رمضانُ المبارک کے انوار و ثمرات اور انسانی زندگی پر ’’روزہ‘‘ کے اثرات

March 10, 2023

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اصطلاح شریعت میں کسی مومن کا صبح کی سفیدی (صبح صادق یا طلوع فجر ) کے نمودار ہونے سے رات کی تاریکی یا سیاہی کے ظاہر ہونے یعنی غروب آفتاب تک اپنے ارادے یا نیت سے کھانے پینے اور ہر نفسانی خواہش سے رک جانے یا ترک کر دینے کا نام ’’صوم ‘‘ یا ’’روزہ‘‘ ہے۔ فریضۂ صوم نماز کے بعد فرض ہونے والی دوسری عبادت ہے ،جو2ھ میں مسلمانوں پر فرض ہوئی اور اس کے لئے رمضان کا مہینہ اس لئے تجویز ہوا کہ یہی وہ مقدس مہینہ ہے جس کی ایک رات میں رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ،اس میں اسی طرح دن گزارنے کا حکم ہوا جس طرح رسول اللہﷺ نے نبوت ملنے اور وحی آنے سے پہلے اپنے دن غازِ حرا میں گزارے تھے یعنی دن کو کھانے پینے سے پرہیز اور رات کو اللہ کی عبادت میں قیام۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت پانے والوں کے لئے روشن دلائل اور حق کو باطل سے الگ کر دینے والا قانون ہے۔ لہٰذا تم میں سے جو بھی اس مہینے کو پالے تو وہ اس میں پورے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا مسافر تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پورے کرے، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہےاور تم پر تنگی نہیں چاہتا، تاکہ تم گنتی پوری کرلو، اور اللہ کی کبریائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا کی ،تاکہ تم اللہ کے شکر گزار بندے بن جاؤ ۔(سورۃالبقرہ 185:)

تاریخی طور پر روزہ ہر امت کے لئے فرض تھا۔ البتہ اس کی صورت و کیفیت اور احکام و پابندیاں جداگانہ تھیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم ؑ پر ہر مہینے کی 15,14,13کو روزہ فرض تھا۔ حضرت نوح ؑ ہمیشہ روزے دار رہتے، حضرت داؤد ؑ ایک دن روزہ رکھتے، ایک دن افطار فرماتے، یہودیوں پر عاشورہ اور ہر سنیچر کے علاوہ چند دن اور بھی روزے فرض تھے۔ حضرت عیسٰی ؑ ایک دن روزہ رکھتے اور دو دن افطار کرتے تھے۔ نصاریٰ یا عیسائیوں پر دراصل رمضان کے روزے فرض تھے، لیکن جب اُنہیں سخت گرمی اور شدید سردی کے روزوں میں دقت محسوس ہوئی تو انہوں نے احکام الہٰیہ میں تحریف و تنسیخ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ وہ موسم ربیع یعنی موسم بہار میں تیس کے بجائے پچاس روزے رکھیں گے۔

مسلمانوں کے لئے قرآن حکیم میں روزے کا حکم ان الفاظ میں نازل ہوا ’’اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے جاتے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے، تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔ (سورۃالبقرہ183:)آیات کا مفہوم یہی ہے کہ روزے داری کے حکم کو تم سختی ہر گز نہیں سمجھنا۔ اس سے تمہاری مشکلات حل ہوں گی، اللہ کا ارادہ و مقصد تمہیں تکلیف میں ڈالنے کا نہیں ، تم روزوں کی گنتی پوری کرو اور حکم خداوندی کی پابندی کرو ،اللہ کا نام بلند کرو، جب تم اس کی محبت کا شکر بجالاؤ گے تو وہ نعمت زیادہ کر دے گا۔ روزوں کے ذریعے اللہ کی ذات سے مومن کی ایک روحانی نسبت پیدا ہوجاتی ہے، روزے داری سے روح پاک ہوجائے گی، نفس کا تزکیہ ہو جائے، جسم گناہوں سے طاہر ہوجائے گا۔ معاشرت اور تمدن کی اصلاح ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد جب بندہ اللہ کو پکارے گا تو وہ پکار یقینا ًسنی جائے گی اور مستجاب ہوگی۔

سورۃ البقرہ کی آیاتِ صوم میں اللہ تعالیٰ نے روزے داری کے تین مقا صد بیان فرمائے ہیں۔ پہلا یہ کہ تم متقی یعنی اللہ کا حکم ماننے والے، اس کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنے والے اور اس کے حکم کی حفاظت کرنے والے بن جاؤ ، تمہارے اندر بدی کی قوتیں کمزور اور نابود ہوجائیں اور نیکی کی طاقتیں نشوونما پا کر پروان چڑھیں گی۔ کیونکہ انسان کی ہر ایک قوت و صلاحیت اپنے کمال تک پہنچنے کے لئے اس بات کی محتاج ہے کہ اُسے نشوونما دی جائے۔

روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم اطاعت و فرماں برداری کے لئے حلال چیزوں کو بھی ترک کردیا جاتا ہے۔ اس سے مومن بحیثیت انسان اپنے نفس پر حاکم بن کر اسے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچا سکتا ہے۔ اسلام نے ہر چیز کو ایک قاعدے اور ضابطے کے ماتحت رکھا ہے، وقت پر کھانا کھانا عین اسلام کے مطابق ہے۔ روزے میں اس ضابطے کو توڑنا یا اس کی نفی کرنا مقصد نہیں، بلکہ انسان کے اندر یہ قوت پیدا کرنا مقصد ہے کہ ان خواہشات حیوانی کو توڑاجائے جو کھانے پینے نفس کی خواہش پوری کرنے کی طرف راغب کرنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ انسان کے قبضۂ قدرت میں ہو اور ایسا نہ ہو کہ انسان ان کا محکوم اور غلام ہو کر رہ جائے۔ روزے نے حیوانی خواہشات پر قابو پانے کی عملی راہ بتائی ہے اور اس طرح انسان کو تقویٰ (یعنی ہر مضر اور نقصان دینے والی عادت، چیز یا طاقت سے محفوظ کردینے) کی راہ دکھائی ہے۔

دوسرا یہ کہ تم اللہ کے شکر گزار بندے بن جاؤ ۔ شکر کے معنی ہیں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا صحیح اور درست استعمال ، مطلب یہ کہ اللہ کی دی ہوئی طاقتیں ، اس کے عطا کردہ اعضاء و جوارح اس کی بخشش کی ہوئی وہ تمام چیزیں جو ہمارے لئے بنائی گئی ہیں، اُس کا حکم آجانے پر اس کے منشا کے مطابق استعمال ہوں۔

تیسرا یہ کہ انسان خطروں، بدیوں اور آزمائشوں سے بچ کر اور اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کر کے اپنی منزل مقصود پالیتا ہے۔ روزے دار اگر تقویٰ ، شکر گزاری اور رشد، تینوں نعمتوں کو حاصل کرلے تو یہ انسانی زندگی کی معراج ہے۔

متعدد احادیث مبارکہ میں روزے کی حقیقت اور فضائل تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ جن کا مجموعی مفہوم بھی وہی ہے جو قرآنی آیات کی وضاحت میں ہم نے اوپر بیان کیا۔ سب سے اہم بات جو رسول اللہ ﷺ نے روزے کے اوصاف اور فوائد میں بیان فرمائی وہ یہ کہ ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ ڈھال کے ذریعے انسان دشمن کے وار سے بچتا ہے۔ اسی طرح روزے دار شیطان اور نفس کے وار سے بچ جاتا ہے۔

ان روایات میں روزے میں جھوٹ، غیبت گالی، بدنظری۔ ایذارسانی سے بچنے یا انہیں ترک کر دینے کا حکم بھی ہے۔ یعنی روزے کی تکمیل کے لئے جہاں کھانا پینا ترک کر دینے کا حکم ہے، وہاں ان برائیوں سے بچنے کا بھی حکم ہے،جو انسان کی اخلاقی اور اجتماعی زندگی اثر ڈالتی ہیں۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے ’’ جس شخص نے جھوٹ بو لنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی پروا نہیں ‘‘۔ یعنی روزے سے قربِ الہٰی اور حصولِ رضائے الہٰی کا جو نتیجہ انسانی شخصیت پر مرتب ہونا چاہئے ،وہ نہیں ہوتا۔

روزہ ایک اجتماعی فریضہ ہے اور پوری امت پابند ہے کہ خلقِ خدا کی محبت اور اپنی اصلاح و پاکیزگی کے لئے سال میں پورا مہینہ ایک نظام اور پابندی کے ساتھ روزے رکھے ۔ اس نظام کے عملی نتائج بڑے حیرت انگیز ہو سکتے ہیں اور جب تک مسلمانوں میں ملی نظام قائم رہا، دنیانے ان نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ قرآنی احکام اور ارشاداتِ نبوی ﷺ کو سامنے رکھیں تو رمضان المبارک میں امت کو اجتماعی صورت میں روحانی اور جسمانی لحاظ سے پاک کرنے اور غلبۂ دین حق کی جدوجہد کی تیاری کے لئے مستعد رکھنے کی ساری صورتیں موجودہیں۔