سیاسی لائف لائن + بریکنگ پوائنٹ

January 02, 2023

سال 2022ء کا اختتام ایک نئے سیاسی بحران پر ختم ہو تا نظر آیا۔ پورا سال سیاست میں ہی گزار دیا، نہیں یاد پڑتا اس ملک کے کتنے سیاستدانوں نے جو دن رات عوام کی بات کرتے تھکتے نہیں ’’ریاست مدینہ‘‘ سے لے کر جمہوریت تک کتنے دن و رات کسی ایسی خیمہ بستی میں گزارے ہوں جہاں سیلاب متاثرین لاکھوں کی تعداد میں کھلے آسمان کے نیچے رہ رہے ہیں ہم نے تو غیر ملکی امداد پر بھی ہاتھ صاف کردیا۔ اچھے ٹینٹ بھی غائب کر دیئے اور پھر جلسوں میں فیض احمد فیض کی نظم اقبال بانو کی آواز میں سنائی ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ 75سال ہوگئے وہ دن نہیں آیا جس کا وعدہ تھا۔

ہماری سیاست اور صحافت دونوں ہی عوام سے بہت دُور چلی گئی ہے اور ہم شہروں تک محدو د ہو کر رہ گئے ہیں یعنی اس ملک کے 75فیصد عام آدمی سے ہمارا رابطہ ہی نہیں ،مسائل کیا سمجھیں گے۔ اب سال 2023ء عام انتخابات کا سال ہے، اُمید ہے ووٹ کی حد تک کچھ ٹی وی کیمرہ مین کے ساتھ ان مظلوموں تک جائیں، کچھ رقم بھی تقسیم کریں۔ اگر ان کا کوئی بیٹا، بیٹی، والد، والدہ میں سے برسوں پہلے گزر گیا ہو تو دعا کر لیں۔ الیکشن آتا ہے تو سڑکیں بھی بنتی ہیں اور ایم این اے، ایم پی اے پہچان بھی جاتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست بے توقیر سی ہوگئی ہے۔ معاشرہ میں ’’چمک‘‘ اتنی آگئی ہے کہ نظریں اقتدار پہ زیادہ اور اقدار پر کم ہوگئی ہے۔

اب آتے ہیں اُس ’’سیاسی گرداب‘‘ پر جس نے پورے سال سیاست کو عمران خان، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومائے رکھا اور لگتا یہی ہے کہ 2023ء بھی ایسے ہی گزرے گا۔ گوکہ اب نئی فوجی قیادت آگئی ہے، سال شروع ہوا تو عمران خان وزیراعظم تھے، ختم ہوا تو سابق ہوگئے، اب دیکھتے ہیں الیکشن کے بعد اُن کے ساتھ کیا ٹائٹل لگتا ہے۔

جنوری میں وزیراعظم عمران خان کو سخت اپوزیشن کا سامنا تھا، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی طرف سے اور مارچ میں اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اُس کا الزام انہوں نے امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کو دیا، مگر وہ تحریک کو ناکام نا بنا پائے۔ اُس وقت تک اُن کی جماعت ضمنی الیکشن ہار رہی تھی۔ سیاست بھی عجب کھیل ہے یہاں 10؍اپریل کو حکومت کا خاتمہ ہوا ،وہیں اُن کی مقبولیت کا سورج پھر سے طلوع ہونا شروع ہوگیا۔ ان پورے آٹھ ماہ میں عمران نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُن کی ٹیم کو اپنے نشانہ پر رکھا۔

وزیرآباد میں اُن پر حملہ ہوا تو بھی وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے علاوہ انہوں نے ISIکے میجر جنرل فیصل نصیر کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ وہ ایک کے بعد ایک فرنٹ کھولتے چلے گئے۔ نئے الیکشن سے لے کر آرمی چیف کی تقرری تک وہ کوئی مطالبہ منوا نہ سکے، دوسری طر ف اسلام آباد تک لانگ مارچ کی رسائی حاصل نا کر پانے کے بعد انہوں نے بڑا سیاسی پتا کھیلا ،فیصلہ کیا کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کرکے ایک بڑا بحران کھڑا کر کے نئے الیکشن کے ذریعے بڑے صوبہ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا کیا جائے۔

وہ پانچ سال پورے کر سکتے تھے اگر وہ اپنے کارڈ نمبر کھیلتے مگر انہوں نے اپنی معزولی کو اس طرح قبول نہیں کیا جس طرح ماضی کے حکمرانوں نے کیا۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ان سات آٹھ مہینوں میں سڑکوں پر ہونے کے باوجود ایک روز کیلئے گرفتا ر ہوئے نا ہی نظر بند ہوئے، البتہ ان پر مقدمات ضرور قائم ہوئے، انہوں نے عدالتوں کے چکر بھی لگائے اور پھر اللہ کا شکر ہے کہ وہ اپنے جلوس پر گولی چلنے کے باوجود محفوظ رہے۔

معزول ہونے والے حکمرانوں میں سب سے برا وقت سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا، مارشل لاء لگنے کے بعد وہ نظر بند تھے، پھر دوبار گرفتار ہوئے، دوسری بار کے بعد وہ کبھی باہر نہیں آسکے۔ بند سیل سے پھانسی گھاٹ تک کا سفر رہا، اورکسی بھی طرح کا این آر او نہیں لیا کیونکہ وہ تاریخ کے ہاتھوں نہیں مرنا چاہتے تھے۔

میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے ،مگر کبھی پانچ سال میعاد پوری نہیں کی، حالانکہ 1997ء میں دوتہائی اکثریت بھی ملی۔ 12؍اکتوبر 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سال سخت جیل دیکھی، اٹک سے کراچی تک 2000ء میں انہیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمر قید کی سزا دی، جس کے خلاف مشرف حکومت نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کو عمر قید سے پھانسی میں تبدیل کرنے کے لئے اپیل کی، مگر بعد میں سعودی عرب جلاوطن کر دیئے گئے۔ ایک معاہدہ کے تحت جس میں انہوں نے خاندان سمیت 10سال تک سیاست میں حصہ نا لینے کی یقین دہانی کرائی۔

بعد میں وہ 2007ء میں واپس آگئے، دوسری بار جیل اُس وقت ہوئی جب انہیں پہلے سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرز میں اقامہ نا ظاہر کرنے پر تاحیات نااہل کیا، بعد میں احتساب عدالت نے سزا بھی سنا دی۔ لیکن عمران خان کی حکومت 2019ء میں وہ علاج کی غرض سے لندن بھیج دیئے گئے اورآخری خبریں آنے تک وہ اپنی حکومت میں بھی واپس نہیں آئے۔

بھٹو کے بعد اگر کسی نے سخت جیل دیکھی ہے تو وہ بے نظیر نے ،مگر سب سے طویل قید کا ریکارڈ آصف علی زرداری کا ہے۔ تقریباً نو سال، البتہ بھٹو، بے نظیر اور نوازکی طرح انہیں کبھی ڈیتھ سیل میں نہیں رکھا گیا۔ مریم نوازکو بھی جیل اور نیب کی حراست کا تجربہ ہے۔

عمران اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں جس کے وہ شروع میں حامی تھے، وکیلوں کی تحریک کے دوران چند دنوں کو جیل کا مزہ چکھنا پڑا،مگر اُن کے چند ساتھیوں پر جن میں خاص طور پر سینیٹر اعظم سواتی اور کپتان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل شامل ہیں ،بدترین جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جوکہ ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے۔

سال 2022ء میں اگر عمران تھوڑی سیاسی بصیرت سے کام لیتے تو اُن کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹیں نہیں تھیں۔ 2022ء کا جائزہ لینے سے پہلے پچھلے سال کے کچھ واقعات پر نظر ڈالے بغیر شاید ہم اس سال بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھلا ناپائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان نے ’’کورونا ‘‘ کا مقابلہ بھی بہتر انداز میں کیا اور نوجوانوں کی آبادی کے تناسب کے حوالے سے بھی ہم خوش قسمت رہے۔

سیاسی طور پر عمران نے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو اپنی ’’ضد‘‘ بنا لیا تھا ’’انا‘‘ کا مسئلہ بن گیا تھا۔ نا وہ اپنوں کی بات سننے کو تیار تھے ناعسکری قیادت کا مشورہ، پنجاب کی پوری انتظامیہ کو تہس نہس کردیا گیا تھا۔ تین سالوں میں پانچ آئی جی، چھ چیف سیکرٹری جس سے پولیس اور بیوروکریسی کی سمجھ میں ہی نہیںآرہا تھاکہ معاملات کو آگے کیسے لے کر چلیں، اس سب کے نتائج انہیں ضمنی الیکشن 2021ء میں ملے جب اُن کی جماعت بیشتر نشستوں پر ہار گئی۔

عمران کا رویہ پچھلے سال اپنے اتحادیوں خاص طور پر چودھریوں کے ساتھ ’’تنائو‘‘ کا رہا وہ چودھری پرویزالٰہی سے بات کرنا اور مونس الٰہی کی شکل دیکھنا برداشت نہیں کرتے تھے۔ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ انسان کو احساس ہی اُس وقت ہوتا ہے جب اقتدار اور اختیار ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ عسکری قیادت اور طاقتور حلقوں کی حمایت نا ہوتی تو 2018ء میں خان صاحب کی حکومت نابنتی نا ایم کیو ایم جس کو سب سے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ،کو مجبور کیا جاتاعمران کا ساتھ دینے کے لئے، یہی کچھ حال باقی اتحادیوں اور خود اپنی جماعت کے اندر ہوا۔ یہ بھی انہی کے طفیل تھا، ہوا یہ کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد PDMکو اکثریت کے باوجود ناکام ہوئی۔

مگر ISIکے سابق چیف جنرل فیض حمید کے ٹرانسفر اور جنرل ندیم انجم کی پوسٹنگ پر تنازع نے عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان خلیج کو بڑھا دیا۔ اُس وقت کی اپوزیشن جماعتوں اور خان صاحب کے اتحادیوں کو یہ نظر آرہا تھا۔ یوں 2021ء کا اختتام نے عمران کے اقتدار کو متزلزل کردیا۔ ایک طرف مقبولیت کاگراف نیچے جا رہا تھا تو دوسری طرف PDM نے حکومت مخالف صف بندی کرلی تھی۔ دسمبر2021ء میں ہی ’’ریڈلائٹ‘‘ ڈوب چکی تھی۔ امریکہ، روس، یوکرین کے معاملات نے تو اس تمام معاملے تیل پر تیلی والاکام کیا۔

2022ء عمران خان کی سیاست کا یوٹرن تھا۔ چودھری آنکھوں کے تارے بن گئے اور خان صاحب کو پارٹی کے پرانے لوگ حامد خان، نجیب ہارون وغیرہ اچھے لگنے لگے۔

اگر قوم سے ایک خطاب کرتے، اسمبلیاں تحلیل کرتے یا استعفیٰ دیتے یا پھر بہادری کا مظاہرہ کرتے اور بحیثیت وزیراعظم اپنا آئینی اختیار استعمال کرتےتو منظر کچھ اور ہوتا،مگر آپ تو قوم کو بتاتے رہے کہ ’’سب ٹھیک‘‘ ہے’’سارے فیصلے‘‘ میں کرتا ہوں۔

جنرل قمرجاوید باجوہ کی تعریف ہو یا چیئرمین الیکشن کمیشن کو خراج تحسین پیش کرنا ہو۔ نیب کی غیر جانبداری کے گن بھی آپ ہی کی زبان سے سننے کو ملے۔آج آپ اپنے چاہنے والوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب جانبدار تھے اب کیا پتا کل آپ کا مؤقف بدل جائے، لہٰذا اس بڑی سیاسی کمزوری کو عمران خان کو اپنے اندر سے دُور کرنا ہوگا۔

جنوری 2022ء نئے سال کا آغاز ایک بے یقینی کی صورتحال سے شروع ہوا، جس کا تعلق اکتوبر 2022ء میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید صاحب کے ٹرانسفر سے تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان اُن کو برقرار رکھنا چاہتے تھے ،جبکہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے انہیں پشاور کا کور کمانڈر بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وزیراعظم فائل پر دستخط نہیں کر رہے تھے وہ جنرل فیض کو کم از کم دسمبر 2021ء تک برقرار رکھنا چاہتے تھے۔

اس سے خود ادارے کے اندر اور باہر ان قیاس آرائیوں نے زور پکڑا کہ، شاید وہ 2022ء میں اُن کو نیا آرمی چیف وقت سے پہلے ہی مقرر کردیں۔ اس سے پہلے بھی وہ آرمی چیف کے کئی مشوروں کو چاہے وہ ان کے حق میں ہی کیوں نا ہوں،عمل نہیں کرتے یا سنجیدہ نہیں رہے تھے، بات چاہے عثمان بزدار کی خراب کارکردگی کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹس کی ہو، کرپشن کے حوالے سے ہو یا پھر خود ان کی پارٹی کے اندر اراکین کے بک جانے کے حوالے سے۔

آج عمران خان یہ کہتے ہیں کہ انہیں جون 2022ء میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ معاملات گڑ بڑ ہو رہے ہیں۔ یہ بات خان صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ وہ وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ اگر الیکشن 2018ء سے چند ماہ پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کو مستحکم حکومت میں ایک ’’خاموش‘‘ بغاوت کروا کر بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل نہیں دی جاتی۔

دوسری طرف کراچی میں ایم کیو ایم کو اس طرح ہروا کر پی ٹی آئی کو 14نشستیں ناملتیں کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) بڑی جماعت کے طور پر اُبھر رہی تھی۔ لہٰذا یہ وہی اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے مبینہ طور پر ’’اپنے اتحادیوں‘‘ کو اُن کے حوالے کیا تو حکومت بنی۔ اختلافات میں شدت آئی تو وہی حمایت کسی دوسرے کے پلڑے میں ڈال دی گئی۔ البتہ مارچ 2022ء کے بحران میں خود طاقتور حلقے تقسیم نظر آئے۔ جس کی سب سے بڑی مثال گجرات کے چودھریوں کی تقسیم ہے۔

اب اگر خان صاحب کو ’’سازش‘‘ کی بُو جون 2021ء میں محسوس ہوگئی تھی تو پھر یہ ’’امریکی سازش‘‘ تونا ہوئی کیونکہ یوکرین کا بحران اور روس کا اُس پر حملہ اور دورئہ روس یہ سب تو بعد کی باتیں ہیں۔ ذرا خان صاحب بتائیں کہ جون میں ایسا کیا ہوا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے تو خان صاحب پرکئی احسانات ہیں جنرل حمید گل مرحوم سے لے کر جنرل پاشا تک اور جنرل ظہیر سے خود جنرل باجوہ تک 2018ء کوحکومت بناکر دی۔

چیئرمین سینیٹ جتوا کردیا۔ عدم اعتماد کی تحریک چیئرمین سینیٹ کے خلاف بڑی آسانی سے پاس ہو جاتی مگر جب سینیٹرز کھڑے ہوئے تو حزب اختلاف کے ساتھ 64 اور اُس وقت کی حکومت کے ساتھ 34 تھے۔ سیکرٹ بیلٹ ہوا تو 14ووٹ حزب اختلاف کے ’’غائب‘‘ تھے۔ یہاں صرف بند ے ہی غائب نہیں ہوتے ووٹ بھی غائب ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں ’’امریکی سازش‘‘پر۔ یہ کہنا کہ امریکہ سازش نہیں کرتا، حکومتیں نہیں گراتا، تاریخ بھری پڑی ہے ،خود امریکی سابق سی آئی اے،FBI اور صدور، سیکرٹری آف اسٹیٹ وغیرہ کی کتابیں موجود ہیں۔ ویکی لیکس ہو یا ڈی کلینیاڈ دستاویزات لاطینی امریکہ سے لیکر عراق، شام، لیبیا اورثود پاکستان میں وہ ایسا کرتا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے اور پھر تخت ِ دار تک لے جانے کے واقعات اورخود بھٹوکے انکشافات موجود ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کچھ ’’بیانیہ‘‘ بکتے ہیں، اس لئے وہ ’’بنائے‘‘ بھی جاتے ہیں مثلاً بھارت مخالف، جنرل ضیاء الحق، کرکٹ ڈپلومیسی ، کریں تو ٹھیک، بھارتی اداکار ایوان صدر میں ٹھہریں تو کوئی ہرج نہیں، مگر بے نظیر بھٹو، راجیو گاندھی سے ملاقات کریں تو غدار، نواز شریف، بھارتی سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور بلاکر مینارِ پاکستان پر لے جاکر ’’اعترافِ پاکستان‘‘ کروائیں تو بھی غدا ر اور جنرل پرویزمشرف کارگل کرڈالیں اور پھر خود اپنے دورئہ اقتدار میں آگرہ جاکر ریاست کے بیانیہ کے خلاف سمجھوتہ کرنے والے ہوں تو محب ِ وطن ،غرض یہ کہ بھارت مخالف بیانہ بکتا ہے۔

عمران خان کے دور کا سب سے عمدہ اقدام اپنی برادری میں اپنے زمانے کے نامور بھارتی کھلاڑیوں کو اپنی حلف برادری میں شرکت کی دعوت دی تھی، پھر جنرل باجوہ اور عمران کا کرتار پور راہداری کا فیصلہ، بدقسمتی سے بھارت کی طرف سے اس کا مثبت جواب نا آیا۔

دوسرا ’’امریکہ مخالف بیانیہ‘‘ خوب بکتا ہے۔ اب ’’فقیر ‘‘ کیا کریں مانگتے بھی اُنہی سے ہیں جنہیں گالیاں دیتے ہیں۔ فقیروں کے پاس نعروں کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ اپنے پیروں پرکھڑے ہوتے تو دوسرے کو آنکھ دکھانے کے قابل ہوتے مگر کیا عمران حکومت کو گرانے میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔’’سائفر‘‘ کا بیانیہ میں اس وقت خان صاحب کے ساتھ ادارے نہیں کھڑے۔ امریکی تردید کو تو رکھیں ایک طرف ،مگر آج تک ایسی کوئی سازش تو نہ دیکھی نہ سنی ،جس میں اُس فریق کویہ بتایا جا رہا ہو،دیکھوہم تمہارے خلاف سازش کررہے ہیں بلکہ معاملہ اُلٹا ہوتا ہے آپ کوپتا ہی نہیں چلتا اور قصہ تمام ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا، اس سال کے شروع میں عمران کی حکومت کا گراف نیچے جا رہا تھا۔ جنرل باجوہ سے اختلاف کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں مگر اس سب کے باوجود لگ رہا تھا کہ وہ یہ سال نکال لیں گے کیونکہ اپوزیشن منتشر تھی۔ پی پی پی اور پی ڈی ایم میں دوریاں بڑھ رہی تھیں مگر جنوری اور فروری میں دونوں کو قریب لایا گیا اور اچانک 8مارچ 2022ء کو عدم اعتماد کی تحریک وزیراعظم کے خلاف اسمبلی میں جمع کروادی گئی اور پھر وہ سیاسی کھیل شروع ہوا جو تاحال جاری ہے،اس کا انجام کیا ہوگا کسی کو نہیں پتا۔

8؍مارچ کو متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ اب وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے تھے اُنہیں اس تحریک کا سامنا کرنا ہی تھا لہٰذا انہوں نے پارٹی وفود اپنے اتحادیوں کے پاس بھیجنے شروع کردیئے خود بھی بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کرنی اوراپنی پارٹی کے ناراض اراکین اسمبلی کو منانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سب سے حیران کن تبدیلی ان میں چودھریوں کے حوالے سے آئی۔

یہ بات درست ہے کہ عثمان بزدار کووزیراعلیٰ بنانے کی ایک وجہ پارٹی کے اندردھڑے بندی بھی تھی۔ شاہ محمود قریشی 2018ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت جاتے تو وہ قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے امیدوار تھے ،مگرجہانگیر ترین اُن کے سب سے بڑے مخالف تھے جو عمران کے بہت زیادہ قریب تھے۔ ایک بار ایسا بھی ہوا تھا 2021ء میں جب چودھری نثار علی خاں کو پارٹی میں لاکر وزیراعلیٰ بنانے کی تیاری ہو رہی تھی ،چودھریوں سے مقتدر حلقوں نے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا’’مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر اُن کو تو اُن کی پارٹی سے ہی ووٹ نہیں ملیں گے نا ہی پی ٹی آئی کے بہت سے ایم پی اے ووٹ دیں گے۔‘‘ مسئلہ ان کے مزاج کا تھا وگرنا وہ انسان بڑے زبردست اورایماندار ہیں۔

غرض یہ کہ ’’عدم اعتماد‘‘ نے سیاست میں ہلچل پیداکردی تھی،مگر عمران اپنی پارٹی کو یہ یقین دلاتے رہے کہ یہ تحریک ناکام ہو جائے گی۔ 8؍مارچ سے 26مارچ تک ’’امریکی سازش ‘‘ کا بیانیہ غائب تھا بلکہ اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے دوران تو اعلیٰ امریکی حکام پاکستان کے دورہ پر تھے،البتہ یہ خبریں ضرورگردش میں تھیں کہ عمران کے دورئہ روس کے دوران یوکرین پر حملے نے بین الاقوامی صورتحال بدل دی تھی اور امریکہ نے پاکستان پر بھی زوردیا کہ وہ اس جنگ میں روس کا ساتھ نا دے۔

کہتے ہیں اس دوران وزیراعظم عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ با ت درست ہے کہ عمران ہمیشہ سے ’’جنگ مخالف‘‘ رہے ہیں ،خاص طور پر افغانستان کی دوجنگوں میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے۔ وہ بھارت کے ساتھ بھی بہت آگے تک جانا چاہتے تھے اورشاید اگروہاں مودی سرکار نا ہوتی ،واجپائی یا من موہن سنگھ جیسا وزیراعظم ہوتا تو وہ میاں صاحب اور مشرف سے بھی آگے جا سکتے تھے۔ خیر بات مارچ کے بحران کی ہو رہی تھی۔

کہتے ہیں 25اور 26مارچ تک صورتحال نے خان صاحب کی پریشانی میں اضافہ کردیا اُن کو قریبی ساتھیوں نے خبردار کردیا کہ حکومت جانے والی ہے، کیونکہ اتحادی اورپارٹی کے لوگ ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ایک بار سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کے الیکشن کے دوران خود جنرل باجوہ نے عمران کو خبردار کردیا تھا کہ قومی اسمبلی سے اُن کے کچھ ارکان انحراف کرنے والے ہیں۔ گیلانی جیتے تو کپتان اپنے ساتھیوں پر برس پڑے۔ اُن کے خلاف کارروائی کا بھی فیصلہ کیا مگر وہ ایکشن اس لئے نہیں لے سکے کہ اُن کی اپنی حکومت دنوں میں گرجاتی۔ بہرحال عمران نے اپنے چند قابلِ اعتماد ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’امریکی سازش‘‘ اور ’’سائفر‘‘ کے بیانیہ کو سامنے لانے کا کہتےرہے، ایک دو نے اس کے ممکنہ نقصانات سے بھی خان صاحب کو خبردار کیا تھا۔

27؍دسمبر کو تقریباً جنگ چھڑ چکی تھی۔ اُس رات جلسے میں خان صاحب کی تقریر نے 1977ء کے راجہ بازار کی یاد تازہ کردی جب اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی گاڑی پر کھڑے ہو کر ایک ہاتھ لہرا کریہ کہا تھا کہ ’’امریکہ ان کی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ دراصل وہ ٹیلی گرام تھا جو امریکی سفارت خانہ سے وائٹ ہائوس بھیجا گیا تھا جس کا ٹائٹل تھا۔’’ دی پارٹی از اوور‘‘ پارلیمنٹ میں تو خیر بھٹو نے کمال تقریر کی تھی اور امریکہ کو ایک سفید ہاتھی قراردے کر کہا ’’پارٹی از ناٹ اوور‘‘ مگر کچھ عرصہ بعد مارشل لاء لگا، پھانسی ہوئی لکین پارٹی قائم رہی۔

بھٹو کے خلاف امریکی سازش کے ٹھوس شواہد موجود ہیں ان چار سالوں میں بھٹو کا پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام شروع کرنا، امریکی معاہدہ سیٹو اور سینٹو سے نکلنا ، لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کاانعقاد PLOکو پہلی بار نمائندہ تنظیم تسلیم کرنا، غیر جانبدار تحریک کا حصہ بنا۔ تیسری دُنیا اوراسلامی بلاک کی بنیاد رکھنا، غرض یہ کہ وہ سب کچھ جس نے بھٹو کے حوالے سے امریکہ کو خبردار کردیا۔ آخر امریکی وزیرخارجہ نے پاکستان جاکر خود بھٹو سے کہا’’ یہ سب بند نہیں ہوا تو تمہیں نشانہ عبرت بنا دیاجائے گا۔‘‘

اب انتہائی معذرت کے ساتھ اس سب کا مقابلہ ایک ’’سائفر‘‘ سے تونہیں ہوسکتا۔ لیکن عمران کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بات بہت عمدہ طریقہ سے لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ کمزورکیس کو بہتر ا نداز میں پیش کرنا ہی وکیل کی سب سے بڑی خوبی ہوتا ہے۔ عمران نے اپنی حکومت بچانے کیلئے آخری کھیل 9؍اپریل کو کھیلا، جب سپریم کورٹ کے واضح اعلان کے باوجود فیصلہ ہوا کہ اجلاس رات گئے تک چلایاجائے۔ٍ

اس کے بجائے اگر وہ اُس رات قوم سے خطاب کرتے اور ا قتدار کولات مار کرباہرآجاتے وہ ساری باتیں کرتے جو وہ آج کررہے ہیں تو صورتحال مختلف ہوتی۔ انہوں نے آخر وقت تک اقتدار بچانے کی کوشش کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے سارے اتحادی انہی کے دین ہیں، جو 2018ء کوان کے حوالے کئے گئے تھے اب وہ انہیں کہنے پر نام نہاد جمہوری عمل کے ذریعہ دوسرے کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔

عمران کاعروج، پی ڈی ایم کے زوال کاسفر:

10؍اپریل کو دورئہ عمران ختم ہوا اوراُس کی دوبارہ مقبولیت کا ستارہ ثابت ہوا۔ وہ پی ٹی آئی جو 2020ء اور 2021ء کے زیادہ تر ضمنی الیکشن کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن اور 2022ء کے شروع میں KPK کے بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ ہارچکی تھی اور ساری کامیابیاں پی ڈی ایم کی جماعتوں کے نصیب میں آئی تھیں، اُس کو عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد مسلسل کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں ،خو د عمران نئے ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔

اب تک قومی اسمبلی کی سات نشستیں انہوں نے خود جیت کر اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ لوگوں خاص طورپر نوجوانوں نے جن کی اکثریت عمران کے ساتھ ہے امریکی مخالف اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو تسلیم کرلیا ہے۔ وہ عمران کے خلاف توشہ خانہ ،فارن فنڈنگ کیس وغیرہ قبول کرنے کو اس لئے تیار نہیں کہ سامنے ہوتے شریف اور زرداری نظرآتے ہیں۔

پی ڈی ایم اگر ’’عدم اعتماد‘‘ کے بعد فوری عام انتخابات کااعلان کرتی یا اپنے اتحاد کے ہی کسی غیرمتنازع کو وزیراعظم اور بعد میں وزیراعلیٰ پنجاب بناتے تو عین ممکن تھا، عمران کی تحریک چل ہی ناپاتی۔ پاکستان میں کوئی ’’تاثر‘‘ حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتاہے۔ اس طرح پی ڈی ایم اچھی معاشی ٹیم لاکر ملک کو اُس بحران سے بچا سکتی تھی،مگر ہوسِ اقتدار اپنے خلاف مقدمات ختم کروانا اور پھر سب سے بڑھ کر قیامت خیز مہنگائی نے خود وزیراعظم شہبازشریف کا وہ بھرم بھی ختم کردیا کہ وہ شاندار ایڈمنسٹریٹر ہیں۔

ضمنی الیکشن میں 2021ء کی مسلسل کامیابیوں نے بھی جیسے یوٹرن لے لیا ہو۔ 2022ء میں اپرایل کے بعد سے انتخابی ناکامیوں نے جیسے اُنہیں خاص طورپر مسلم لیگ (ن) کوجکڑ لیاہو۔ پنجاب میں حمزہ شہباز جیسے وزیراعلیٰ لائے گئے ویسے ہی رُخصت ہوئے مگر اس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) 20میں سے 15ضمنی الیکشن ہار گئی جس کی بنیادی وجہ میاں نوازشریف اورشہباز شریف کا وہ غلط فیصلہ تھا کہ عثمان بزدار کو ہرصورت ہٹاناہے۔

اس ساری صورتحال میں لاٹری چودھری پرویز الٰہی اورمونس الٰہی کی کھل گئی اور آصف علی زرداری کوپہلی بار جھٹکا لگا گوکہ چودھری شجاعت اپنے وعدہ پر قائم رہے۔

دوسری طرف عمران عوامی مقبولیت کے باوجود ایک کے بعد ایک بڑی سیاسی غلطیاں کرتے جارہے ہیں، جس طرح بزدار صاحب کی وزارت اعلیٰ پی ڈی ایم اورمسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی ضمانت تھی اسی طرح شہبازشریف کی حکومت اگر چند ماہ اورچلتی رہی تو پی ٹی آئی کو ہی فائد ہوگا۔ بہتر ہو اگر اس دوران خان صاحب محاذ آرائی کے بجائے اپنی تنظیم پرتوجہ دیں۔ الیکشن کا اپنا ماحول ہوتا ہے۔

دوسری بات 2018ء سے پہلے خان صاحب دعویٰ کرتے تھے کہ پولیس سے لے کر سول سروس تک اورمعیشت سے لے کر عدل و انصاف تک سب پیکیج تیار ہیں اس عمر کو تو انہوں نے پہلے ہی وزیرخزانہ مقرر کردیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے چھ ماہ کے اندراندر ہربات غلط ثابت ہوئی ،کوئی ہوم ورک نہیں تھا۔ اب بھی وقت ہے سڑکوں پرمسلط رہنے کے بجائے کچھ اہم کام کرلیں الیکشن سے پہلے نیا آرمی چیف یا نئی اسٹیبلشمنٹ جو بھی آئے گی وہ سب سے پہلے اپنے ادارہ پرتوجہ دے گی پھراُس سے اس کے ارادے واضح ہوں گے۔

پاکستان کی تمام سویلین حکومتیں ماضی میں اس حوالے سے بڑی سیاسی غلطیاں کرتی رہی ہیں۔ ایسی ہی غلطیاں وہ مختلف آرمی چیف کو توسیع دینے کے حوالے سے کرتی ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح یہ بھی فیصلہ ہو جائے کہ جو بھی سینئر ترین جنر ل ہوگا، وہ ہر تین سال بعد چیف ہوگا، توسیع کا دروازہ ہی بند کردیاجائے ،ورنہ ہر مرتبہ ہفتوں یہی بحث ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کے ’’سیاسی گرداب‘‘ کا یہ ایک عنصر ہے۔

ریاست کے ایک اہم ترین ستون ’’میڈیا‘‘ کو قراردیاجاتا ہے،مگراس کی تقسیم کے نقصانات ہمیں کچھ تو ابھی نظرآرہے ہیں ،باقی چند سالوں میں نظرآجائیں گے ۔ صحافی تجزیہ کار جماعتوں کے ترجمان بن جائیں تو پھران کواپنے اپنے میڈیا سیل کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کا کسی جماعت کی حمایت یااُس میں شامل ہونا کوئی نئی یا بری بات نہیں، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ لبادہ صحافت کا اور ترجمانی سیاست کی۔’’قلم کی حرمت‘‘ کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ حالات کا تجزیہ کریں ،ایک آزاد اور غیرجانبدارانہ اندازمیں، یہ نہیں کہ کبھی آپ کسی جماعت کو جوائن کرلیں، وزارتوں کے مزے لیں، حکومت ختم ہو جائے تو دوبارہ صحافت شروع کردیں اور اپنی تحریرکے ساتھ اپنا سابقہ عہدہ بھی لکھنا بھول جائیں۔ یہ سارے عمل نے چند سالوں میں میڈیا کو بھی عمران کی حمایت اور مخالف میں تقسیم کردیاہے۔

2023ء الیکشن کاسال ہے الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اس ملک میں کسی وقت کچھ بھی ہوسکتاہے،مگرآئینی طورپر یہ حکومت اگست تک برقرار رہ سکتی ہے اور عام انتخابات ستمبر یا اکتوبر میں ہوسکتے ہیں۔ عمران خان نے اس پورے سال جو بھی کیا اپنے لوگوں کو متحرک رکھا ۔ضمنی الیکشن میں متواتر کامیابی حاصل کی۔ پنجاب حکومت واپس لی ۔ گولی کابھی سامنا کیا اور لانگ مارچ بھی کیا، مگر کیا ان چھ سات ماہ میں کوئی تنظیم سازی ہوئی۔ کوئی آئندہ الیکشن کے حوالے سے تیاری ہوئی ، کوئی ورکنگ گروپس بنے یا پھراقتدار ملا تو وہی غلطیاں دہرائی جائیں گی جس کی وجہ سے مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آیا وہ تو دعادیں موجود ہ حکمران اتحاد کو کہ، دوبارہ گراف اوپر گیا۔

عملی طورپر دیکھاجائے تو خان صاحب 2013ء سے سڑکوں پر ہیں جو مارچ اُس وقت شروع ہوا تھااور126دن جاری رہا۔ دھرنے کی صورت میں اس نے 2018ء کے الیکشن جتوا دیئے، کبھی پاشا کی سرپرستی تو کبھی کسی نے فیضیاب کیا۔ اقتدار کا تجربہ بھی حاصل ہوا اور اسٹیبلشمنٹ سے تضادات بھی سامنے آئے اوراس لڑائی میں میرا ’’کپتان‘‘ کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا۔ بہت زیادہ ، فرنٹ کھیل لئے۔

ایک طرف حکمران اتحاد ، دوسری طرف بعض جرنلوں پر سنگین الزامات تو تیسری طرف الیکشن کمیشن پرحملے، عدلیہ سے بھی ناراضگی اورمیڈیا پر پیسے لے کر خبریں چلانے کا الزام ایک طرف آزادی صحافت کو دبانے کا الزام حکومت پر تو دوسری طرف صحافیوں پر’’لفافہ‘‘ لے کر ان کے خلاف مہم چلانے کا الزام۔

اس سب کے باوجود حقیقت تو یہی ہے کہ 2022ء میں سیاست اسی کے گرد گھومتی رہی اورلگتا ہے 2023ء میں بھی سلسلہ جاری رہے گا۔ الیکشن جیت گئے تو ٹھیک ورنہ نیا مارچ ۔