پٹرولیم اور گیس کی دنیا میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

May 02, 2023

یہ ڈھاک کا قصبہ ہے۔ ساحل مکران سے 60میل شمال، پہاڑی سلسلوں کے دامن میں آباد، تھوڑے سے کچے پکے مکان، چند کھجور کے درخت اور اُڑتی ریت۔1954کی ایک گرم صبح ہے، یہاں آج کچھ ہلچل سی ہے۔ گاؤں والے کچھ فاصلے پر کھلے میدان میں ٹرک پر ٹرک آتے دیکھ رہے ہیں جن پر بھاری مشینری لدی ہیں۔ خاکی پتلون اور لوہے کے ہیٹ لگائے کئی افراد اترتے ہیں جن میں دو گورے بھی شامل ہیں ایک تیل کی تلاش کرنے والی کمپنی کا افسر ہے اور دوسرا ڈرلنگ کمپنی کا انجینئر، جسے کنواں کھودنے کا ٹھیکہ ملا ہے۔ ڈھاک سے کئی جوان مزدوری کیلئے درکار ہیں۔

دیکھتے دیکھتے لوہے کا ایک ٹاور کھڑا ہو جاتا ہے جس سے ایک تیس فٹ لمبا پائپ جھول رہا ہے۔ ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ مشینیں چل پڑتی ہیں اور لوہے کا پائپ چٹانوں کو کاٹتے ہوئے زمین میں داخل ہو جاتا ہے۔ مزدور دوڑتے ہیں اور ایک دوسرا پائپ ٹاور میں لٹکا دیتے ہیں۔ کٹائی کرتے ہوئے یہ بھی زمین کے اندر چلاجاتا ہے۔ پھر تیسرا،چوتھا ڈرلنگ کمپنی کا عملہ نہ دن دیکھتا ہےنہ رات، چوبیس گھنٹے کھدائی کا عمل جاری رہتا ہے اور دن پر دن گزرتے جاتے ہیں۔

اب کنواں چار ہزار فٹ کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے لیکن آگے بڑھنے میں بڑی دشواری پیش آرہی ہے۔ چٹانوں میں پانی کا پریشر اتنا زیادہ ہے کہ پائپ گھومتا ہوا آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن پانی اسے واپس دھکیل دیتا ہے یہ کشمکش کئی دن جاری رہتی ہے، آخر کار پانی کی قوت ہی غالب آجاتی ہے اور پائپ زمین سے باہر نکل آتے ہیں۔ ٹاور بھی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ پاتا اور پسپائی اختیارکرنا پڑتی ہے۔

یہ کنواں ابھی آدھا ڈرل ہوا تھا کیونکہ تیل کی کمپنی کے ارضیات دانوں کا خیال تھاکہ آٹھ ہزار فٹ کی گہرائی والی چٹانوں کے ملنے کا امکان ہے،خیر کوئی بات نہیں۔ ڈرلنگ کمپنی کو کچھ فاصلے پر ایک دوسرے مقام پر نئے کنویں کا ٹھیکہ مل جاتا ہے۔ اب کے ڈرلنگ پوری احتیاط سے ہو رہی ہے۔ چار ہزار فٹ کی گہرائی بھی گزر گئی۔ پریشر کنٹرول کی ہر تدبیر آزمائی جارہی ہے، کئی مہینوں کی محنت کے بعد کنواں آٹھ ہزار فٹ کی گہرائی تک جا پہنچا۔

ڈرلنگ کمپنی کی یہ بڑی کامیابی تھی کہ نہایت مشکل حالات میں بھی مطلوبہ گہرائی تک رسائی ہوگئی۔ اب اس کا جشن منایا جائے گا۔ دور پاس کے پٹواری، تحصیلدار اور ضلع کا اسسٹنٹ کمشنر سب مدعو ہیں اور علاقے کے معززین بھی ڈرلنگ کمپنی کا انجینئر خوشدلی سے استقبال کر رہا ہے،مٹھائی پیش کر رہاہے۔ دوسری طرف تیل کمپنی کا عملہ سر جوڑے بیٹھا ہے کہ آٹھ ہزار فٹ کی گہرائی تک تو پہنچ گئے لیکن تیل کے آثار تو کہیں نہیں۔

یہ ہے وہ کہانی جو ہم ساٹھ برسوں سے سنتے آرہے ہیں کہ مکران میں تیل نکل آیا تھا لیکن شاہ ایران کے کہنے پر کنواں بند کردیا گیا کہ ایران میں اونچائی پر واقع کنوئوں کا تیل بہہ کر ساحل مکران کے کنوئوں تک نہ پہنچ جائے۔ یہ کہانی گھڑنے والوں اور مٹھائی کھانے والوں کو یہ علم نہ تھا کہ تیل اونچائی سے نیچے کی طرف آنے کے بجائے اوپر کی طرف اُٹھتا ہے کیونکہ یہ پانی سے ہلکا ہے۔ اس کہانی کو شاہ ایران کی رخصتی کے بعد دم توڑ دینا چاہتے تھا لیکن خفیہ معاہدہ آج بھی خفیہ ہے اور کوئی نہیں بتاتا کہ اس قربانی کے بدلے شاہ نے پاکستان کو کیا آفر کی تھی۔

پٹر ولیم ایک جادوئی لفظ ہے جس ملک میں تیل نکل آئے اس کی صرف معیشت نہیں بدلتی ، معاشرت بھی بدل جاتی ہے۔ دماغی کیفیت بھی وہ نہیں رہتی اور سیاسی ساکھ میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کویت پر جب عراق نے قبضہ کیا تھا تو امریکی اسے چھڑانے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگئے، تب ایک یورپی سفیر نے کہا تھاکہ، اگر کویت میں تیل کے کنوئوں کے بجائے مالٹے کے باغات ہوتے تو امریکیوں کو اتنی ہی فکر ہوتی۔ کویت میں تیل 1938ء دریافت ہوا، سعودی عرب میں اس کے دو سال بعد پھر مشرق وسطیٰ کے ویرانوں میں بہار آگئی۔ مچھیروں کی بستیاں دنیا کے جدید ترین شہر بن گئے۔ لیکن ان سب سے بہت پہلے امریکہ میں تیل کی صنعت میں ترقی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ قدرتی وسائل کی بہتات اور انسانی صلاحیتوں کا درست استعمال امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنا گیا۔

چین ذرا اوپر سے جاگا۔ جاگ تو وہ ستر سال پہلے چکا تھا لیکن اس پر کمیونسٹ نظام کی غشی طاری رہی۔ اب تین دہائیوں سے اصل جاگ رہا ہے۔چین دنیا کی دوسری سپر پاور ہے لیکن یہ حیثیت برقرار رکھنے کیلئے تیل اور گیس کے ملکی ذخائر ضروری ہیں۔ 1993ء تک چائنا میں جتنا تیل نکلتا تھا وہ اس کی ضرورتیں پوری کر سکتا تھا۔ اس کے بعد کی تیزتر ترقی نے تیل کو پیچھے چھوڑ دیا اور اب وہ 40فیصد تیل سعودی عرب اور دیگر ذرائع سے امپورٹ کر رہا ہے،مگر چینی اس سے غافل نہیں، وہ آئے دن ایک نیا ذخیرہ دریافت کر لیتے ہیں کیونکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ ’’ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی علاقہ رسوبی چٹانوں سے بھرا ہو اور ان میں تیل یا گیس موجود نہ ہو۔

(World Atles of Oil and Gas Basins by Guoyu)

رسوبی چٹانیں کوئی اجنبی چیز نہیں، یہی ریتیلے پتھر، چونا پتھر اور بھربھری مٹی والی چٹانیں، جو آپ کے اردگرد ہرطرف بکھری ہوئی ہیں۔ پاکستان کا 80 فیصد رقبہ رسوبی چٹانوں سے بھرا ہے۔ یہ آپ کو سطح زمین پر بھی نظرآتی ہیں، طویل پہاڑی سلسلوں کی شکل میں جیسے کوہ سلیمان اور کوہ کیرتھر اور چھوٹی پہاڑیوں کی صورت میں بھی گلستان جوہر کی پہاڑیاں، یہ زیر زمین بھی واقع ہیں۔ بدین میں چھ ہزار فٹ کی گہرائی تک، خیر پور ، پندرہ ہزار فٹ اور مری پنڈی میں بیس ہزار فٹ پروفیسر گیو۔یو (Guoyu) کی زبان میں ایسا ہو نہیں سکتا کہ 8لاکھ مربع کلو میٹر والے ملک ہزاروں فیٹ موٹائی کی رسوبی چٹان موجود ہوں اور انہیں پٹرولیم نہ ملے۔

آئے دیکھتے ہیں کہ اس یقین کی وجہ کیا ہے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین کے شیردریا مون سون کے بعد ہر سال سیلابی ریلا لے کر سمندر میں داخل ہوتا ہے۔ پانی کے ساتھ کنکر پتھر ریت مٹی بھی پہنچتا ہے اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہی رسوب ہے آپ اسے گاد کہہ لیجئے اور جب ہرسال ریت مٹی کی ایک انچ تہہ بھی جمتی رہے تو سوچئے لاکھوں برس میں کتنے ہزار فٹ رسوب کی تہیں جمع ہو جائیں گی جو دبائو اور حرارت سے رسوبی چٹانوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اب یہ بھی تصور کیجئے کہ سال سمندر یا اس سے آگے اتھلے سمندر میں تازہ مٹی کی تہیں بچھی ہوں اور سورج کی کرنیں اس تک پہنچ رہی ہوں تو کیا پانی، ہوا، مٹی اور حرارت زندگی کو جنم نہیں دے گی۔

اتھلے سمندر حیوانی اورنباتاتی جانداروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اور یہ زندگی گزار کر مرتے بھی ہیں اور اگلے سال کا سیلابی ریلا ان کی باقیات کو دفن کردیتا ہے۔ جانداروں کی یہ باقیات وہ کائی ہو، سمندری گھاس ہو، خوردبینی جاندارہوں، رائی کے دانے کے برابر والے یا پھر سیپی اور گھونگھے ،یہ سب دفن ہونے کے بعد گلتے سڑتے ہیں اور ان کیمیائی مادوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن سے تیل اور گیس کشید ہوتا ہے۔ یہ عمل ہر سال پتلی سے پتلی مٹی کی بیٹھنے والی تہہ میں ہو رہاہے تو ہزاروں فٹ موٹی رسوبی چٹانوں میں کتنا پٹرولیم بنے گا۔

چٹانوں کے مساموں میں پٹرولیم یعنی تیل اور گیس کے ساتھ سمندر کے پانی کے قطرے بھی ہوتے ہیں چونکہ پٹرولیم پانی سے ہلکا ہے اس لئے زمین کی گہرائی سے سطح زمین کی طرف چل پڑتا ہے اور زمین پر پہنچ کرضائع ہونے لگتا ہے۔ اسے رسائو یا Secpage کہتے ہیں۔ یہ عموماً ایک تالاب یا جھیل کی شکل میں ہوتا ہے، جس کی تہہ میں سیاہ کولتار نظرآتا ہے اور پانی میں بھی تیل کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ مقامی لوگ ان تالابوں سے تیل اکٹھا کرکے چراغوں میں جلا لیتے ہیں۔ ایسے Secpage کرہ ارض پر ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور وطن عزیز میں پندرہ بیس مقامات پران کی نقشہ بندی کی گئی ہے، تو جتنا تیل اور گیس کسی بھی گڑھے (Basin) یاطاس میں بھری رسوبی چٹانوں میں بنا تھا اس کا ایک حصہ ضائع ہو جاتا ہے لیکن کوئی مقدار توان ہزاروں فٹ میں رہ گئی ہوگی ہمیں انہی کو تلاش کرناہوتا ہے۔

اسی معاملے کا دوسرا پہلو دیکھئے، تیل اور گیس گہرائی کی چٹانوں کے مساموں سے نکل کر اوپر کی طرف ہجرت کرتا ہے تو جب اسے بڑے مساموں والی چٹانوں سے واسطہ پڑتا ہے تو اسے آسانی سے اوپر آنے کا راستہ مل جاتا ہے لیکن اگر ایک ایسی تہہ راہ میں آجائے جن میں مسام ہی نہ ہوں یا بہت باریک ہوں تو یہ سفر رک جاتا ہے اور بغیر مسام والی چٹانوں کے نتیجے میں تیل جمع ہونے لگتا ہے، گویا تیل ٹریپ ہوگیا۔ ٹریپ کوآپ چوہے دان سمجھ لیں جہاں چوہا داخل تو ہو سکتا ہے نکل نہیں سکتا۔ لاکھوں سال کے عرصے میں اس ٹریپ میں کروڑوں بیرل تیل جمع ہوجاتا ہے۔ جب آپ سطح زمین سے تیل کاکنواں ڈرل کرتے ہیں تو ٹریپ کرنے والی چٹانوں سے جونہی ڈرل پائپ گزرتا ہے پوری قوت سے یہ جمع شدہ تیل کنویں کی تہہ سے اسی پائپ سے باہر نکل کر زمین پر بہنے لگتا ہے۔

ڈیڑھ سو سال سے قبل کی تلاش کا کام اسی فلسفے کے تحت ہو رہا ہے کہ وہ مقام تلاش کرو جہاں تیل ٹربپ ہوا ہے۔ آپ کسی آلے کے ذریعے دس ہزا ر فٹ نیچے موجود تیل کو نہیں دیکھ سکتے ہاں ٹریپ کرنے والی چٹانوں کو سیسمک سروے (Siesmic)کی مدد سے پہچانا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی طریقہ کار ہے۔ تلاش کرنے والی کمپنیاں جہاں رسوبی چٹانوں کی زیادہ گہرائی تک موجودگی دیکھتی ہیں وہاں سیسمک سروے کرتی ہیں اور اگر ٹریپ کی نشاندہی ہو جائے تو وہاں ڈرلنگ کے انتظامات کرتی ہیں۔ یہ دونوں کام بہت زیادہ سرمایہ مانگتے ہیں اور یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد تیل نہ ملے۔ ٹریپ کے نتیجے میں تیل کی بجائے صرف کھارا پانی ہو۔

اب آئیے پروفیسر گیو۔ یو کے اس دعوے کی طرف کہ جہاں رسوبی چٹانیں ہوں گی وہاں پٹرولیم ضرور ہوگا۔ پروفیسر صاحب ٹریپ کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی نگاہ کا مرکز صرف ٹریپ نہ ہو بلکہ آپ کی نظر ہزاروں یا لاکھوں مربع میل پر پھیلے طاس پرہو جو رسوبی چٹانوں سے بھرا ہے۔ پے درپے ناکام کنویں بھی یہ ثابت نہیں کرتے کہ اس طاس میں تیل نہیں، اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہماری کوششوں کا ٹارگٹ درست نہیں تھا یا یہ اس تلاش میں خوش قسمت ثابت نہیں ہورہے۔

اب جب قسمت کا ذکر آہی گیا ہے تو ذرا پیچھے مڑ کر سوئی گیس کی دریافت کو ذہنوں میں تازہ کرلیتے ہیں ۔ پاکستان کے قیام کو صرف چار سال ہوئے تھے، ایک برطانوی کمپنی برما آئل موجود تھی ،انہوں نے سروے کی مدد سے ڈیرہ بگٹی میں سوئی کے مقام کو ڈرلنگ کیلئے منتخب کیا۔ 10اکتوبر 1951ء کو ڈرلنگ کا آغاز ہوا اور چند مہینوں میں اس گہرائی تک پہنچ گئے جہاں ٹریپ اور اس کے نتیجے میں تیل متوقع تھا، مگر ہوا یہ کہ ٹارگٹ سے بھی کئی سوفٹ آگے تک کھدائی کرکے دیکھ لی لیکن تیل کا کوئی پتہ نہ تھا، البتہ گیس موجود تھی۔ اب آج سے ستر بہتر سال پہلے پاکستان تو کیا، دنیا میں گیس کا کوئی استعمال نہ تھا۔

عرب کے ریگستانوں سے تیل اُبل رہا تھا اور دو ڈالر فی بیرل دستیاب، اب آئیے پروفیسر گیو۔ یو کے اس دعوے کی طرف کہ جہاں رسوبی چٹانیں ہوں گی وہاں پٹرولیم ضرور ہوگا۔ پروفیسر صاحب ٹریپ کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی نگاہ کا مرکز صرف ٹریپ نہ ہو بلکہ آپ کی نظر ہزاروں یا لاکھوں مربع میل پر پھیلے طاس پر ہو جو رسوبی چٹانوں سے بھرا ہے۔ پے درپے ناکام کنویں بھی یہ ثابت نہیں کرتے کہ اس طاس میں تیل نہیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہماری کوششوں کا ٹارگٹ درست نہیں تھا یا ہم اس تلاش میں خوش قسمت ثابت نہیں ہو رہے۔

اب جب قسمت کا ذکر آہی گیا ہے تو ذرا پیچھے مڑ کر سوئی گیس کی دریافت کو ذہنوں میں تازہ کرلیتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کو صرف چار سال ہوئے تھے اور ایک برطانوی کمپنی برما آئل موجود تھی۔ انہوں نے سروے کی مدد سے ڈیرہ بگٹی میں سوئی کے مقام کوڈرلنگ کیلئے منتخب کیا۔ 10؍اکتوبر 1951ء ڈرلنگ کا آغاز ہوا اور چند مہینوں میں اس گہرائی تک پہنچ گئے جہاں ٹریپ اور اس کے نتیجے تیل متوقع تھا،مگر ہوا یہ کہ ٹارگٹ سے بھی کئی سو فٹ آگے تک کھدائی کرکے دیکھ لی لیکن تیل کا کوئی پتہ نہ تھا،البتہ گیس موجود تھی، آج سے ستر بہتر سال پہلے پاکستان تو کیا دنیا میں گیس کا کوئی استعمال نہ تھا۔ عرب کے ریگستانوں سے تیل اُبل رہا تھا اوردو ڈالر فی بیرل دستیاب تھا۔ گیس کو کون پوچھتا۔

غرض برماآئل کا عملہ اپنے سازوں سامان کے ساتھ ناکامی کا دُکھ لینے کراچی لوٹا، کوئی سال بھر بعد کسی کو خیال آیا کہ دیکھنا تو چاہئے کہ یہ گیس کا کتنا بڑا ذخیرہ ہے اگر چٹانوں کے مساموں میں دُوردُور تک اورگہرائی تک گیس بھری ہے تو کیوں نہ چار سو میل لمبی پائپ لائن سوئی سے کراچی تک بچھائی جائے، آخر کو کراچی سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں صنعتیں بھی ہیں ،جبکہ ملک میں نہ تیل ہے نہ کوئلہ اور یوں ناکامی کامیابی میں بدل گئی۔ پچاس سال تو سوئی کے ذخیرے نے پورے ملک کی ایندھن کی ضروریات کا آدھا بوجھ اکیلئے اٹھا یا،اس کے بعد چھوٹے چھوٹے مختلف مقامات پر گیس ملتی گئی اور سوئی پائپ لائن میں جوڑی جاتی رہی۔

سوئی سے بھلے وقتوں میں ایک ارب کیوبک فٹ گیس پیدا ہوتی تھی اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی کوئی 80 یا نوے چھوٹی بڑی فیلڈ سے ملا کر چار ارب سالانہ ہمارے پاس گیس ہوتی تھی جو ہماری ضرورتوں کے لئے کافی تھی۔ لیکن برا ہو لالچ کا، ذاتی مفادات کا ،کوتاہ نظری کا، چار ارب گیس جو صنعتوں کا پہیہ چلاتی تھی اور گھروں کا چولہا، اسے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دیا جانے لگا۔ تیل کی قیمتیں سو ڈالر اور اس سے بھی بڑھ کر جبکہ گیس ہماری اپنی گھر کی مرغی تھی، بے دردی سے جلائی جانے لگی۔

اس کے بعد کسی نابغہ روزگار کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس گیس کے اسٹیشن کھولے جائیں اور اسے کمپریسر کرکے، سلنڈروں میں بھر کر کاریں فراٹے بھریں۔ اس سے زیادہ ظالمانہ استعمال کیا ہو سکتا تھا۔ جتنی گیس ایک بھرے پُرے گھر کا مہینہ بھر چولہا جلاتی ہے۔ وہ ایک سوزوکی ایف ایکس میں تین دن میں دھواں بن جاتی ہے۔ نتیجہ گیس کی لوڈشیڈنگ قطرسے مہنگی، ایل این جی کی درآمد، عوامی غم وغصہ، بجلی پانی پہلے ناپید تھی اب چولہا کھولو تو گیس بھی نہیں۔

ہم بہت دور چلے گئے۔ آئیں واپس پٹرولیم کی چڑھتی اُترتی دنیا میں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی قیمتیں سو ڈالر سے بھی بڑھ کر ایک سو سیتالیس ڈالر جاپہنچتی ہیں اور کبھی چالیس ڈالر کا ایک بیرل بک رہا ہے۔ یہ طلب و رسد کا معاملہ ہے۔ اگر طلب بڑھتی ہے جیسا کہ 1990ء سے 2010ء تک، جب چین نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی (اور ہندوستان نے بھی) تو تیل کی طلب بہت بڑھ گئی۔ لیکن جب کئی نئے بڑے ذخیرے دریافت ہوتے ہیں تو سپلائی بڑھ جاتی ہے اور 2017ء سے 2020ء تک تیل 40ڈالر کا بکتا رہا۔

تیل کی قیمتوں میں ایک اور ہاتھ اس بات کا کہے کہ دنیا میں کتنا تیل باقی ہے۔ ستر کی دہائی میں معمرقذافی کا نعرہ یہی تھا کہ تیل دنیا میں بیسویں صدی کے آخر تک ختم ہو جائے گا تو ہم کم قیمت پر کیسے بیچ سکتے ہیں .1973ء میں دو ڈالر کا بکنے والا بیرل نو ڈالر کا ہوگیا۔ اور 1979ء میں چھتس ڈالر کا لیکن 2000ء آیا اور گزرگیا۔ 23سال مزید ہو چکے ہیں، کیا تیل کے ذخیرہ کا تخمینہ گھٹتا جا رہا ہے۔ کیا تیل کی پیداوار ہر سال پچھلے سال سے کم ہوتی جارہی ہے ایسا کچھ بھی نہیں۔ اس صدی کے آغاز پر نوے ملین بیرل روزانہ کی پیداوار تھی تو آج 110ملین ہے۔

یعنی اوسطاً ہر سال ایک ملین بیرل اضافی پیداوار ہمیں ملتی ہے۔ اب مغربی دنیا کے ماہرین کا خیال ہے کہ 2050ء تک تیل ختم ہو جائے گایا یوں کہئے کہ کنویں کی پیداوار اتنی گر جائے گی کہ تیل کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ لکین صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ترکمانستان میں گیس کا اتنا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جو قطر کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ برازیل کے سمندروں میں تین نئی پٹرولیم فیلڈزپائی گئی ہیں۔ موزمبیق میں 150TCF کا گیس کا ذخیرہ (خیال رہے کہ ہمارا سوئی فیلڈ 12ٹریلین مکعب فٹ TCFفٹ تھا) یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ روس اور چین اپنے ذخائر کے بارے میں درست اعدادوشمار تو یہ بتاتے لیکن چین خود کفالت کی طرف کیسے گامزن ہے اور روس دنیا کا سب سے بڑا آئل ایکسپورٹر کیونکر بن چکا ہے اور وہ بھی سستے داموں۔

چین کے ارضیات دانوں کے مطابق 2050 تو کیا 3000ء میں بھی تیل نہیں ختم ہونے والا۔ ہاں اس سے بہتر اور سستا ایندھن مل جائے تو اہمیت کم ہو جائے گی جس طرح تیل اور گیس کے باوجود کوئلے کی کانیں بدستور کام کر رہی ہیں۔ ہم خود تھر کے کوئلے سے بجلی بنارہے ہیں۔ تو تیل کے لئے پیش گوئیاں کرنا کہ آج ختم ہوا یا کل ،صرف کوتاہ نظری ہے۔

کرئہ ارض پر کوئی سات سو کے لگ بھگ (Sadimenbary Basins) ہیں،جن میں سے نصف پیداوار دے رہے اور نصف بانجھ کہلاتے ہیں۔ مغربی دنیا کے ماہرین اپنی سمت درست کریں اپنی کوشش میں ناکامی کو رسوبی چٹانوں کا بانجھ پن قراردینے سے باز رہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں نئی دریافتوں کاسلسلہ چل رہا ہے۔ دیکھتے دیکھتے کم و بیش ہر Basinپیداوار دینے لگے گا۔ تیل اور گیس کی فراوانی جاری رہے گی،ہا ں ماحولیات کی خرابی ایک علیحدہ موضوع ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ، تیل اور گیس کے سب سے زیادہ ذخائر کسی ملک میں ہیں۔ آپ کا خیال ہوگا کہ سعودی عرب لیکن اب کینیڈا سب سے زیادہ ذخیرہ والا ملک ہے۔ کینیڈا میں تیل دو شکل میں ملتا ہے۔ ایک تو یہی بہتا ہوا مانع تیل اور دوسرا چٹانوں کی مساموں میں بہتا ہوا گاڑھا تیل اگر گرم پانی کی دھار ان ریتیلی چٹانوں پر پھینک جائے تو تیل پگھل کر باہر نکل آئے گا اور بہنے لگے گا۔ لیکن کینیڈا ماحولیاتی پنڈتوں کی زد میں ہے ایک محدود مقدار سے زیادہ اسے نکالنے کی اجازت نہیں۔ ماحولیاتی مسائل نے کینیڈا کو ایک اور طرح سے جکڑا ہواہے۔

کینیڈا اپنا تیل امریکہ کے سوا کسی اور کو نہیں بیچ سکتا،کیونکہ ایک ہی پائپ لائن ہے جو امریکہ جاتی ہے۔ حکومت نے سرتوڑ کوشش کی وہ ایک اور پائپ لائن وینکوور کی بندرگاہ تک ڈالی ہے، تاکہ اس کی رسائی چین اور ہندوستان کی مارکیٹوں تک ہوجائے، مگر اس لائن کو ڈالنے کے لئے جنگلات کاٹنے پڑیں گے۔ ہزاروں میل طویل کھدائی کرنی ہوگی اور ان سب کی اجازت ماحولیاتی ادارے یا اقوام متحدہ کی قراردادوں نہیں دیتی۔

کینیڈا کی آئل سینڈ ایک غیر روایتی ذخیرہ ہے روایتی ذخیرے وہ ہیں جو کنویں سے مائع حالت میں نکلتے ہیں ہم نے اب تک جتنی گفتگو کی ہے وہ روایتی تیل کی ہے۔ غیر روایتی کا ذکر ابھی ہوا ہے،ایسے ذخیرے دنیا کے بیسویں ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، جہاں آئل شیل کے ذخیرے صوبہ سندھ میں گیارہ ہزار فٹ کی گہرائی پر ہیں۔ ان کو نکالنے کے لئے ہائی ٹیکنالوجی اور بھاری سرمایہ درکار ہے۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں، اس لئے فی الوقت ہمیں اسی تیل کو تلاش کرنا ہے جسے نکالنے کی صلاحیت ہم رکھتے ہیں۔

بیسویں صدی تیل کی صدی تھی۔ کیا معیشت کی سیاست، دوستیاں اور دشمنیاں بھی تیل کے گرد گھومتی تھیں۔ بھلا امریکہ اور سعودی عرب میں کیا مشترکہ قدریں تھیں جو اسی برس ایک دوسرے کے یار ِ غار رہے۔ پٹرولیم کی دنیا میں کہا جا رہا ہے کہ اکیسویں صدی گیس کی صدی ہوگی۔ گیس کے سب سے زیادہ ذخیرے روس میں پھر ایران اس کے بعد قطر اور اب چوتھے نمبر پر ترکمانستان ہے۔ روس نے گیس کی ایک پائپ لائن جرمنی سے ہوتے ہوئے یورپ کے ان ممالک تک ڈالی ہے، جہاں ایندھن کی قلت ہے،مگر یوکرائن کا قضیہ اٹھتے ہی یورپین یونین نے سب سے پہلے اس پائپ لائن کو بند کرکے روس کی اکانومی کودھچکا پہنچانے کی کوشش کی۔

روس نے جواباً تیل کی قیمت کم کرکے چین، ہندوستان (اور پاکستان) کو بھاری مقدار میں بیچ کر کے اپنا نقصان پورا کر لیا۔ قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے جو گیس کے ایک بہت بڑے ذخیرے پر بیٹھا ہے۔ اس نے اپنی گیس کی فروخت کے لئے پائپ لائن بچھانے کا کھڑاگ پالا ہی نہیں۔ وہ گیس کو نقطہ ٔ انجماد سے بھی 147ڈگری سینٹی گریڈ نیچے لے کرجار اوشن لائنر میں بھر دیتے ہیں اور جو آرڈر کرے اس کی بندرگاہ پہنچا دیتے ہیں اوردام کھرے کرلیتے ہیں۔

پاکستان بھی گیس کی پائپ لائن کاخواہاں ہے۔ آج سے چالیس سال قبل جب قطر میں گیس دریافت ہوئی تھی تو کریسنٹ پٹرولیم نامی ایک کمپنی ساحل مکران کے ساتھ ساتھ قطرسے کراچی تک پائپ لائن منصوبے پر سنجیدہ تھی۔ لیکن اس وقت پاکستان میں اپنی گیس وافر تھی اور اس پائپ لائن کو بمبئی تک لے جانے کا کٹھن سفر قابل عمل نظر نہ آتا تھا اس لئے اس منصوبے کوکاغذات کی تہوں میں ہی رہنے دیاگیا۔ دوسری کاوش ترکمانستان سے براستہ افغانستان اور پھر انڈیا ،اس لئے اس پروجیکٹ کو TAPI کا نام دیا گیا اور ایک امریکی کمپنی UNOCALنے اس کام کا بیڑا اٹھایا اورطالبان کے ایک وفد کو کمپنی ہیوسٹن میں اپنے ہیڈ کوارٹر لے گئی تاکہ انہیں اس کے فوائد سے آگاہ کیا جا سکے لیکن جب امریکہ بہادر افغانستان کو پتھرکے دورمیں دھکیلنے پر تل گیا تو اس پائپ لائن کو بھی طاق پر رکھ دینا پڑا۔ تیسری کوشش ایران سے پائپ لائن بلوچستان کے ریگستانوں سے گزار کر خضدار اور وہاں سے کراچی اس کے آگے معاملہ ’’گوئم مشکل دگرنہ گویم مشکل‘‘والا ہے۔ اس لئے اس منصوبے کی ناکامی کی تفصیل جانے دیجئے۔

پاکستان کو گیس امپورٹ کرنا کیوں ضروری ہے چاہے وہ پائپ لائن بچھا کر ہو یا LNGکے ٹینکروں سے وہ اس لئے کہ ایک لاکھ کلو میٹر سے زیادہ پائپ لائنیں ملک بھر کے شہروں، قصبوں اور دیہات تک بچھی ہوئی ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا پائپ لائنوں کا جا ل ہے جو گھروں کو قدرتی گیس پہنچاتا ہے۔ اب اگر ہمارے اپنے کنوئوں سے گیس ناکافی پڑرہی ہے اور ہم امپورٹ بھی نہ کریں تو کیا پائپ لائنوں کو زنگ لگنے کے لئے چھوڑ دیں اورکوئلے لکڑی اور اُپلوں پر واپس چلے جائیں ۔ ہمیں یا تو ایکسپلوریشن تیزکرنا ہوگی یا پھر ایل این جی کے ٹینکر جس قیمت پر بھی ملیں لینا ہوگا۔

ہم پھر اس نکتے پر واپس آگئے کہ پاکستان میں تیل یا گیس کے نئے ذخائر کیوں نہیں دریافت ہو رہےیا ہم سوئی جتنا بڑا دوسرا ذخیرہ تلاش کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔ کیا یہ ماننے والی بات ہے کہ لاکھوں مربع میل کا انڈس بیسن ایک سوئی کو جنم دینے کے بعد تھکان کا شکار ہوگیا۔ کہا جا سکتاہے کہ اس کی وجہ سرمائے کی کمی ہے۔ تیل کی تلاش ایک ہائی رسک بزنس ہے ہمارا سرمایہ دار اس میں جلدی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ جب تک ہائوسنگ اسکیموں کا کاروبار پھل پھول رہا ہے کسی دوسرے کا م کی کیا ضرورت ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں بے شک سرمایہ لاسکتی ہیں۔ لیکن ہماری امن وامان کی صورت اور بدلتی حکومتوں کی پھرتیاں اور پالیسی کا تسلسل نہ ہونا آڑے آجاتا ہے۔

تیل کا کنواں کھودنا ایک مہنگا سودا ہے اس پر مستزاد یہ کہ جتنا خرچہ کھدائی پرآتاہے،اتنا ہی کنویں اور عملے کی حفاظت پر سمندروں میں کنواں کھودنا خشکی کے کنویں سے چار گنا زیادہ مہنگا ہوتا ہے تب بھی ہم ا یک کنواں کیکڑا کے نام سے گہرے پانیوں میں کھودنے پر تیار ہوگئے۔ اٹلی کی ایک کمپنی نے ہماری دو قومی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کھودنے کا پلان بنایا ارضیائی عوامل اتنے ساز گار تھے کہ امریکہ کی سب سے بڑی تیل تلاش کرنے والی کمپنی نے خود شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ کنواں کراچی سے ڈھائی سو میل دور انتہائی گہرے پانی میں اٹھارہ ہزار فٹ تک کھودا گیا لیکن کامیابی ہمارے حصے میں نہ آئی اور ایک بڑا جھٹکا لگا لیکن تیل کی تلاش اسی طرح ہوتی ہے۔ ہم نے اب تک اپنے سمندر میں اٹھارہ کنویں کھودے ہیں جبکہ انڈیاکو تینتالیس کنویں کھودنے پر کامیابی ملی۔ لیبیا کو اٹھاون جبکہ ناروے اٹھہتر ویں کنویں میں تیل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔

دنیا بھرمیں اب جو نئے ذخیرے دریافت ہو رہے ہیں وہ بیشتر سمندروں میں ہیں اور ہمارے سمندرمیں رسوبی چٹانوں کی تہیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ان میں تیل کب بنا اور کہاں ٹریپ ہوا، یہ بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے لیکن یہ ملکوں ملکوں انجام پا چکا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔