ذرائع ابلاغ کا کردار اور ذمہ داریاں

November 25, 2022

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اسے میڈیا کہتے ہیں۔’’ابلاغ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی پہنچانا ہے۔ اسلامی روایت میں اسی مادہ سے لفظ ’’تبلیغ‘‘ ہے، جو کسی اچھی بات اور بالخصوص دینی بات دوسری تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن نے ’’ابلاغ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، جو ’’ابلاغ‘‘ یعنی پیغام پہنچا دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

ارشادِ ربّانی ہے: اے پیغمبر ﷺ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دو۔(سورۃالمائدہ)فرمایا گیا:آپﷺ دعوت دیجیے، اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ۔(سورۂ نحل)سورۂ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کےلیے وجود میں لائی گئی ہے ۔ تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔

دین اسلام پوری دنیا اور تمام نوع انسانی کے لیے ہے، اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ ایک ذات کی گواہی دیتا ہے۔ اس دین کو جو قبول کرتا ہے اس کے ذمہ اس پیغام حق کو پہنچانا دوسروں تک بھی واجب ہے۔ اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع دین بن کر آیا ہے، اس لیے اس میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے۔

اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ وترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پردعوت اور اشاعت، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے۔ دنیا میں نت نئی ایجادات ،روزمرہ کا معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے تمام شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ جب نبی بنائے گئے ، تو آپ ﷺنے اس کے اعلان اور ایمان کی دعوتِ عام کرنےکے لئے خاص طور پر صفا کی چوٹی کا انتخاب فرمایا ، یہ محض کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ، بلکہ اہل مکہ کا طریقہ تھا ، کہ جب بھی کسی اہم بات کی خبر دینی ہوتی ، صفا کی چوٹیوں پر چڑھ کر آواز لگاتے، یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے ، جس سے لوگوں کو باخبر کرنا مقصود ہے ، اس لئے تمام اہل مکہ اہتمام کے ساتھ جمع ہوجاتے اور گوش برآواز ہوکر اس اعلان کو سنتے ، گویا یہ اس زمانے میں مکہ کا سب سے بڑا ذریعۂ ابلاغ تھا، جس طرح آج کسی خبر کو پہنچانے کے لئے ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا جاتا ہے ، اسی طرح اس دور میں صفا کی پہاڑی سے اعلان کئے جاتے تھے۔

سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺحج کے موقع پر بھی دعوتِ اسلام کا کام کیا کرتے تھے، حالاںکہ اس زمانے میں حج میں بہت سی منکرات اور برائیاں اہل مکہ نے اپنی طرف سے شامل کرلی تھیں ، یہاں تک کہ بعض لوگ احترام کے نام پر کعبہ کی بے احترامی کرتے تھے ، منیٰ اور عرفات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کے بجائے لوگ اپنے آباء و اجداد کی تعریف کے نغمے گاتے اور اشعار پڑھتے تھے ، عکاظ کا میلہ تو خالص تجارتی میلہ تھا اور شراب و کباب کی محفلیں آراستہ کی جاتی تھیں جو عیش کوشیوں اور سرمستیوں، بلکہ بدمستیوں کے لوازم میں سے ہیں ، لیکن اس میلے میں بھی آپ ﷺ پہنچتے اور لوگوں تک حق کی دعوت پہنچاتے ، اہل مدینہ حج کے اجتماعات کی ہی برکت سے اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اورپھر ایسے جاں نثار ہوئے کہ تاریخ عالم میں ایسی جاں نثاری اور خودسپردگی کی مثال نہیں ملتی۔

ان اجتماعات میں جانا اور وہاں دعوتِ حق پہنچانا اس زمانے کے طاقتورترین اور وسیع الاثر ذرائع ابلاغ سے استفادہ کی بہترین مثال ہے ، اس لئے اپنے عہد کے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا اور ان تک رسائی حاصل کرنا صرف مصلحت کا تقاضا نہیں ، بلکہ اسلامی تعلیمات اور رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔

اسلام نے فکر و نظر کی آزادی کے ساتھ ہمیشہ آزادیِ رائے کا احترام کیا ہے اور ہر کس و ناکس کو اپنی بات رکھنے کا فطری حق دیا ہے۔ اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے کس درجہ شدت کے ساتھ حریتِ رائے کے تصور کی پرورش کی ہے اور اسے انسانی معاشرے کا لازمی جزو بنانے کی سعی کی ہے۔اسلام نے صرف آزاد مردو خواتین ہی نہیں، بلکہ غلاموں کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا۔ غزوہٴ اُحد میں جب جلیل القدر صحابہٴ کرامؓ کی یہ رائے تھی کہ کفارِ مکہ سے جنگ کے لیے مدینے سے باہرنکلنا مناسب نہیں ہے اور یہیں رہ کر جنگ کی جائے، لیکن معقول اسباب کی بنیاد پر چند نوجوانوں کی یہ رائے تھی کہ جنگ کے لیے مدینے کی آبادی سے باہر نکلنا زیادہ مناسب ہے۔

اسی طرح غزوہٴ خندق کے موقع پر مدینے سے باہر خندق کھودنے کا فیصلہ آپ ﷺ کا ذاتی عمل نہیں تھا، بلکہ صحابہٴ کرام ؓاور حضرت سلمان فارسیؓ کے باہمی مشورے سے خندق کھودی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ اور حصرت عمرؓجنگی قیدیوں کے قتل اور انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے بارے میں مختلف الرائے تھے۔ اسلام میں فکر و نظر کی آزادی کی ہی دین ہے کہ ایک عام آدمی بھی اپنے خلیفہ کا دست و بازو پکڑ سکتا ہےاور جب ایک قبطی نے حضرت عمروبن عاصؓ اور ان کے بیٹے کی شکایت دربارِ خلافت میں پیش کی تھی تو حضرت عمرؓ نے اس غلام کو فوری انصاف دلایا تھا، اس وقت کے حضرت عمرؓکے ارشادت پر مبنی یہ جملہ تو ہر کسی کے ذہنوں میں ہوگا کہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہونے والے بچے کو کسی کو غلام بنانے کا حق نہیں۔

اسلام نے فرد کے ساتھ ادارے اور ذرائعِ ابلاغ کو جتنی آزادیاں دی ہیں، ان میں ایک اہم حق احتجاج کا حق بھی ہے۔ ذرائعِ ابلاغ کو جہاں کہیں بھی ظلم اور نا انصافی ملے، اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے اور مظلوموں کی حمایت میں انسانی غیرت اور حمیت کا ثبوت دینا چا ہیے۔ قرآن کریم کی آیت ہے :اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو،اوراللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے(سورۃ النساء)حدیث شریف ہے: ظالم و جابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔(ترمذی) اسلام نے کسی کی نجی زندگی میں تو مداخلت سے منع کیا ہے، لیکن اگر کسی شخص کی حرکت و عمل سے مفادِ عامہ پر ضرب پڑتی ہو تو ایسے جرم کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں کسی کی ٹوہ میں لگنے سے منع کیا گیا ہے،لیکن اگر کسی مشتبہ شخص کے بارے میں معتبر ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کرنے جارہا ہے، تو اس کے جرم کو طشت ازبام کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔