طلبہ کی تین خصوصیات جو انھیں کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہیں

January 15, 2023

ایجوکیشن 4.0 ، تعلیم کو ایک جامع، زندگی بھر سیکھتے رہنے کے عمل کی وکالت کرتا ہے۔ یہ مہارت پیدا کرنے کی ذمہ داری طلبہ پر عائد کرتا ہے، جب کہ اساتذہ اور مینٹورز صرف ان کے سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ آج کے طلبہ میں ایک جامع اور زندگی بھر سیکھتے رہنے والی تعلیم کے حصول کے لیے ذہن سازی کرنا ایک چیلنجنگ ہدف ہے۔

اس کے لیے موجودہ تعلیمی نظام میں سرمایہ کاری اور اَپ گریڈیشن کے لیے طالب علموں، والدین، ماہرین تعلیم اور کاروباری برادری کو سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جابز مارکیٹ کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ضروریات کے لیے ماہر افرادی قوت دستیاب ہوسکے۔ ماہرین کے مطابق، مستقبل کی جابز مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آج کے طلبہ میںدرج ذیل مہارتیں پیدا کرنا ضروری ہے۔

مسائل حل کرنے کی مہارت

مسائل حل کرنے کی صلاحیت (پرابلم سالوینگ) کا ہونا ہر یونیورسٹی اور کمپنی کو درکار مہارتوں کی فہرست میں سب سے اوپر یا اس کے قریب ہونی چاہیے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’پرابلم سالوینگ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ وہ طلبہ جو مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، وہ سامنے آنے والے کسی بھی مسئلے کا حل نکالنے کے لیے متجسس اور اپنے سامنے چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

آزادانہ طور پر یا دوسروں کے ساتھ ملکر کام کرتے ہوئے طلبہ صورتحال کا مطالعہ کرتے ہیں اور کسی مسئلے کی بنیادی وجہ کی نشاندہی کرنے کے لیے سوالات پوچھتے ہیں، ایک بار وجہ کی تصدیق ہونے کے بعد ممکنہ حل کے لیے مشترکہ طور پر ذہن سازی کرتے ہیں، چھوٹے پیمانے پر تجربہ اور حل تلاش کرتے ہیں، ان تجربات کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں، نتائج کی روشنی میں بہترین حل کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کا دائرہ کار بڑھاتے ہیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس سے مسئلہ واقعتاً حل ہو رہا ہے۔ اس عمل کے دوران، طلبہ مسائل کو حل کرنے کے بنیادی عوامل کی نشاندہی کرتے اور ان پر انحصار بڑھاتے ہیں: تخلیقی صلاحیت، ڈیٹا کا تجزیہ، استقامت اور ناقدانہ سوچ۔

مستقبل کے ہنر سکھانے کے سلسلے میں بروکنگز انسٹیٹیوشن سیریز میں، معلم کیٹ ملز کلاس روم میں اپنے طلبہ کو ’’مسئلے کو روزمرہ کے طور پر لینا‘‘ سکھاتی ہیں۔ وہ ہر ایک طالب علم سے اس کے کسی بھی مسئلے کو بیان کرنے کا کہتی ہیں۔ مسئلہ جاننے کے بعد وہ ان سے پوچھتی ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انھوں نے کیا طریقہ کار استعمال کیا، ساتھ ہی وہ مسئلہ حل کرنے کے عمل کے دوران استعمال کیے گئے ہر اقدام کو ایک نام دیتی ہیں اور آخر میں اسے ایک کیس اسٹڈی کے طور پر پوری کلاس کے سامنے بیان کرتی ہیں کہ ’’مسئلہ کیا تھا اور اسے کس طرح حل کیا گیا‘‘۔

وہ کہتی ہیں کہ، ’’کچھ ہفتوں کے بعد، زیادہ تر کلاس سمجھتی ہے کہ اساتذہ، طلبہ کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کے مسائل کو حل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ اس میں طالب علموں کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی متعدد حکمت عملیاں شامل ہیں، جن سے طالب علم اگر کسی مرحلے پر اَٹک جاتے ہیں تو اس سے مدد لے سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے لیے، ایک استاد کے طور پر یہ ضروری ہے کہ میں کلاس روم میں ایک ایسا ماحول پیدا کروں، جس میں طلبہ مسائل کو خود حل کریں۔‘‘

اشتراک کرنے کی مہارت

اشتراک، بنیادی طور پر تعاون اور دوسروں کے ساتھ اچھی طرح سے کام کرنے کے بارے میں ہے، کبھی ٹیم لیڈر کے طور پر تو کبھی ٹیم کے رکن کے طور پر۔ اشتراک میں کام کرنے والے طلبہ اعداد و شمار کے ساتھ اچھا کام کرتے ہیں، منطق کی سُنتے ہیں اور جب وہ اپنے ابتدائی عقائد کے خلاف شواہد کا سامنا کرتے ہیں تو وہ اپنا ذہن بدلنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔

ایسے افراد ہر قسم کی شخصیت، کام کرنے کے انداز اور پس منظر کے ساتھ تعلقات استوار کرتے، تناؤ میں کمی اور کسی بھی ٹیم کے آپسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے تیزی سے کام کرتے ہیں۔ وہ کیمرے پر، آواز کے ذریعے یا کسی بھی شکل میں لکھتے وقت (کم سیاق و سباق کے مختصر پیغامات سے لے کر لمبی رپورٹس تک) تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں یا فعال سامع رہتے ہیں۔

پانچ برس قبل، برطانوی تعلیمی اشاعتی ادارے پیئرسن ایجوکیشن نے ’’پارٹنرشپ فار 21فرسٹ سنچری لرننگ‘‘ کے اشتراک میں ’’طلبہ کو اشتراک کرنے کا طریقہ سکھانے میں اہم ترین نتائج کا جائزہ لینا‘‘ پروجیکٹ پر کام کیا۔ رپورٹ میں کلاس روم کی روزمرہ سرگرمیوں میں اشتراک کے تین اہداف پر کام کرنے کی سفارش کی گئی ہے: باہمی ابلاغ (انٹرپرسنل کمیونیکیشن)، تنازعات کا حل (کنفِلکٹ ریزولیوشن) اور کام کو مطلوبہ معیارات کے مطابق خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینا (ٹاسک مینجمنٹ)۔

مثال کے طور پر، اگر کسی کام کے لیے گروپس کو بہت سارے آئیڈیاز تیار کرنے کی ضرورت ہو لیکن ان آپشنز کو ترجیح دینے یا کوئی انتخاب کرنے کی ضرورت نہ ہو، تو طلبہ کو اپنے خیالات کو مربوط کرنے کی بہت کم ضرورت ہوگی۔

اسی طرح، اگر کوئی کام اتفاق رائے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن گروپ میں سب پہلے ہی بہترین حل پر متفق ہیں تو طلبہ کے لیے تنازعات کے حل کی مہارتیں آزمانے کا کوئی موقع نہیں بچے گا۔ اشتراک کی مہارتیں پیدا کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کلاس روم کے ماحول میں مطلوبہ صورتِ حال پیدا کرنی چاہیے۔

کلاس روم میں باہمی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنے والا ماحول بنانے کے لیے، طلبہ کو متعدد کاموں اور پروجیکٹس کے لیے مختلف گروپس میں منظم کرنے، طلبہ کے درمیان کرداروں کو گھمانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام طلبہ مختلف ذمہ داریوں اور باہمی حالات کا تجربہ کریں اور ایماندارانہ، تعمیری تاثرات پیش کرسکیں۔ حیرت کی بات نہیں، رپورٹ اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ اشتراک تعاون کی مضبوط مہارت رکھنے والے طلبہ نوکری کے حصول اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کے بہتر امکانات رکھتے ہیں۔

مطابقت پذیری کی مہارت

نئے حالات اور حقیقتوں کے مطابق مسلسل اور مستقل طور پر موافقت پیدا کرنے کی صلاحیت کو طویل عرصے سے کم اہم شخصی خصوصیت سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ موافقت پذیری (ایڈاپٹیبلیٹی) کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ موافقت کی مہارتیں غیر یقینی صورتحال، اچانک تبدیلیوں اور ناواقف حالات میں ایک خاص سکون میں رہنے سے لے کر دباؤ میں مؤثر فیصلے کرنے اور اختراعی حل تیار کرنے کی صلاحیت تک ہوتی ہیں۔ جو نوجوان موافقت پذیر ہوتے ہیں وہ بغیر پیروی کیے رہنمائی کرنے اور پھر دوبارہ پیچھے ہٹ جانے تک کا سفر بغیر کسی ہچکچاہٹ یا رکاوٹ کے کرتے ہیں۔ وہ نئے موضوعات سیکھنے، نئے ہنروں میں مہارت حاصل کرنے اور خود کو جانچنے کے مواقع کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اینڈریو جے مارٹن کی سربراہی میں ایک آسٹریلوی تحقیقی ٹیم جو پچھلی دہائی سے بے یقینی اور غیرمتوقع صورتِ حال اور تبدیلی کے بارے میں طلبہ کے ردعمل کا مطالعہ کر رہی ہے، کا کہنا ہے کہ مطابقت پذیری سیکھنے کے لیے شعور، طرز عمل اور جذبات میں ردوبدل کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے لچک پیدا کرنا، اچھال اور خود ضابطگی۔

موافقت پذیری کا ایک طریقہ طلبہ کے ساتھ ایک خود ساختہ عمل تشکیل دینا ہے جس میں طلبہ کسی خاص شعبے میں اپنی مہارت کا خود جائزہ لیتے اور سیکھنے کے اہداف طے کرتے ہیں، تجربہ اور مہارتیں بنانے کے لیے کام کرتے ہیں، مہارت کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں، اور مزید سیکھنے کا عمل جاری رکھنے کے لیے درکار ترمیمات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، جانچ اور تاثرات کے نتیجے میں مہارتوں اور طرز عمل میں مطلوبہ تبدیلیاں لاکر نوجوانوں میں موافقت پذیر ذہن بنایا جاتا ہے۔