تقسیمِ ترکہ کا ایک مسئلہ

March 10, 2023

تفہیم المسائل

سوال: مرحوم کے ورثاء میں صرف ایک بیوہ اور ایک بیٹی ہے ، مرحوم کے والدین پہلے فوت ہوچکے تھے ، نہ کوئی بھائی ہے اور نہ بہن اورکوئی ایسا رشتے دار نہیں ،جو وارث بن سکتا ہو، اس صورت میں ترکے کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟

جواب:اگر سائل کا بیان درست ہے اور مُتوفّٰی کی بیوہ اور بیٹی کے سوا کوئی اور وارث نہیں ہے ،جسے ترکے سے حصہ مل سکتاہو ،تواصولِ وراثت کے قوانین کے تحت مُتوفّٰی کی بیوہ کو کل ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:’’ پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہوتو بیویوں کے لیے آٹھواں حصہ ہے ،(سورۃ النساء:12)‘‘۔ اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو ،تو اُسے کل ترکے کا نصف ملے گا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’ اور اگر(میت کی) ایک لڑکی ہوتو اس کے لیے (کل ترکے کا) آدھا حصہ ہے، (سورۃالنساء:11)‘‘۔صورتِ مسئولہ میں کل ترکے سے آٹھواں بیوہ کو دیا جائے گا اور بقیہ تمام ترکہ بیٹی کو ملے گا۔

کل ترکے کا نصف بطور ذوی الفروض اور بقیہ ترکہ کوئی دوسرا وارث نہ ہونے کے سبب رَد کے طور پر بیٹی کو ملے گا ۔ کیونکہ اصولِ وراثت کا قانون ’’مَنْ یُّرَدُّعَلَیْہِ‘‘ (یعنی جن پر ترکہ رَد کیا جاتا ہے) میں بیٹیاں شامل ہوتی ہیں ، جن پر ترکہ رَد نہیں کیاجاتا، اُنھیں ’’مَنْ لَّایُرَدُّ عَلَیْہِ‘‘کہاجاتا ہے۔ سراجی میں ہے : ترجمہ: ’’تیسری قسم : مَنْ یُرَدُّ عَلَیْہِ کے ایک فریق کے ساتھ مَنْ لَّایُرَدُّ عَلَیْہِ کا ہونا ہے، پس مَنْ لَّایُرَدُّ عَلَیْہِ کے اقل مخرج سے ان کے حصے دےدو،(ص:57)‘‘۔