ماہرین تعلیم اور اساتذہ سے گزارش

June 10, 2023

تعلیم کی صورت ِحال آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان کے قیام کو 75 سال برس گزر گئے لیکن ہم اب تک ایک قوم بن سکے اور نہ ہی تعلیم پر توجہ دے سکے آج تک ان ہی سوالوں کے گرد اُلجھے ہوئے ہیں کہ ہمارا فلسفہ تعلیم آخر ہے کیا اورہونا کیسا چاہیے۔ تعلیم عام کرنے کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ اشخاص کی تعداد کم کیوں ہے ؟

ذیل میں چند سوالات ہیں، جن کے جوابات ماہرین تعلیم اور اساتذہ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں۔

* کیا ہمارا موجودہ نظام تعلیم کسی مخصوص تصور کےتابع ہے؟ اگر نہیں تو یہ تصور کیا ہونا چاہیے ؟

* رائج الوقت نصاب میں کیسی اور کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے ؟

* درس گاہوں میں تعلیمی نظم وضبط کی مجموعی صورت ِحال کن اقدامات کی متقاضی ہے؟

* کیا کسی تعلیمی نصب العین کا تعین کرسکتے ہیں؟ کسی نظام کا خاکہ ڈھال سکتے ہیں یا کسی یکساں نصاب کی تشکیل کرسکتے ہیں ؟

* خواندگی کی گھٹتی ہوئی شر ح پر کس طر ح قابو پایا جاسکتا ہے، اسے بڑھانے کے لیے فوری طور پر کن اقدامات کی ضرورت ہے ؟

* طلباء میں بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی اور تمدنی تہی دستی پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے ؟

* اُستاد اور شاگرد کے درمیان رشد وہدایت کے رشتے کو کس طرح استوار کیا جاسکتا ہے ؟

ہم چاہتے ہیں ان سوالات کے جوابات آپ ہمیں دیں ان پر بحث ہو اور بہتری کے لیے کچھ تجاویز سامنے آئیں۔ آپ کے پیشہ ورانہ تجربے کی روشنی میں بہت ممکن ہے کہ تعلیم کے میدان میں بہتری آئے۔ اپنے مضامین اسی صفحے پر درج پتے پر ارسال یا واٹس ایپ پر بھیج دیں۔ ہمیں آپ کی تحاریر کا انتظار رہے گا،جو اسی صفحے کی زینت بنیں گی۔

معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی

پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔

ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید

میگزین ایڈیٹر، روزنامہ جنگ، اخبار منزل

آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی

ای میل: razia.fareedjanggroup.com.pk