سرطان کے علاج میں نئی حوصلہ افزا پیشرفت

April 27, 2023

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کینسر سب سے تیزی سے پھیلنے والا مرض بن چکا ہے، دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں سے ہر آٹھویں کی وجہ کینسر ہے اور یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اورملیریا سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا کہ 2030ء تک یہ تعداد دگنی ہوجائے گی۔ کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوںدنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غریب اور ترقی پذیر ممالک میں 70فیصد اموات کینسر کے باعث ہوتی ہیں۔

کینسر سے بچائوکے لیے کم آمدنی والے ممالک کے پاس30فیصدسے بھی کم وسائل ہیں۔ ورلڈ کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 20ہزار سے زائد افراد الکوحل استعمال کرنے کی وجہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کینسر پر تحقیق، علاج و معالجہ اور سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میںدنیا بھر میںسالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔

امریکی محققین نےکینسر کی31اقسام کا تجزیہ کیا جن میں سے9اقسام کو موروثی کہا جاسکتا ہے،جو والدین سے منتقل ہوتی ہیں۔ کینسر سے متعلق تحقیق کرنے والی بین الاقوامی ایجنسی IARCکے اندازے کے مطابق دنیا میں 5 میں سے 1شخص کو کینسر ہوتا ہے جبکہ 8 میں سے 1 مَرد اور 11میں سے ایک خاتون اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ نئے تخمینے بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں 5کروڑ سے زائد افراد کینسر کی تشخیص کے بعد سے اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

سرطان یا کینسر کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پائے جانے والے امراض میں ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کے علاج میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے۔ کینسر کے علاج میں ہونے والی جدید طبی پیشرفت کے حوالے سے، ماہرین کا سب سے بڑا اجتماع ہر سال امریکی ریاست شکاگو میں ہوتا ہے، جہاںماہرین کینسر کی تشخیص اور علاج میں ہونے والی پیشرفت سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔ یہ اجتماع امریکن سوسائٹی آف کلینکل آنکالوجی کے تحت ہوتا ہے۔

سرطان کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے تازہ پیشرفت میں سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ قدیم وائرس کی ایسی باقیات جنھوں نے لاکھوں سال انسانی ڈی این اے کے اندر چھپ کر گزارے ہیں، انسانی جسم کو سرطان سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

فرانس کرک انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ ان قدیم وائرس کی غیر فعال باقیات اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں جب سرطان کے خلیے بے قابو ہو جاتے ہیں۔ غیر ارادی طور پر اس سے انسان کے جسم میں موجود مدافعتی نظام کو مخصوص سرطان کو ہدف بنانے اور اس پر حملہ آور ہونے میں مدد ملتی ہے۔

تحقیقی ٹیم اس دریافت کی مدد سے ایسی ویکسین تیار کرنا چاہتی ہے جس سے سرطان کا علاج ممکن ہو سکے یا پھر سرطان سے بچا جا سکے۔

محققین نے پھیپھڑوں کے سرطان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور مدافعتی نظام کے ایک مخصوص حصے کے درمیان ایک رابطہ بھی جانچا جسے بی سیل کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سیل سرطان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ بی سیل انسانی جسم کا وہ حصہ ہوتے ہیں، جہاں اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور ان کو کسی بھی انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے کردار کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جیسا کہ کورونا کی وَبا۔ تاہم، یہ بی سیل پھیپھڑوں کے سرطان سے متاثرہ خلیوں میں کیا کر رہے تھے، یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا۔ چند پیچیدہ تجربات کی مدد سے معلوم ہوا کہ وہ وائرس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پروفیسر جولیئن ڈاون ورڈ فرانسس کرک انسٹیٹیوٹ میں ایسوسی ایٹ ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’معلوم ہوا کہ یہ اینٹی باڈیز غیر جسمانی ریٹرو وائرس کی باقیات کی نشان دہی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔‘

’ریٹرو وائرس چالاکی سے اپنی جینیاتی ہدایات کی ایک کاپی انسانی جسم میں چھوڑ دیتی ہیں۔ انسانی ڈی این اے کا آٹھ فیصد حصہ ایسی ہی وائرل اقسام پر مشتمل ہوتا ہے۔‘ ان میں سے چند ریٹرو وائرس کروڑوں سال قبل انسان کے جینیاتی کوڈ کا مستقل حصہ بن گئے تھے جبکہ چند شاید ہزاروں سال قبل انسانی ڈی این اے میں داخل ہوئے ہوں گے۔ ان بیرونی جینیاتی ہدایات میں سے چند وقت کے ساتھ انسانی خلیوں میں مددگار مقاصد کے لیے بھی کام آتی ہیں لیکن چند کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے۔

تاہم کسی سرطان کے خلیے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے جب یہ بےقابو ہو کر بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے میں ان قدیم وائرس پر جسمانی کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ یہ جینیاتی ہدایات مکمل وائرس تیار کرنے کی صلاحیت تو کھو چکی ہوتی ہیں تاہم یہ ایسے ٹکڑے بنا سکتی ہیں جن سے انسانی مدافعتی نظام وائرل خطرے کو بھانپ جاتا ہے۔

پروفیسر کیسیوٹس بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر میں ریٹرو وائرل امیونالوجی کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’مدافعتی نظام یہ دھوکہ کھاتا ہے کہ سرطان کے خلیوں میں انفیکشن ہے اور یہ وائرس کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ایک طرح کا الارم ہے‘۔ اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کے دوسرے حصوں کو مدد کے لیے جگاتی ہیں جو انفیکشن سے متاثرہ خلیوں کو تباہ کرتے ہیں یعنی مدافعتی نظام ایک وائرس کو روکنے کی کوشش میں سرطان کے خلیوں کو نشانہ بناتا ہے۔

پروفیسر کیسیوٹس کہتے ہیں کہ، ’ریٹرووائرس کا یہ نیا کردار ہے کیوں کہ ماضی میں شاید ان کی وجہ سے ہمارے آباواجداد میں سرطان پھیلا ہو گا جس کی وجہ سے ہی یہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنے لیکن اب یہ ہمیں بچا رہے ہیں جو حیران کن ہے۔‘

جرنل نیچر میں چھپنے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام قدرتی طور پر ہوتا ہے لیکن اب محققین چاہتے ہیں کہ اس اثر کو ویکسین کی شکل میں استعمال کیا جائے تاکہ جسم کو بیرونی ریٹرو وائرس کی نشان دہی کرنا سکھایا جا سکے۔ پروفیسر کیسیوٹس کہتے ہیں کہ ’اگر ہم ایسا کر پائے تو پھر صرف علاج کرنے والی ویکسین ہی نہیں، سرطان کی بیماری سے بچانے والی ویکسین بھی ممکن ہو پائے گی۔‘

کینسر ریسرچ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کلیئر براون کا کہنا ہے کہ، ’ہم سب کے جینیات میں قدیم ڈی این اے موجود ہے جو آباواجداد سے ہمارے پاس آیا اور اس حیران کن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈی این اے سرطان کے خلاف کیا کردار ادا کرتا ہے اور کیسے ہمارا مدافعتی نظام سرطان کے خلیوں کو پہچان اور تباہ کر سکتا ہے۔‘ ان کا مزیدکہنا تھا کہ، ’کینسر کی ویکسین تیار کرنے کے لیے مزید تحقیق درکار ہو گی لیکن اس نئی تحقیق کی مدد سے کینسر کا علاج ایک دن ممکن ہو سکے گا۔‘