رمضان... ماہِ قرآن

March 31, 2023


مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارے جانے کے ساتھ ہی انسانیت کے ارتقاء کا سفر شروع ہوا، اس سفر کو روحانی معراج عطا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ نبوت جاری فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے بھٹکی ہوئی انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ احکامِ الٰہی کی روشنی میں ادا کرتے رہے۔ جب نبوت کے آخری تاج دار آنحضرت ﷺ کی بعثت ہوئی تو خدائی پیغامبری نے کامل صورت اختیار کرلی۔

ہر حکم الٰہی کامل و مکمل ٹھہرا، ہر عبادت خداوندی کی تکمیل ہوئی اور رضائے باری تعالیٰکا ہر طریقہ آخری قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر ہر نبی و رسول پر عبادت کا جو جو طریقہ نازل فرمایا تھا ، ’’نماز‘‘ اس کی مکمل صورت ہے۔ راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جو جو طریقہ ہر دور اور ہر زمانے میںرائج تھا، ’’زکوٰۃ‘‘ اس کی کامل تصویر ہے۔ ہر نبی کی شریعت میںروزے کا جو حکم نازل ہوا تھا، ’’ماہِ رمضان‘‘ اس کی انتہا ہے ، اور اپنے بندوں سے خطاب کا جو جو اسلوب خالق کائنات کا تھا، ’’قرآن کریم‘‘ اسے دوام عطا کرتا ہے۔

تمام انبیاء و رسل کی شریعتیں’’دین ِ اسلام‘‘ پر منتج ہوتی ہیںاور نبوت و رسالت کے تمام دریا خاتم النبیین حضور اکرم ﷺ کی ’’ختم نبوت‘‘ کے سمندر میں سما جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری دین اسلام اپنے آخری پیغمبر نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کو اپنی آخری کتاب ’’قرآن کریم‘‘ کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ قرآن کریم ماہِ رمضان المبارک میں نازل ہوا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن، ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی۔‘‘(سورۃ البقرہ: ۱۸۵)اور شبِ قدر میں نزولِ قرآن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: ’’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔‘‘ ’’ہم نے اس کو اتارا شبِ قدر میں۔‘‘(سورۃالقدر:۱)

ان دونوں آیات کریمہ سے نزول قرآن کا مہینہ بھی متعین ہو جاتا ہے اور شب بھی، چنانچہ نزول قرآن کا مہینہ رمضان ہے اور نزول قرآن کی شب لیلۃ القدر ہے۔

حضرت واثلہ ابن اسقعؓکی روایت میں ہے: ’’نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف رمضان کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے ، زبور اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی، اور قرآن کریم چوبیس رمضان کو نازل ہوا ہے۔‘‘ حضرت جابرؓ سے ابو یعلیٰ اور ابن مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ: ’’زبور رمضان کی بارہ تاریخ کو، تورات چھ رمضان کو، اور انجیل اٹھارہ رمضان کو نازل کی گئی ہے۔‘‘۔

نیز حضرت ابن عباسؓ کا قول یہ ہے: ’’لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر لیلۃالقدر میں پورا قرآن نازل کیا گیا اور وہاںسے وقتاً فوقتاً تئیس برس میںموقع بموقع تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا۔‘‘ ۔

حضرت ابن عباسؓ کا ایک قول یہ ہے کہ: ’’آسمانِ دنیا پر بیت المعمور میں قرآن شریف رکھ دیا گیا تھا اور لوحِ محفوظ سے بیت المعمور میں اتارا جانا رمضان میں ہوا، پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا، یہاںتک کہ تئیس سال میں پورا ہوا۔‘‘

حضرت مجاہدؒ ، ضحاکؒ اور حسن بن فضلؒ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ:’’شہر رمضان وہ ہے جس کے روزوں کی فرضیت کے بارے میں قرآن نازل ہوا، جیسے کہا کرتے ہیںکہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت زکوٰۃ کے بارہ میں نازل ہوئی ہے۔‘‘ (کشف الرحمٰن از سحبان الہند مولانا احمد سعید دھلویؒ)

مندرجہ بالا تصریحات سے ماہِرمضان میںنزول قرآن کا مسئلہ واضح ہوگیا۔ لہٰذا جب ’’رمضان، ماہِقرآن‘‘ ہے تو اب اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس مبارک مہینے میںتلاوتِ قرآن کا بہ کثرت اہتمام کیا جائے۔ قرآن کریم پڑھنا اور سننا یوں بھی بہت اونچا عمل ہے ، چنانچہ مختلف روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں حضرات سے الگ الگ مواقع پر فرمایا کہ: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ میں تم سے قرآن سنوں۔‘‘ چنانچہ دونوں احباب نے تقاضائے خداوندی اور رضائے پیغمبری سے تلاوتِ قرآن کریم فرمائی تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواںہوگئے۔

جب کہ ماہِ رمضان میں اس عمل کی اہمیت یوںبھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ نزولِ قرآن کی یاد تازہ کرنے کا مہینہ ہے، چنانچہ آپ ﷺ بھی اس مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو قرآن کریم سنتے سناتے تھے۔ ہمارے اکابر میں سے امام ابو حنیفہؒ رمضان میں اکسٹھ قرآن کریم مکمل فرماتے تھے ، ایک قرآن دن میں، ایک رات میں ، اور ایک تراویحمیںپڑھتے تھے۔ امام شافعیؒاور امام بخاریؒ کا بھی یہی معمول نقل کیا گیا ہے۔

ہمارے شیخ المشائخ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ تیس قرآن کریم مکمل فرماتے تھے، یعنی روز ایک قرآن کریم مکمل پڑھتے تھے۔ عوام الناس کو بھی روزانہ تلاوتِ قرآن کی عادت ڈال لینی چاہئے، رمضان میں کم از کم ایک سپارہ تو روزانہ ضرور پڑھ لے، یہ کم از کم درجہ ہے ، ورنہ جتنا زیادہ ہمت عطا ہو اتنا ہی زیادہ پڑھنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ ایک مسلمان کو جوں ہی ذرا سی فرصت ملے فوراًـ تلاوت قرآن میں مشغول ہو جائے۔

رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تلاوت سننے کا ایک اہم ذریعہ ’’نمازِ تراویح‘‘ بھی ہے، جس میں مکمل قرآن کریم پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر محدث دھلویؒ لکھتے ہیں:’’اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کا مہینہ اسی سے ٹھہرا کہ اس میں اترا قرآن، پس قرآن کی خدمت اس مہینے میںاول ہونی چاہئے۔ اسی سبب سے رسولِ خداﷺ نے تقید کیا تراویح کا ، اور آپ نے چند روز جماعت کروا کر پھر نہ کروائی کہ قرآن میں اشارات ہیں صریحفرض نہ ہوجائے۔ ‘‘

یعنی تراویح اس لئے فرض نہیں کی گئی کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت نہیں، البتہ یہ نماز باعث اجر و ثواب ضرور ہے، چنانچہ حدیث نبوی ؐہےکہـ: ’’جو شخص رمضان کی راتوں میں قیام کرے، ایمان و یقین کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے یہاں سے ثواب کی امید و یقین رکھتے ہوئے اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیںگے۔‘‘ یہاں ’’رمضان کی راتوں میں قیام‘‘ سے مراد تراویح ہی ہے۔ آپ ﷺ نے اس کی تاکید اس لئے نہیں فرمائی کہ کہیں یہفرض نہ ہوجائے ، البتہ اپنے عمل سے چند روز ادا فرماکر اس پر اپنی ’’سنت‘‘ ہونے کی مہر ضرور لگادی۔

آپﷺ کے بعد صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کی منشا کو سمجھتے ہوئے اس کے سنت موکدہ ہونے پر اجماع و اتفاق کرلیا اور امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے مسجد میں ایک امام کے پیچھے پورے رمضان تراویح پڑھنے کے لئے امت کو کھڑا کردیا۔ امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جب کوفہ آئے اور ادھر سے رمضان شروع ہوگیا تو مسجدوںمیں تراویح کی جماعتوں کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’عمرؓ! اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو اس طرح منور کرے، جس طرح کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو منور کردیا۔‘‘ (معارفِنبوی، ج:۲، ص:۳۲۴) غرض یہ کہ نماز تراویح ماہِ رمضان میں اہتمام قرآن کی ایک احسن صورت ہے، اس کے علاوہ بھی تلاوت قرآن کریم کا اہتمام ہم سب کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان سمیت زندگی کے ہر رمضان کی قدر دانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور قرآن کریم کے ساتھ ہمارے تعلق کو مضبوط تر فرما دے۔( آمین)