فیصلہ سازی میں دیر نہ لگاتے

January 25, 2023

جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے بانی، دنیا ئے صحافت کی قدآور عہد ساز شخصیت، میر خلیل الر حمٰن اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کے ذکر کے بغیر اُردو صحافت کا تذکرہ مکمل ہوہی نہیں سکتا۔ دوسری عالمی جنگ کا حرف اوّل جنگ گروپ کی صورت میں اُردو صحافت کی تاریخ کا ’’حرف آخر ‘‘بن چکا ہے۔ مملکت کا چو تھا ستون صحافت ہے تو نیوز پیپرز میڈ یا کا پہلا ستون، میر صحافت ،میر خلیل الرحمٰن ہیں۔ انہوں نے پہلےاخبار میں لکھنا شروع کیا پھر اخبار نکالنے اور اخبار کو اخبار کی طر ح چلانے میںجو مہارت حاصل کی ،وہ تاریخ صحافت کا ایک در خشاں باب بن گیا۔

قیام پاکستان کی عظیم جدوجہد کی لمحہ بہ لمحہ داستان کے وہ ناقابل فراموش باب جس میں قلم سے جہد مسلسل سنہری حروف میں رقم ہے ،میر صاحب کے قابل ستائش کر دار سے پُر ہے۔ انہوں نےدہلی کے گرم سیاسی ماحول میں صحافت کا آغازکیا۔ صحافت کے مسلمہ قائد کی حیثیت سے جہاں تازہ آباد کرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی صحافتی ایمپائر بنا ڈالی اور بغیر تقاضائے صلہ وستائش اپنے کارہائے نمایاں کے تاریخ میں صحافت رقم کرتے چلے گئے۔

میر صاحب نے صحافت کے تمام شعبوں میں اپنی انفرادیت کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان کی جدت پسندی نے اُردو اور انگر یزی صحافت میں نئی نئی راہیں تلاش کیں۔ اُنہوں نے یک دم جست لگانے کے بجائے زینہ بہ زینہ چڑھنے کو تر جیح دی۔ ذرّوں کو یک جاکر کے اینٹ بنائی اور پھر اینٹ پر اینٹ رکھ کر دیوار اٹھا ئی ،لیکن دیوار اُٹھانے سے پہلے بنیادوں کو مستحکم طور پر استوار کیا ۔یہی وجہ ہے کہ جنگ گروپ آف نیوز پیپرز ماضی کی چھوٹی سی پانی کی دھار کی طر ح بہتے بہتے آج ایک لمبے چوڑےپاٹ کا دریا بن چکا ہے اور یہ میر صاحب کی شبانہ روز محنت کا پھل ہے۔

وہ تصنع سے مبرا، اخباری دنیا کے مرد میدان تھے۔ جذبات کے تابع نہیں تھے ،نہ کبھی ہوش پر جوش کو غالب آنے دیا ،ان کا شمار عامل صحافیوں اور صحافت کے محنت کشوں میں ہوتا تھا ۔اُن کی حیثیت ایک تاریخ ساز صحافی کی تھی ۔وہ خود ساز شخصیت تھے۔ اُنہوں نے کسی مخصوص پارٹی کا نقیب بننے کے بجائے ہمیشہ ملک وملت کا ترجمان بننے کو تر جیح دی ۔جنگ اخبار کےذریعے ایک طر ف تحریک ِپاکستان کو آگے بڑھایا اور دوسری طر ف قیام ِپاکستان کے بعد ان مقاصد کو ہمیشہ عزیز رکھا جس کی بنیادپریہ ملک وجود میں آیا ۔وہ کسی حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے وابستہ نہیں ہوئے۔ اُن کی وفاداری اس دیس اور اس سر زمین سے رہی۔

اُن کا ہاتھ ہمیشہ پاکستان کے عوام کی نبض پر رہا ۔اُنہوں نے غریبوں کے دلوں کی دھڑکنیں سننے میں بھی کبھی کوتا ہی نہیں کی ،یہی وجہ ہے کہ آج ان کے لگائے ہوئے پودے خواص کے لیے بھی ہیں اور عوام کے لیے بھی۔ اُنہوں نے اپنا خون پسینہ اس شجر سایہ دار و ثمر آور کی آبیاری میںصرف کیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ انہوں نے صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور جدید ترین آلات کے ساتھ ایسا انقلاب بپا کیا کہ جنگ اخبار، پاکستان کا تر جمان بن گیا۔اللہ نے انہیں جو ہر شناس آنکھیں دیں۔ صحافت ہی نہیں ،قومی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے جو’’وژن‘‘کی نعمت سے میر صاحب کی طر ح سر فراز کیے گئے ہوں۔ انہوں نے سیاست دانی یا سیاست گری کی کبھی کوشش نہیںکی۔ وہ جمہوریت ،آمریت نماجمہوریت اور جمہوریت نما آمریت سب کو ہنس کر جھیل گئے۔

میر صاحب نے ادارہ ٔ جنگ کو اپنے خون جگر سے پروان چڑھایا، جو دہلی سے منتقل ہوکر کراچی آیا اور پھر اس کا دائرہ بڑھتا ہی گیا۔ اس کے مراکز مشرق سے مغرب تک پھیلتے رہے۔ یہ میر خلیل الر حمٰن کی مرد شناسی تھی کہ انہوں نے بہت سے ممتاز اہل قلم کو جنگ میںلکھنے کی تر غیب دی اور جنگ اخبار صحافت کا خوش رنگ گُل دستہ بنتا چلا گیا۔ اُنہوں نے اپنے نئے نئے خیالات اور تجربات سے صحافت کی مسلسل خدمت کی۔ صحافت کی سنگلا خ وادیوں میں نت نئے گل بوٹے کھلانے کے ساتھ ساتھ علم وادب اور دین ودانش کی خدمت بجالانے سے بھی غافل نہیں رہے۔

میرصاحب کی مسلسل جدوجہد ، انتھک محنت ،دورس نظریں، انتظامی صلاحیت ،پیشہ ورانہ مہارت اورہر طبقے اور نظریہ کے افراد کوخوش اسلوبی سے برتنے کے ہنر نے انہیں بے مثال کام یابیوں سے بہرہ مند کیا۔ اُنہوں نے ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلائے، جو صحافیوں کے روپ میںپوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ صرف ’’سر خیاں ‘‘ بند کرنے کے لیے بھی کوئی کوزہ تلاش کرنا مشکل ہے کہ حقیقتاًنصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔

دنیا کے اس خطے میں جب بھی صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی، میر صحافت، میر خلیل الر حمٰن کا نام سنہرے الفاظ سے در ج کیا جائے گا۔ وہ صحافت کا ایک تاریخ سازعہد تھے۔ میر صاحب 25 جنوری 1992 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی کے موقع پر کچھ یادیں، کچھ باتیں اورایک کہنہ مشق صحافی، طاہر خلیل کا میر صحافت کو خراج عقیدت نذر قارئین ہے۔

رضیہ فرید

طاہرخلیل

جنگ گروپ کے بانی ،میر صحافت میر خلیل الرحمٰن مرحوم ایک شخصیت کا نہیں ایک عہد کا نام ہے ، دوسری جنگ عظیم میں جب دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں آزادی کی تحریکیں ابھرنے لگیں اور برصغیر کے مسلمانوں میں بھی تحریک آزادی تیزی سے آگے بڑھی تو میر صاحب مرحوم نے اس تحریک میں تن تنہا اور نا مساعد حالات کے باوجود دہلی سے روزنامہ جنگ کا آغاز کیا، اس طرح مسلمانوں کی جنگ آزادی میں ’’جنگ ‘‘ کا کردار بھی نمایاں ہوتا گیا۔

غلامی ،آزادی ،جمہوریت ،آزمائش کے مختلف ادوار میں میر صاحب نے مستقل مزاجی ،صبر اور عزم و ہمت کے ساتھ ’’جنگ ‘‘ کےکام کو آگے بڑھایا اور پھر دیکھتے دیکھتے تاریخ صحافت کا ناقابل فراموش باب بن گیا۔ تحریک پاکستان سے تعمیر پاکستان ، غلامی سے آزادی اور پھرجمہوریت کے سفر کی لحظہ بہ لحظہ داستان کا ہر صفحہ میر صحافت مرحوم کے جہد مسلسل کی مکمل داستان ہے ، اسی لئے انہیں ان کی زندگی میں ہی ’’ لیونگ لیجنڈ آف جرنلزم ‘‘( Living Legend of Journalism)کا خطاب ملا۔ محنت ،لگن ،اخلاق ، عجزو انکساری ،ان کی شخصیت کے ایسے اوصاف تھے جو ایک ساتھ بہت کم صاحبان فکر و عمل کے حصے میں آتے ہیں۔

صحافت کے شعبے میں یہ تمام پہلو میر صاحب مرحوم کی شخصیت میں پیوست تھے، انہوں نے جنگ کے ذریعے اردو اور اس کے بعد دی نیوز کے ذریعے انگریزی صحافت کے ایسے بلند معیار قائم کئے جس نے بلاشبہ انہیں صحافت کے مسلمہ اور حقیقی قائد کا درجہ دیا ، انہوں نے جو اخبار، جریدہ نکالا وہ ملک کا سب سے بڑا بنا، یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگائیں تو سونا بن جائےاور ایسا ہی ہوا، اسی لئے پاکستانی صحافت اور جمہوری جدوجہد میں ،میر خلیل الرحمٰن مرحوم کا نام ہمیشہ تابندہ اور جگمگاتا رہے گا۔

میر صحافت مرحوم کی پیشہ وار انہ لگن کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ، وہ دن کے 24 میں سے 19 گھنٹے کام کرتے ، انہیں کوئی مجبوری نہیں تھی لیکن ادارے کو ایک ممتاز حیثیت دلانا ان کا عشق تھا۔ نیو ز روم ، رپورٹنگ ،مارکیٹنگ اور دیگر انتظامی امور پر ان کی مکمل گرفت تھی۔ قائد اعظم کا یہ قول ’’ ہمیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے ‘‘ ( 11 اگست 1947 دستور یہ سے خطاب )مرحوم میر صاحب کا نصب العین بنا رہا ، انہوں نے اپنے ادارے کو تمام بدلتے تقاضوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ اور ہم آہنگ کر کے دنیائے صحافت میں انقلاب برپا کیا، جنگ پہلا اخبار تھا ،جس نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ساتھ فیکس ، پیجرز اور اس کے بعد ڈیجیٹلائزیشن پر بھر پور توجہ دی اور اپنے کارکنوں کو اطلاعات کی فوری جلد منتقلی کیلئے ہر طرح کےڈیجیٹل وسائل سے آراستہ کیا، کراچی ،راولپنڈی، اس کے بعد لاہور ، کوئٹہ میں جنگ کے تمام ایڈیشنز میں شائع میٹریل پر ان کی مکمل گرفت تھی ، وہ نیوز اور رپورٹنگ رومز سے رات گئے تک رابطے میں رہتے، خبروں کے فالو اپس ، مسنگز پرسرزنش کے ساتھ کاپی لے آئوٹ پر رہنمائی اور ایکسکلوسیو ز پر ہمہ تن توجہ ان کا وصف تھا۔1987 میں ایک بار قومی اسمبلی کا وزٹ کیا تو اسمبلی لائبریری میں جنگ کی مکمل فائل دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، قومی اسمبلی کی لائبریری میں خلیجی اخبارات کے ساتھ امریکا ، لندن اور دیگر ملکوں کے میگزین کی بڑی تعداد دیکھی ، قومی اسمبلی کی لائبریری سے ہی کراچی آفس فون پر ہدایات دیں کہ، تمام رپورٹر ز باقاعدگی سے لائبریریز کا وزٹ کریں اور اچھی خبریں اور ان کے اسلوب دیکھیں۔

میر خلیل الرحمٰن کی اپنے بیٹوں ، میر جاوید الرحمٰن اور میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ یاد گار تصویر

میر صاحب نے نوجوان صحافیوں کو سکھایا کہ ،سو رس کبھی ڈکلیئر نہ کریں۔ ضیا ء دور میں ایوان صدر میں محفل میلا د منعقد ہو ئی ،میر صاحب نے اس حوالے سے اس وقت کے نوجوان رپورٹر،حامد میر کو ایک خبر فائل کرنے کیلئےکہا اور ساتھ ہی تلقین کی کہ سورس نہیں بتانا، کیونکہ میر صاحب مرحوم کا سورس ان کی اہلیہ محترمہ تھیں، جنہوں نے محفل میلاد اٹینڈ کی تھی اور تمام بیگمات کے نام بتائے تھے ، جب خبر جنگ میں شائع ہوئی تو بیگم شفیقہ ضیا نے، بیگم میر خلیل الرحمٰن کو فون کر کے خبر کی تصدیق کی تھی۔

1984 ء میں اسلامائزیشن عروج پر تھی۔ جنرل ضیا الحق مرحوم نے ایڈیٹر ز کو کھانے پر مدعو کیا ۔ کھانے کے بعد ایوان صدر ( موجودہ فاطمہ جناح یونیورسٹی ) کے کوریڈور میں وزارت اطلاعات نے اخبارات و جرائد کی منتخب خبروں اور تصاویر کو ایک نمائش کی صورت میں آویزاں کیا،ہفت روزہ ، اخبار جہاں بھی تھا ،جس کے سرورق پر، ایک خاتون ماڈل کی تصویر تھی ،جنرل ضیا کو اعتراض تھا کہ خاتون ماڈل کے سرپر دوپٹہ نہیں اور اسکے بازو بھی کور نہیں ہیں، انہوں نے شکایت کے لہجے میں کہا کہ یہ ہمارا کلچر نہیں ، میر صاحب نے اسی لمحے جواب دیا کہ یہ خاتون ماڈل ہیں ، پی ٹی وی نیو ز کاسٹر نہیں۔

ایک ایڈیٹر کیلئے سب سے مشکل کام خبروں اور میٹریل کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور میر صاحب فیصلہ سازی میں دیرنہ لگاتے ،ان کے ساتھ تعلق پر مبنی یادیں اب ہمارا سرمایہ حیات ہیں ۔ جمہوریت ہو یا شخصی آمریت کے ادوار ،حقیقت یہ ہے کہ میر صاحب مرحوم نے مشکل اوقات میں سچ لکھنے اور کھری بات قارئین تک پہنچانے کا سلیقہ سکھایا ۔جنرل ضیا کے دور میں جب کئی اردو اور انگریزی اخبار بند ہوئے تو میر صاحب نے اپنے ایڈیٹوریل بورڈ اور رپورٹر ز کو ایک کلیہ سمجھایا کہ اخبار بند کرانا کوئی انقلاب نہیں ، انقلاب یہ ہے کہ نا مساعد حالات میں آپ اپنے قارئین کو سچی معلومات فراہم کریں اور ریڈ لائن بھی کراس نہ ہو ، یہی وجہ تھی کہ جنرل ضیا الحق ،میر صاحب مرحوم کے بڑے مداح تھے، وہ اپنی میٹنگز میں بھی میر صاحب کو شہنشاہ صحافت سے موسوم کرتے۔

میر صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ، شعبہ صحافت کی ایسی قدآور شخصیت تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور صحافتی تاریخ پر گہرے اور لافانی نقوش چھوڑے ،نائب قاصد سے لے کر صدر مملکت تک ان کی رسائی تھی ،چھوٹا ہو یا بڑا عجزو انکساری احتیاط اور احترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ رپورٹنگ کے مختلف ادوار میں کئی مرتبہ ایسے مواقع آئے کہ میر صاحب کی رائے مختلف ہوتی تھی لیکن کمال قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے، بھر پور صلاحیتوں کے ساتھ خبروں کا معیار قائم کیا ،ایک مکمل اور متوازن اخبار کے نئے رجحانات کو فروغ دیا، اپنی تحریروں میں عوامی مسائل اور دیگر پالیسیوں پر حکومت سے اختلاف رہتا، وہ ہمیشہ اپنے کارکنوں کو تلقین کرتے تھے کہ ،اختلاف شائستگی کی حدود کے اندر ہونا چاہیے اور دوسرے فریق کا موقف بھی ضرور شائع ہونا چاہیے۔

میر صاحب کے اصولوں پر جنگ نے شاندار روایات کو اپنایا، جن پر آج بھی پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ سادگی ،نفاست ،مردم شناسی، ان کی شخصیت کے ایسے پہلو تھے جو ہم سب کیلئے ہمیشہ رہنما اصول کی صورت میں یاد رکھے جائیں گے۔ جو نیجو دور میں جب پیر پگاڑا کے چوہے بلی کھیل والے ذومعنی بیانات نے تہلکہ مچایا تو ایک رات میر صاحب نے مجھے کراچی سے فون کیا کہ، مسلم لیگ آپ کو ر کر رہے ہیں ،الرٹ رہیں ،چوہے بلی کا کھیل اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ دیگر اخباری صنعت سے وابستہ تمام شعبوں سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے ، راولپنڈی ، اسلام آباد جب بھی آنا ہوتا، پی آئی وی کے ساتھ اخبار فروش یونین کے دفتر میں ٹکا خان سے ملاقات بھی مصروفیات کا حصہ بنتی ۔

میر صاحب ،نے اپنے بیٹوں بیٹیوں پر خصوصی توجہ دی اور ہر ایک کو محنت اور خلوص سے کام کرنے کا عادی بنایا ، اب ان کی دوسری نسل بھی مسلسل محنت سے آگے بڑھ رہی ہے ، مشکل ادوار میں عوامی مسائل اور جمہوری جدوجہد کا ساتھ دینا بلا شبہ ہمالیہ کی پر خطر وادیوں سے گزرنے کے مترادف ہے، میر صاحب مرحوم کوبار بار ایسی مشکلات کا سامنا رہا ،لیکن وہ کامیاب رہے ، دوسری جنگ عظیم میں جنم لینے والا ’’جنگ ‘‘ آج اپنی جوانی کی دہلیز عبور کر کے دنیا ئے صحافت کیلئے چمکتا دمکتا روشن ستارہ بن چکا ہے ،میر صحافت نے ستائش اور صلے کی تمنا کئے بغیر جہد مسلسل سے ایک ایسا ادارہ قائم کر دیا جو جنگ ، دی نیوز اور جیو ٹی وی کی صورت میں حالات سے با خبر رکھنے کیلئے لوگوں کو معیاری خبریں ہی نہیں تفریح اور علم بھی فراہم کر رہے ہیں ،وہ خود ساز شخصیت تھے انہوں نے ایک چراغ سے ہزاروں چراغ روشن کئے اور یہ سفر آج بھی کا مرانی کے ساتھ جاری ہے۔

جناب میر خلیل الر حمٰن کو صحافت کے شعبہ میں نمایاں خدمات پر کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز ملے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں

سینیٹ کے سابق چیئرمین ، وسیم سجاد سے میر صاحب ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

* گولڈ مرکری انٹر نیشنل ایوارڈ (میکسیکو میں دیا گیا ) 1978ء *مرچنٹس نیوی آفیسرز ایوارڈ1983ء* رائٹر زفورم ایوارڈ1984ء * رائٹرزفورم ایوارڈ1985ء * اقراء ایوارڈ1985 ء * بلادی ایوارڈ (متحدہ عرب امارات میں دیا گیا )1985ء * نشانِ بہبود1987ء * پاکستان موومنٹ ایوارڈ 1987ء * قائداعظم ایوارڈ1987ء * پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری (سری لنکا میں دی گئی )1988ء *پر فارمنس ایوارڈ(میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ٹورنامنٹ) 1989ء* قلی قطب شاہ عالمی ایوارڈ (عالمی اردو کانفرنس نئی دہلی میں دیا گیا )1989ء * آرٹ انٹر نیشنل ایوارڈ (بہترین ایڈیٹر انچیف کا ایوارڈ دبئی میں دیا گیا) 1990ء *’’دی لیونگ لیجنڈ آف جرنلزم ‘‘ (پاک امارات فورم ایوارڈ) 1990ء

تقریب رونمائی ادھوری رہ گئی

میر خلیل لرحمن سے ہم اس دن سے واقف ہیں جس دن سے ہم نے اُردو کے جملے پڑھنے شروع کئے۔ ہر روز صبح سویرے میر صاحب ہمارے گھر آجاتے اور سہ پہر تک رہتے۔ ایک ہمارے ہی نہیں، اُردو پڑھنے والوں کے ہر گھر کی پہلی بھاپ اُڑاتی چائے کی پیالی کے ساتھ پہنچ جاتے۔ میر خلیل الرحمن کا دوسرا نام ’’جنگ ‘‘ اور’’جنگ ‘‘کا پہلا نام میرخلیل الرحمن تھا۔

بچپن میں ہم ٹارزن کی کہانی کیلئے ’’جنگ‘‘ کا انتظار کرتے۔ لڑکپن میں دلچسپ خبروں اور تصویروں کیلئے ’’جنگ‘‘ تلاش کرتے، جوانی میں معلومات میں اضافے کیلئے’’جنگ‘‘ کا مطالعہ کرتے،اس وقت یہ بھید کھلا، میر خلیل الرحمن شہر میں جنگل کے قانون کے خلاف نبرد آزما دنیائے صحافت کےٹارزن ہیں۔

اکتوبر 1987ء کی ایک نیم گرم دوپہر تھی جب جنگ پبلی کیشنز کے بانی محترم میر خلیل الرحمن نے ہمیں یاد کیا، ہم اُن کے دفتر پہنچے، سلام دعا کے بعد انہوں نے فرمایا ’’آپ ہمارے لئے کالم کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ہم نے کبھی کالم نہیں لکھا ’’ کوشش کریں، میں سمجھتا ہوں آپ کالم لکھ سکتے ہیں،آپ کی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں، میرصاحب نے کہا۔ ہم نے عرض کیا کہ کالم تو عموماً سیاست پر لکھے جاتے ہیں اور یہ ہمارا میدان نہیں، میر صاحب نے ہمیں قائل کرتے ہوے کہا‘‘ بھئی ایک سیاست ہی توموضوع نہیں، ثقافتی، معاشرتی، سماجی مسائل ہیں، ان پر ہلکے پھلکے انداز سے لکھیئے، میری خواہش ہے کہ کراچی سے لکھنے والے سامنے آئیں۔ خدا کرے، آپ اس وکٹ پرکھیل سکیں۔‘‘

’’کوشش کریں گے۔‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

’’کل اپنا پہلا کالم بھجوا دیجئے، میں خود دیکھوں گا۔‘‘ وہ بولے۔

’’اتنی جلدی،دوچار دن دے دیجئے۔ ‘‘ ہم پریشان ہوگئے۔

’’ٹھیک ہے، آج سے چوتھے دن کالم کے ساتھ آئیے۔‘‘

یہ ہمارے لیےبڑے اعزاز کی بات تھی کہ خو د میر صاحب ہمیں روزنامہ جنگ میں لکھنے کی دعوت دے رہے تھے۔ ہم نے کالم لکھا اور ہمارا پہلا کالم ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ 27 اکتوبر 1987ء کو چھپا اور پھر کالموں کا سلسلہ بعنوان ’’دل دریا‘‘ تواتر سے چھپنے لگا۔ ایک دن صبح کی کرنوں میں خوشی کی بانسری بجی ہمارے جنگ کے کالم ’’بھاوج کا تحفہ‘‘ کو 1991ء کا بہترین کالم قرار دیتے ہوئے اے پی این ایس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ نہ میر صاحب ہمیں ترغیب دیتے نہ ہم کالم نگار بنتے۔ بے شک اللہ نوازنے والا ہے۔

’’جنگ‘‘کے ’’بچوں کے صفحے‘‘ نے ہمیں قلم پکڑنے کا وہ شعور سکھایا تھا کہ ہم مشکل منزلیں طے کرتےگیے۔ پہلا ’’سفر نامہ‘‘ شائع ہوا تو دل چاہا، اپنے پسندیدہ میرکارواں سے رونمای کرائیں۔ ملاقات کرنے دفتر پہنچے۔ وہ اپنی مصروفیت کا ذکر کرنے لگے، ہم براماننے لگے۔’’آپ کبھی فارغ نہیں ہوں گے۔ آپ کی صبح، دوپہر، شام اور آدھی سے زیادہ رات کام، کام، کام ہے۔

دوسروں کیلئے اس مصروف زندگی میں سے کچھ وقت نکالنا ہوگا۔‘‘ وہ چند لمحے سوچتے رہے پھر مسکرا کر بولے۔’’ آپ انتظامات کریں، میں ضرور آؤں گا۔‘‘ ہم نے ’’سفرنامہ‘‘ ان کی خدمت میں پیش کیا اور خوشی خوشی لوٹ آئے۔ تیسرے دن میر صاحب کا فون آیا۔ ’’بھئی ! گڑ بڑ ہوگئی ہے،جس تاریخ کو تقریب ہے، اسی دن صدر مملکت نے اسلام آباد بلایا ہے۔‘‘ وہ مجبور تھے اور ہم افسردہ، ہم نے تاریخ تبدیل کرنی چاہی۔

انہوں نے اجازت نہیں دی۔ ’’آپ تقریب مقررہ تاریخ پرکریں۔ میں اگلی کتاب میں آجائوں گا۔‘‘ ہم مایوس تھے۔ ’’اگلی کتاب کی کسے خبر ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے۔ ’’بھئی! صحافی اور ادیب عادتاً لکھتا ہے۔ ایک مضمون، ایک کتاب پر اکتفا نہیں کرتا۔ آپ لکھیں گے۔ میرا وعدہ ہے، آئندہ کتاب کے لئے جب بلائیں گے، آئوں گا۔‘‘

ہمارا دوسرا ’’سفرنامہ‘‘ شائع ہوا۔ میر صاحب کو وعدہ یاد دلایا، وہ چیک اَپ کے لئے لندن جا رہے تھے۔ ڈاکٹر سے وقت مقرر ہو چکا تھا لیکن ہمیں مایوس نہ ہونے دیا۔ کہنے لگے۔ ’’میرا وعدہ ہے، آپ کی تیسری کتاب آئے گی تو کچھ بھی ہو، میں ضرور شرکت کروں گا۔‘‘

تیسرا ’’سفرنامہ ‘‘ طباعت کے آخری مراحل میں تھاکہ ،صبح سویرے مظفر محمد علی کا ’’جنگ‘‘ لاہور سے فون آیا، کہا ’’صحافت کا میر کارواں گم ہوگیا۔‘‘ ہم میر خلیل الرحمن کو اس ’’سفرنامے‘‘ کی تقریب تعارف میں ہر قیمت پر بلانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس بار بھی بہانہ کر گئے ہیں۔ بغیر یہ کہے۔ ’’آپ کی چوتھی کتاب آئے گی تو ضرور آؤں گا۔‘‘

(قمر علی عباسی، مرحوم کےقلم سے 25 جنوری 1992ء کو لکھے گئے ایک کالم سے)