سید المحدثین امام بخاری ؒ

March 10, 2023

عمران احمد سلفی

شعبان المعظم کے مہینے میں ملک بھر کےمدارس دینیہ میں تکمیل بخاری شریف کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے ، جس میں درس نظامی ،علوم نبویؐ کے فارغ التحصیل طلباء علمائے کرام کی صف میں شامل ہوتے ہیں اور ملک کے جید علما و مشائخ الحدیث صحیح بخاری کی آخری حدیث پر عالمانہ درس ارشاد فرماتے ہیں، فارغ ہونے والے طلباء کی دستار بندی کی جاتی ہے،جس سے ایک جانب دینی علوم میں درس حدیث کی اہمیت ،کتب حدیث میں امام بخاریؒ کی صحیح بخاری اور خود امام بخاریؒ کی عظمت و جلالت کو بیان کیا جاتا ہے۔

امام المسلمین ، امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاری ؒ اپنے زمانے میں حفظ و اتقان، معانی کتاب و سنت کے فہم، حافظے کی عمدگی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ انؒ کا اصل نام محمد، ولدیت اسماعیل اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کے والدِ ماجد جلیل القدر عالم اور محدث تھے۔ انہیں امام مالکؒ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپ ؒ محمد اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزیہ ہیں۔ علامہ ابن حجر ؒنے بروزیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ آتش پرست تھے۔ اس سے آپ کا فارسی النسل ہونا ظاہر ہے۔

آپ کے پَردادا مغیرہ، حاکم بخارا، یمان الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد شہر ِ بخارا میں سکونت پذیر ہوئے۔ اسی وجہ سے امام بخاری کو الجعفی البخاری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والدِ ماجد اسماعیل اکابرِ محدثین میں سے ہیں۔امّت میں یہ شرف کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ، بیٹے دونوں محدث ہوں۔ امام بخاریؒ بخارا میں پیدا ہوئے۔ کم سِنی ہی میں والد ماجد داغِ مفارقت دے گئے، تو آپ کی تربیت کی ذمّے داری والدہ محترمہ کے سر پر آگئی، جو نہایت ہی عبادت گزار اور شب بیدار خاتون تھیں۔

والدین کی علمی شان دین داری کے پیشِ نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاریؒ کی تعلیم و تربیت کس انداز سے ہوئی ہوگی۔ امام بخاری ؒکو بچپن ہی سے قرآن و حدیث سے بے انتہا شغف تھا۔ احادیث کے حوالے سے ان کی عرق ریزی اور یادداشت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ، گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کی تخلیق صرف حدیث ِ رسول ﷺ ہی کےلیے کی ہے۔ گیارہ برس کی عمر میں آپ کو متنِ حدیث اور اس کی سند پر پورا عبور حاصل ہوچکا تھا۔ جب کہ سولہ سال کی عمر میں عبد اللہ بن مبارک اور وکیع کے مجموعۂ احادیث کی تمام حدیثیں زبانی یاد ہوگئیں۔

امام بخاری نےوالدہ محترمہ کی اجازت سے تحصیل علم کےلیے مکّے میں سکونت اختیار کرلی اور وہاں دو برس تک ظاہری اور باطنی کمالاتِ علمی حاصل کیے۔ مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے مشاہیر محدثین کرام، مطرف بن عبداللہ، ابراہیم بن منذر، ابوثابت محمد بن عبیداللہ اور ابراہیم بن حمزہ جیسے بزرگوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ بلادِ حجاز میں چھے برس قیام کے بعد آپ نے بصرہ کا رخ فرمایا اور پھر کوفہ تشریف لے گئے۔

بغداد چوںکہ عباسی حکومت کا پایۂ تخت رہا ہے۔ اس لیے اسے علوم و فنون کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ جیّداکابر ِ عصر بغداد میں جمع تھے۔ اس لیے امام بخاری ؒنے متعدد بار وہاں کا سفر فرمایا۔ وہاں کے مشائخِ حدیث میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا نام خصوصیت کا حامل ہے۔ امام بخاریؒ نے روایتِ حدیث کے سلسلے میں دور دراز کے شہروں کا بھی سفر کیا۔ طلبِ حدیث کے لیے مصر، شام، بصرہ حجاز مقدّس، کوفہ اور بغداد بھی گئے۔ آپ کو جہاں سے بھی روایت ملتی اخذ کرلیتے۔

امام بخاریؒ نے صرف اپنی ذاتی تحقیق پر ہی اکتفاء نہیں کیا ،بلکہ اس زمانے کے بلند پایہ محدثین عظام اور ائمہ کرام سے اس کی صحت کاملہ کا مزیدیقین محکم اور تصدیق کرواتے۔ لہٰذا ’’ھدی الساری‘‘ میں امام ابو جعفر عقیلی فرماتے ہیں،’’امام بخاری نے صحیح بخاری لکھ کر امام علی بن المدینی، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اوردیگر محدثین کرام کو پیش کیا، تو سب نے اسے پسند کیا اور علاوہ چار احادیث کے، اس کے درست اور مستند ہونے کی شہادت دی۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ ان چار احادیث کے بارے میں امام بخاریؒ کی بات ہی درست ہے۔

اس میں سب احادیث صحیح ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ، منہاج السنہ میں فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ اور امام مسلم سے پہلے اور بعد کے جیّد نقادِ ائمہ نے بخاری و مسلم کی احادیث کو پرکھا اور جانچا ہے اور بے شمار لوگوں نے انہیں روایت کیا ہے۔ لہٰذا کسی حدیث کے روایت اور صحیح کہنے میں امام بخاری اور امام مسلم اکیلے نہ رہے، بلکہ پوری امّت کے علمائے محدثین، متقدمین اور متاخرین نے ان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’امام بخاری اور امام مسلم کی تمام احادیث کی صحت، تصدیق اورتلقی بالقبول پر تمام علمائے محدثین کا اتفاق ہے اور اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں۔

امام بدر الدین عینی حنفی، عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید کے بعد بخاری و مسلم سے زیادہ صحیح کتاب کوئی نہیں ہے۔ مقدمہ نووی میں امام نووی فرماتے ہیں، ’’تمام علمائے امّت اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتابیں بخاری و مسلم ہیں اور امّت نے انہیں شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ بلاشبہ، جب کبھی اختلاف ہوگا، تو بخاری و مسلم کی روایت محض اس لیے قوی تر اور مقدم سمجھی جائیں گی کہ وہ صحیحین کی روایت ہیں۔ (جاری ہے)