چاند، محبت اور امید سے خالی رات

March 20, 2023

ہم ایک طوفان کی زد میں آئے گھر کے مکین ہیں۔ نیند آتی ہے مگر جاگ رہے ہیں سرِ خواب۔ لرزتی دیواروں، تیز ہوا کے جھکڑوں میں وقفے وقفے سے سر پیٹتے کواڑوں اور بوسیدہ کڑیوں پر ٹکی چھت کے نیچے شاید یہ رات بھی گزار لی جاتی لیکن آئندہ صبح کے ویرانے کا امکان الگ سے خاک اڑا رہا ہے۔ ہمیں تو ان حالوں پہنچنے کے مکمل حقائق بھی معلوم نہیں، آگے کا منظر کیسے بیان کریں اور یہ حکایت کس سے کہیں۔ کسی چارہ ساز کی کوئی خبر نہیں۔ اس آفت کے سامنے مصحفیؔ نے ہاتھوں کی پناہ کر لی تھی۔ ہم مگر دست بریدہ ہیں، ہمارے لئے پرانی کتابیں اور رفتگاں کی یاد ہی ٹھکانہ ہے۔ اپنی زمین کے ایک گوہر گم کردہ سے بات شروع کرتے ہیں۔ 19 فروری 1936ءکوو پیدا ہونے والے محمد ادریس پاکستان کے بہترین انگریزی صحافیوں میں سے ایک تھے۔ وہی مشرق اور مغرب کے رنگوں میں رچی دھنک، خواب اور خاک کے درمیان کھنچی سانسوں کی کڑی کمان۔

29دسمبر 1988کو رخصت ہونے والے محمد ادریس کی ربع صدی پر محیط تحریروں کا انتخاب ظفر اقبال مرزا نے کیا تھا جس کا عنوان مارچ 1972 میں لکھے محمد ادریس کے ایک کالم کے آخری جملے سے مستعار لیا گیا تھا۔ The night was not loveless ۔ بظاہر مادھو لال حسین کے عرس کی تصویر کشی تھی لیکن ادریس نے بین السطور ہماری تاریخ کے ان دنوں کی اجتماعی رسوائی کا نوحہ سولی کی نوک پر رکھ دیا تھا۔ Loveless nights grow cold and bitter and long. Last night was not loveless ۔ امریکی ادیب سکاٹ فٹز جیرالڈ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں طلوع ہوا ۔ Jazz age اور امتناعِ مے نوشی کا عشرہ ختم ہوتے ہوتے غروب ہو گیا۔ جیرالڈ کی بیوی زیلڈا ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار تھی۔

خود جیرالڈ کثرت مے نوشی اور تخلیقی آزمائشوں کا شکار تھا۔ اس کیفیت میں اس نے 1934 میں ایک شاندار ناول لکھاTender is the night۔ یہ عنوان جان کیٹس کی بلبل کے نام شہرہ آفاق نظم کے چوتھے بند سے لیا گیا ہے لیکن کساد بازاری، خشک سالی اور دو عالمی جنگوں کے درمیان بے یقینی کو اپنی ذاتی زندگی پر منطبق کرتے ہوئے جیرالڈ غالباً یہ اشارہ دے رہا تھا کہ رات کے جادو میں بھید ہے۔ رات کی تاریکی ناگزیر طور پر خطرے کی علامت ہے، ان دیکھی معذوریاں ہوتی ہیں۔ ناقابل فہم دبائو ہوتے ہیں۔ اندھیرے میں اجتماعی سانجھ کا دائرہ انفرادی بقا تک محدود ہو جاتا ہے۔ سکاٹ جیرالڈ کا یہ ناول ہماری حالیہ تاریخ کے چند برسوں سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکہ ہی میں یوجین اونیل (Eugene O’Neill) نے اپنا بہترین ڈرامہ لکھا۔ A Long day‘s journey into night یہ میاں بیوی اور ان کے دو بیٹوں پر مشتمل مختصر ٹائرون (Tyrone) گھرانے کی ناکام زندگیوں کی کہانی ہے ۔ مرکزی خیال یہ ہے کہ محرومی، کوشش کی شکست اور فرد کی ٹوٹ پھوٹ کے سرے کہیں بہت دور معروض کے بڑے دائرے سے برآمد ہوتے ہیں لیکن افراد خانہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، باہم الجھ رہے ہیں۔ الزام تراشی کی آڑ میں اپنا دفاع ڈھونڈ رہے ہیں۔

کیا ہم بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی نہیں کر رہے۔ ہمیں ٹھیک سے معلوم ہے کہ ہماری معاشی بدحالی، سیاسی الجھائو، اداروں کے زوال اور قومی وقار میں انحطاط کے الجھائو کے سرے ہماری تاریخ میں بہت دور تک جاتے ہیں۔ بیرونی عوامل اسی صورت میں کسی ملک کے حالات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جب انہیں درون خانہ نقب زنی کے راستے فراہم کئے جائیں، ذاتی اور گروہی مفاد کے لئے قومی مفاد کو رہن رکھنے والے میسر ہوں۔ کیا قیامت ہے کہ شہریوں نے دستور کے عمرانی معاہدے میں اپنے تحفظ کے لئے ریاست کو رضاکارانہ طور پر جو اختیارات سونپے تھے، انہیں شہریوں کے خلاف مورچوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ عام شہری انصاف کے لئے عدلیہ ہی سے رجوع کر سکتا ہے کیونکہ عدالت کا حکم قوت نافذہ رکھتا ہے۔ عشرہ در عشرہ اس اعتماد کو بار بار ٹھیس پہنچائی گئی لیکن شہری یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ عدالت کا غیرمشروط احترام عوام کی حفاظت کے لئے ناگزیر فصیل ہے۔ اب اس فصیل کی برجیاں اور کنگرے ایک ایک کر کے منہدم ہو رہے ہیں۔ پولیس کا ادارہ عوام کا محافظ ہے لیکن اگر ان محافظوں کو ان دیکھے اشاروں پر مجبور مہروں کی طرح حرکت میں لایا جائے گا تو طاقتور افراد اور طبقات عوام پر چڑھ دوڑیں گے۔

عوام کے ووٹوں سے حکومت منتخب کرنے کا عمل عوام کی حاکمیت کا معتبر ترین ذریعہ ہے۔ گن جائیے کہ ہم نے اس عمل کو کب کب غبار آلود کیا۔ کبھی حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ نکال کر آپریشن بلٹز (Blitz) کی کچھ تفصیل بھی دیکھ لیجئے۔ یہ منصوبہ 7دسمبر 1970 ء کے انتخابات کے چند روز بعد تیار کیا گیا تھا اور اس کا واحد مقصد عوامی لیگ کو اقتدار سے محروم رکھنا تھا۔ اگر ہم جولائی 2018 ء کے انتخابات میں کھلی مداخلت نظر انداز بھی کر دیں تو یہ سوال پھر بھی دستک دیتا رہے گا کہ اسی انتخاب سے قائم ہونے والی پارلیمنٹ اس وقت عضو معطل کیوں ہے؟ آئی ایم ایف کے مطالبات بالآخر ہمارے دفاعی اثاثوں تک آن پہنچے۔ اسی کا مدت سے اندیشہ تھا۔ معاشی طور پر وجودی خطرے سے دوچار ریاست اپنی سلامتی کے تقاضے کیسے پورے کرے گی۔ ہم ایسے قلم گھسیٹ صحافی ’معاشی ترجیحات پر نظر ثانی‘ جیسی ملفوف تراکیب کی مدد سے جو عرض کرتے رہے، انہیں دریدہ دہنی قرار دیا گیا۔

اب زلمے خلیل زاد ہمارے داخلی معاملات پر سرعام رائے زنی کر رہا ہے۔ حکومت تو سوشل میڈیا کے پوسٹ ٹروتھ بیان کے مطابق ’درآمدہ‘ ہے۔ کیا Absolutely Not کا نعرہ لگانے والے بھی ثقل سماعت کا شکار ہو گئے ہیں۔ محمد ادریس حیات ہوتے تو درویش ان سے عرض کرتا کہ ہماری رات چاند اور محبت ہی سے محروم نہیں ہوئی، ہماری امید کے چراغ کی لو بھی دم توڑ رہی ہے۔