میں بیٹی ہوں

November 26, 2022

تاوان تو ادا کروں گی نا!!

کبھی مجھے جائداد سے بے دخل کیا جاتا ہے

کبھی میں ماں باپ کو بوجھ لگتی ہوں

لوگ آتے ہیں مجھے دیکھنے

پر کسی کو میں کالی لگتی ہوں

کسی کو لگتا ہے میں موٹی ہوں

کوئ میرے چھوٹے قد کا مذاق اڑاتا ہے

میں بیٹی ہوں

تاوان تو ادا کروں گی نا!!

جب شادی ہو جاتی ہے

چاہے شوہر جوتے کی نوک پر رکھے

سسرال والے عزت نہ دیں

پر میں اپنی عزت نفس کچل دوں گی

بیٹی ہوں نا!!

قیمت تو ادا کروں گی نا!!

چاہے شوہر کے ہوں باہر تعلقات

پر میں تو کروں گی نظر انداز

مجھے سب نظر آتا ہے

پر میں خود کو اندھا بنا لوں گی

بیٹی ہوں نا!!

گزارا تو کروں گی

سب کچھ جاننے کے باوجود

منہ سے کچھ نہ بولوں گی

ماں بھی ہوں میں

گونگی تو بنوں گی

میرے بچے نہ ہوں در بدر

ان کا مستقبل ہو تابناک

انکو کھانی نہ پڑیں ٹھوکریں

میں ماں ہوں نا!!

قربانی تو دوں گی

*********

مظفر وارثی

ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا

دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

دعووں کی ترازو میں تو عظمت نہیں تلتی

فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا

فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے

تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا

اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی

اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا

ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی

شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آ جائے

ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا

اللہ جسے چاہے اسے ملتی ہے مظفرؔ

عزت کو دکانوں سے خریدا نہیں جاتا

************

میں اک عورت

……(زرقا مفتی)……

میں کرچی کرچی

میں ریزہ ریزہ

میں مٹی میں دھول

میں خاک ببول

کیوں مانگتی رہتی ہوں

تم سے اپنا حق

کیوں ٹوٹتی ریتی ہوں

میں یوں ہی پل پل

کیوں بولتی رہتی ہوں

میں یوں ہی ناحق

کوئی مجھے سمجھائے

کوئی مجھے بتلائے

میں اک عورت

کیا میرا حق؟؟

کیا میرا مول؟