنی منفرد شناخت کا حامل ہو۔