آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم اور تحقیق و جستجو کی اہمیت ہر ذی شعور پر واضح ہے۔ 1959ء کی ’’شریف کمیشن رپورٹ‘‘ میں اس تعلیمی منصوبے کے خدوخال واضح تھے جس پر پاکستان کے مستقبل کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ اس رپورٹ کے بہت سے حصوں پر عمل ہوا اور ملک نے تعمیر و ترقی کے کئی سنگ ِمیل عبور کیے لیکن بہت سے اہداف حاصل نہ کیے جاسکے۔اگرہم 2025ء کے پاکستان کی تعلیم و ترقی کا جائزہ لیں تو اس حوالے سے ایک ملی جلی سی صورت ِحاصل نظرآتی ہے۔
پاکستان 2025ء میں تاریخ کے بدترین موسمی و قدرتی حالات سے گزرا۔ پنچاب کےتعلیمی ادارے سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے۔ مختلف اداروں کی رپورٹوں کے مطابق بیس ہزار سے زائد اسکول جزوی یا مکمل طور پر متاثر، ہزاروں عمارتیں ناقابل ِ استعمال اور لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہوگئے۔ سوات میں 128؍اسکول جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ آج ان علاقوں میں طلبہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر اسکولوں کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبہ پنجاب میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے (یعنی صوبے کے اسکول جانے والے 96؍فی صد بچے) تعلیم سے محروم ہوئے یا ان کا تدریسی سلسلہ رکاوٹ کا شکار رہا۔
شدید متاثر اضلاع جیسے سوات میں تمام سرکاری اور نجی اسکول بند کر دیئے گئے تھے۔ لیکن 128؍متاثرہ اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں مکمل نہ ہو سکیں جس سے تعلیم کو شدید نقصان پہنچا۔ طلبہ کی نصابی کتب اور دفاتر کا ضروری سازوسامان پانی کے ریلے میں بہ گیا۔
مثال کے طور پر مینگورہ (ضلع سوات)میں ’’ادھیانہ بازار‘‘ جو اسکول کی کتابوں اور اسٹیشنری کا سب سے بڑا مرکز تھا، مکمل طور پر زیر ِآب آگیاجس سے ہزاروں بچے اپنے تعلیمی سازوسامان سے محروم ہوگئے۔ تعلیمی مواد کے ضیاع، معاشی مشکلات اور بے گھری نے والدین کے لیے تعلیم کو ثانوی ترجیح بنا دیا۔
سیلاب میں تباہ حال عمارتوں کے انہدام کے خوف نے بچوں کے لیے تعلیم پر توجہ دینا مشکل تر کردیا، جس سے ان کے تعلیمی عمل میں مزید رکاوٹ دیکھی گئی، جب تک متاثرین ِسیلاب کی مستقل سکونت اور آبادکاری کا سنگین مسئلہ حل نہیں ہوتا، اسکولوں میں تعلیم و تعلّم کا سلسلہ شروع نہیں کیا جاسکتا۔
جب ہم تعلیمی مساوات کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے نجی اسکولوں (پرائیوٹ سیکٹر) اور گورنمنٹ اسکولز و کالجز کی تقسیم پر نظر جاتی ہے جو عدم مساوات پر مبنی ہے۔
اگر صرف اسکولوں کی بات کریں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے شہری علاقوں کے65؍فی صد طلبہ و طالبات نجی اسکولوں، جب کہ دیہی علاقوں کے71؍فی صد طلبہ و طالبات گورنمنٹ اسکولوں سے وابستہ ہیں۔
شہری علاقوں میں گورنمنٹ اسکولز میں طلبہ و طالبات کی شرح تشویش ناک حد تک کم ہے۔ اسے محکمہ ٔ تعلیم کی بدانتظامی کے سوا اور کیا کہاجا سکتا ہے۔گورنمنٹ اسکولوں میں کوئی فیس مقرر نہیں۔
تعلیمی بورڈ کی امتحانی فیسیں بھی حکومت کی جانب سے ادا کی جاتی ہیں۔مختصر یہ کہ سرکاری اسکولوں کے تدریسی نظام کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت 2025 میں بھی رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ، آدھا سال نکل جانے کے بعد کتب دست یاب ہوتی ہیں، جب کہ پرائیوٹ اسکولوں کا نصاب مختلف بھی ہوتا ہے اور ہمہ وقت دست یاب بھی، جس سے شرح ِتوازن غیر مستحکم ہے۔
اس طبقاتی نظام میں پاکستان کی معاشی صورت ِحال کا بھی دخل ہے۔یہ انتہائی تشویش ناک صورت ِحال ہے جسے آیندہ برسوں میں حل کرنا ناگزیر ہے ،ورنہ تعلیمی عدم مساوات کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔
ماہرین ِ نفسیات مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ تباہ حال اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جو مستقبل میں ان کی کارکردگی کو متاثر کرے گا۔
٭ خاندانوں اور تعلیمی نظام پر معاشی دباؤ
منہگائی کی شرح اور بنیادی سہولتوں میں کمی کے سبب والدین کی ترجیحات بدل گئی ہیں اور وہ تعلیم کے بجائے معاشی استحکام کی صورتوں پر غور کرتے رہے، اس سوچ کے نتیجے میں بچے تعلیم کو مکمل طو رپر ترک کرکے مزدوری اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تین برسوں کی شرح ِخواندگی کا جائزہ لیا جائے تو2025میں شرح ِخواندگی میں بتدریج کمی دیکھی گئی۔ دوردراز اور قدامت پسند علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی خبریں بھی سننے کو ملیں۔والدین کے سیکیورٹی خدشات اور سماجی رویے، خاص طور پر اسکولوں کے تباہ ہونے اور آمدورفت کے خطرات کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کے مزید محدود ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔
٭صوبہ بلوچستان کی تعلیمی صورت ِحال
دوردراز اور بکھری ہوئی آبادی کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرنا نہایت مشکل ا کام ہے۔ بلوچستان کے وسیع اور دشوارگزار علاقے صحرائی پٹی اور دورافتادہ دیہات اسکولوں تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے۔ اکثر علاقوں کی بستیاں سیکڑوں کلومیڑ کے فاصلوں پر واقع ہیں جہاں بنیادی سہولتیں جیسے سڑکیں، بجلی اور پانی تک دست یاب نہیں۔
ایسے میں بچوں کے لیے اسکول جانا یا والدین کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنا عملی طور پر ممکن نہیں رہا، خصو صا دیہی علاقوں کے بیش تر بچے کبھی اسکول گئے ہی نہیں تو 2025 میں کیسے جاتے۔
اسکولوں کی تعداد آبادی اور رقبے کے تناسب سے بہت کم ہے، جہاں اسکول ہیں وہاں صرف پرائمری سطح تک تعلیم دی جاتی ہے۔ مڈل اور ہائی اسکول بہت محدود اور اکثر شہروں یا بڑے قصبوں تک ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچے پرائمری کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائے، کیوں کہ قریبی علاقے میں اگلا تعلیمی ادارہ موجود ہی نہیں۔
تعلیمی معیار کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا عنصر اساتذہ کی کمی اور ان کی غیرحاضری ہے۔ اکثر اسکولوں میں ایک دو اساتذہ ہیں جو تمام کلاسوں کو پڑھاتے ہیں۔ یہ ایک دشوار کام ہے لیکن پھر بھی 2025ء میں بلوچستان کے صوبائی وزیر نے اہم اقدامات کیے اور ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اسکولوں کو ایک مربوط نظام سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے۔
٭صوبہ سندھ
سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، یہاں کراچی، حیدرآباد اور سکھر جیسے شہروں میں ملک کی قدیم ترین جامعات اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے، تاہم سندھ میں تعلیم کا منظرنامہ بہت متضاد ہے۔ ایک طرف شہری علاقوں میں نمایاں پیش رفت دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف دیہی سندھ میں تعلیم کا شعبہ شدید مسائل اور زوال کا شکار ہے۔ کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں تعلیم کے میدان میں کافی ترقی دیکھی گئی۔
نجی تعلیمی ادارے، انگریزی میڈیم اسکول اور اعلیٰ تعلیمی جامعات نے معیار اور مواقع فراہم کیے۔ کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی نے ہزاروں ماہرین پیدا کیے۔ نجی شعبے نے شہری علاقوں میں تعلیم کے معیار کو بلند کیا اور والدین کو انتخاب کے مواقعے فراہم کیے۔
نیز اس برس نئی جامعات کے قیام نے بہت فعال کردار ادا کیا۔ ہمدرد یونیورسٹی کے ساتھ دیگر پرائیوٹ یونیورسٹیز، جن میں میڈیکل یونیورسٹی قابل ِذکر ہیں، ان کی کارکردگی بہتر رہی، البتہ دیہی سندھ کی صورت حال بہت ابتر ہے۔ اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی غیر حاضری، بنیادی سہولتوں کی عدم دست یابی اور والدین کی بے ترغیبی کے باعث لاکھوں بچے اسکولوں سے محروم رہے۔
2025 میں سندھ کے تعلیمی نظام پر سب سے بڑا منفی اثر سیاسی مداخلت کارہا۔اساتذہ کی بھرتیوں پر سوالات اٹھائے جاتے رہے۔ تعلیم کا شعبہ ایسا ہے کہ جس میں اساتذہ کی تقرری کو نہایت شفاف رکھنا ضروری ہے۔
بعض اسکولز ایسے بھی دیکھے گئے جہاں متعلقہ مضامین کے اساتذہ کا تقرر ہی نہیں کیا گیا۔ مثلاً دیہی علاقوں میں سائنس کے مضامین کے اساتذہ کی کمی قابل ِذکر دیکھی گئی، اکثر میرٹ کے بجائے سیاسی تعلقات کی بنا پرکیے گئے۔ اس کے علاوہ اسکولوں کے بجٹ اور فنڈز بھی بدانتظامی یا کرپشن کی نذر ہوئے۔
اگرچہ شہری سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم میں اضافہ ہوا لیکن دیہی علاقوں میں ہمیشہ کی طرح والدین اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے رہے۔ سماجی رویے اور سیکیورٹی مسائل نے اس کمی کو مزید بڑھاوا دیا۔ سندھ کے ہزاروں اسکول ایسے ہیں جہاں چہاردیواری، بیت الخلأ، پینے کا پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔
بچے کھلے آسمان کے نیچے پڑھنے پر مجبور ہیں۔ گرمیوں اور سردیوں میں یہ مسئلہ زیادہ شدید ہوجاتا ہے اور بچے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں غربت عام ہے۔ والدین اکثر بچوں کو پڑھانے کے بجائے مزدوری پر لگانا زیادہ پسند کرتے ہیں تاکہ گھر کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔
اس لیے غریب افراد کے بچے عام طور پر اسکولوں سے دور ہی رہتے ہیں، نیز وڈیرے اور جاگیردار بھی بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ کسانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بہ جائے کھیتوں پر کام کرنے کے لیے بھیجیں لیکن2025 میں جہاں ان مسائل پر قابو پایا گیا وہاں نتائج بیتر رہے۔مثلاً دادو اور بدین میں بورڈ کے امتحانات میں نتائج نمایاں رہے۔
صوبے میں دہرا تعلیمی نظام سے سماجی اور معاشی عدم مساوات کے احساس میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات جیسے طوفانی بارشیں اور سیلاب بھی تعلیمی ڈھانچے کو شدید طور پر متاثر کرتے ہیں، ایسا 25میں زیادہ دیلھنے میں آیا۔
مجموعی طور پر صوبہ سندھ میں تعلیم کی صورت ِحال کی ملی جلی تصویر نظر آئی۔ شہری سندھ میں ترقی، نجی شعبے کی شمولیت اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک مثبت رخ دکھائی دیا لیکن دیہی سندھ میں، گھوسٹ اسکولوں کا پھیلاؤ، بنیادی سہولتوں کی کمی اور غربت نے تعلیم کو شدید طور پر متاثر کیا۔
اگرچہ کچھ پیش رفت بھی ہوئی لیکن بڑے پیمانے پر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ سال کے آخر میں بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں حاضری کا بایومیٹرک طریق ِکار اختیار کیا گیا، جس کی وجہ سے اساتذہ کی حاضری میں نمایاں اضافہ ہوا، کچھ کالجوں میں ڈیجیٹل کتب خانوں کی بنیاد بھی رکھی گئی، جس نے مستقبل کے لیے امید کے نئے درواکیے ہیں، کیوں کی کمپیوٹر اور دیجیٹل پیش رفت کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
٭صوبہ پنجاب میں تعلیم کی صورت ِحال
تعلیم کے میدان میں پنجاب کی پیش رفت دیگر صوبوں کے مقابلے میں نمایاں رہی۔ پرائمری اور مڈل اسکولوں کے جال کو دیہی علاقوں تک بڑھایا گیا، شہروں میں تعلیمی اداروں کی توسیع کی گئی۔ اسکولوں کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل سسٹم متعارف کرایا گیا جس کے تحت اساتذہ کی حاضری اور کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے۔
اس اقدام سے گھوسٹ اسکولوں اور غیر حاضر اساتذہ کے مسئلے میں خاطر خواہ کمی ہوئی،اس کے علاوہ تعلیمی بورڈ کے امتحانات کے انعقاد میں قابل ِقدر پیش رفت دیکھنے میں آئی۔IBCC کے تعاون سے امتحانات کو جدید خطوط پر استوار کیا گیااور طلبہ و طالبات کے مارکس سرٹیفیکیٹ کو اے لیول اور او لیول کی طرز پر منتقل اور اپ گریڈ کیا گیا۔
اس طرح نتائج مرتب کرنے میںEمارکنگ کو متعارف کرایا گیا۔اس کام یاب ترین تجربے کے ساتھ سینٹرلائز ایگزام سسٹم کو ممکن بنایاگیا۔ ان اقدامات سے پہلے فیڈرل بورڈ کے تعاون سے پیپر سیٹرز اور آئی ٹی منیجرز کی ٹریننگ کا سلسلہ بھی قائم کیا گیا۔ بعدازاں اس دائرے کو بڑھا کر ملک کے دیگر صوبوں تک پھیلادیا گیا۔
اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ 2025ء میں آنے والے سیلاب نے صوبہ پنجاب کے تعلیمی نظام کو شدید طور پر متاثر کیا تھا اور بہت سے اسکولوں کو سیلاب کے متاثرین کا کیمپ بنادیا گیا تھا، لیکن مجموعی طور پر ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں صوبہ پنجاب کی صورت، حال خاصی تسلی بخش رہی۔
٭صوبہ خیبرپختونخوا
خیبر پختونخوا پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس نے پچھلی دو دہائیوں میں کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کیا، جس میں دہشت گری، پس ماندگی، معاشی دباؤاور بسماجی مسائل نمایاں ہیں۔ ان چیلنجوں کے باوجو تعلیم کے شعبے میں کچھ نمایاں کام یابیاں حاصل کیں۔
اہم پیش رفت اسکولوں کی تعمیر و بحالی کے منصوبے ہیں۔ خاص طور پر 2009ء کے بعد جب دہشت گری کے خلاف آپریشن ہوئے اور سیکیورٹی کی صورت ِحال میں بہتری آئی تو حکومت نے تعلیم کے ڈھانچے کو دوبارہ مضبوط کرنے پر زور دیا۔ ہزاروں اسکول جو دہشت گری یا بدامنی کے دوران تباہ ہوگئے تھے، دوبارہ تعمیر کیے گئے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی صورت ِحال میں کچھ بہتری پیدا ہوئی۔
بایومیٹرک سسٹم کے نفاذ سے اساتذہ کی حاضری میں نمایاں اضافہ ہوا۔اس سسٹم کے ذریعے سے اساتذہ اور طلبہ کی کارکردگی کو چیک کرنے کا طریق ِکار بھی وضع کیا گیا۔ اس طرح گھوسٹ اسکولوں کے مسئلے پر قابو پانے میں خاطرخواہ کام یابی حاصل ہوئی۔ پرائمری سطح پر داخلوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا۔
والدین کو تعلیم مکی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف مہم چلائی گئیں، اس کے علاوہ وظیفوں سے بچوں کو اسکول کی جانب راغب کیا گیا، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اسکولوں کی تعداد بڑھائی گئی۔
دوردراز کے علاقوں میں لڑکیوں کے علحیدہ اسکول قائم کیے گئے۔ معیار ِتعلیم میں خاطرخواہ بہتری دیکھی گئی۔ بورڈز کے امتحانات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے IBCCکی مدد سے 2025ء کے امتحانات کو موثر بنانے کی کوشش کی گئی اور نتائج کی تدوین کے لیے ڈیجیٹل سسٹم کو اختیار کیا گیا۔
اگرچہ خیبرپختونخوا میں داخلوں میں اضافہ ہوا لیکن معیار ِتعلیم اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ کئی اسکولوں میں اساتذہ جدید تدریسی طریقے استعمال نہیں کرتے اور نصاب پرانا اور غیر موثر ہے۔
شہری علاقوں جیسے پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں تعلیم کا معیار بہتر ہے لیکن دیہی اور قبائلی علاقوں میں صورت ِ حال بہت مختلف ہے، وہاں اسکولوں کی کمی، سہولتوں کا فقدان اور اساتذہ کی غیرحاضری جیسے مسائل عام ہیں۔ گر چہ اساتذہ کی حاضری کو موثر بنانے کے اقدامات کیے گئے۔
٭تعلیمی اعداد و شمار: ۔ 2024ء۔2025 ء
ملک بھر میں مجموعی طور پر اسکول نہ جانے والے بچوں کا تناسب 38؍فی صد لڑکوں اور 42؍فی صدلڑکیوں کا ہے۔ صوبہ پنجاب میں شرح 32؍فی صد، خیبرپختونخواہ میں 30؍ فی صد، سندھ میں 47؍فیصد اور بلوچستان میں69؍فی صد ہے۔
مالی سال 2025ء میں ایچ ای سی کو پبلک یونیورسٹیوں میں159؍ترقیاتی منصوبوں (138؍جاری،12؍نئے)کے لیے1.61؍بلین روپے مختص کیے گئے جن میں لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 12؍ارب روپے بھی شامل ہیں۔ جولائی تا اپریل مالی سال 2025ء کے دوران میں6.32؍ملین روپے جاری کیے گئے۔
ایچ ای سی نے عالمی بینک کے تعاون سے 400؍ملین امریکی ڈالر سے ہائر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پروگرام آئی ٹی ، شروع کیا گیا جس کا مقصد پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی تیکنیکی ڈھانچے کو نمایاں طور پر اپ گریڈ کرنا ہے۔
اِس خطیر رقم میں پاکستان کے تمام بورڈز کے امتحانات کو E-Markingکی طرف لانا بھی شامل ہے، نیز امتحانی نظام کو جدید تقاضوں کے تحت تبد یل کرنا قابل ِزکر ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے تمام تعلیمی بورڈز کو جدید مشینیں فراہم کردی گئی ہیں۔
تمام تر ترقی کے باوجود 2025 میں بھی ہم اپنے اصلی ہدف سے بہت دور ہیں۔ اس سلسلے میں چند تجاویز زیر نظر ہیں:
(۱)پورے ملک میں یک ساں نظام ِتعلیم رائج کیا جائے۔ پاکستان میں روایتی اور کیمبرج نظامِ تعلیم دو الگ دنیاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیمبرج مہنگا ضرور ہے لیکن طلباء کو تنقیدی سوچ، اعتماد اور قیادت جیسی صلاحیتیں دیتا ہے۔
روایتی نظام تعلیم کو اگر اصلاحات کے ذریعے جدید خطوط پر استوار کر دیا جائے تو نہ صرف یہ طبقاتی فرق کم ہوگا بلکہ طلباء کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بھی بنایا جا سکے گا۔
دنیا کی پہلی 500 جامعات میں پاکستان کی صرف دو جامعات
کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2025 میں پاکستان کی صرف دو جامعات دنیا کی پہلی 500 جامعات میں شامل ہو سکیں: قائداعظم یونیورسٹی 354ویں نمبر پر اور نسٹ (NUST) 371ویں نمبر پر، جو پاکستان میں تحقیق اور تعلیمی معیار میں پیش رفت کو ظاہر کرتا ہے۔
مجموعی طور پر 9 پاکستانی جامعات دنیا کی پہلی 1000 جامعات میں شامل ہوئیں جن میں یونیورسٹی آف دی پنجاب (542)، لمز (555)، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (654) اور کومسیٹس (664) نمایاں ہیں۔ پی آئی ای اے ایس (PIEAS) 721–730 کی رینج میں آئی، جبکہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یو ای ٹی لاہور، یونیورسٹی آف پشاور اور یونیورسٹی آف لاہور بھی فہرست میں شامل ہیں۔
کیو ایس ایشیا یونیورسٹی رینکنگ 2025 میں پاکستان کی یونیورسٹیاں شامل ہوئیں، جن میں نسٹ اسلام آباد 67ویں اور قائداعظم یونیورسٹی 84ویں نمبر پر رہیں، دونوں ایشیا کی پہلی 100 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
دیگر نمایاں اداروں میں لمز، کومسیٹس اور پنجاب یونیورسٹی شامل ہیں جو پہلی 150 میں موجود ہیں، جبکہ یو ای ٹی لاہور اور آغا خان یونیورسٹی سمیت دیگر کئی ادارے پہلی 800 میں آتے ہیں۔
تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان بھی ایک سراب تھا
30 اپریل 2024ء کو وزیراعظم نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ اس کا نوٹیفکیشن ایک ہفتے بعد‘ سات مئی کو جاری ہوا تھا۔ نوٹیفکیشن میں چودہ اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا اور ان پر عملدرآمد کی تکمیل کیلئے مختلف ڈیڈ لائنز مقرر کی گئی تھیں۔
ٹاسک فورس کے قیام کیلئے پندرہ دن کا وقت دیا گیا تھا لیکن یہ ٹاسک فورس 48 دن بعد‘ 25 جون 2024ء کو تشکیل دی گئی۔ تعلیم کیلئے بجٹ (وفاقی؍ صوبائی) کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانے کی کوشش کی جانی تھی۔ دلچسپ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود تعلیم پر اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہو گئے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کو ایک سال سے زائد عرصہ بیت چکا‘ اس دوران اس کا صرف ایک اجلاس منعقد ہوا۔ ا س فورس نے تین ماہ کے اندر نیشنل ایکشن پلان بنا کر وزیراعظم کو پیش کرنا تھا مگر یہ پلان ایک سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بن سکا۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان بھی ایک سراب تھا۔ تعلیمی ایمرجنسی پر عملدرآمد تو دور کی بات‘ اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا، گویا رات گئی بات گئی۔
خوش نما اعلانات کی نہیں سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے
پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں رسائی‘ معیار اور مطابقت کے حوالے سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اکنامک سروے کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق دو کروڑ اکیاون لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پاکستان میں اسکولوں‘ اساتذہ اور سہولتوں کی شدید کمی ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے کیلئے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کی سفارشات کے مطابق تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد حصہ خرچ ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے بلند بانگ حکومتی دعوؤں کے باوجود تعلیم کے شعبے کو کبھی مناسب فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔
تعلیمی اخراجات کے رجحان کو سمجھنے اور اکنامک سروے میں درج اعداد وشمار کا تنقیدی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم پر جی ڈی پی کے تناسب سے اخراجات میں سال بہ سال مسلسل کمی ہوئی ہے۔
2018-19ء میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 2.0 فیصد‘ 2019-20ء میں 1.9 فیصد‘ 2020-21ء میں 1.4 فیصد‘ 2021-22ء میں 1.7 فیصد اور 2022-23ء میں 1.5فیصد بجٹ مختص کیا گیا۔
حیرت انگیز طور پر 2023-24ء کے مالی سال کیلئے تفصیلی اخراجات کے اعداد وشمار فراہم نہیں کیے گئے‘ جو نہ صرف حیران کن امر ہے بلکہ شفافیت اور تعلیمی منصوبہ بندی کی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ 2024-25ء میں تعلیمی اخراجات جی ڈی پی کا محض 0.8 فیصد ہیں‘ جو اب تک تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم کی کم ترین سطح ہے۔
اکنامک سروے کے مطابق یہ اعداد وشمار جولائی 2024ء سے مارچ 2025ء تک کے ہیں اور آخری سہ ماہی (اپریل تا جون) کے اعداد وشمار دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ تناسب بڑھ بھی سکتا ہے‘ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ 2022-23ء کے تناسب یعنی 1.5 فیصد سے کم ہی رہے گا۔
2024-25ء کے بجٹ میں یہ شرح مزید کم ہوگئی۔ اکنامک سروے کے حالیہ اعداد وشمار سے صاف ظاہر ہے کہ شرحِ خواندگی اور تعلیم پر اخراجات میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے اور جنس (Gender)‘ صوبوں اور شہری؍ دیہی تفریق کی بنیاد پر تعلیمی عدم مساوات مزید بڑھ گئی ہے۔
یہ صورتحال فوری‘ سنجیدہ اور عملی اقدامات کی متقاضی ہے‘ جن میں تعلیمی بجٹ کو کم از کم جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانے‘ صوبوں میں استعدادِ کار میں اضافہ‘ تعلیمی نصاب اور ڈھانچے میں تبدیلیاں لا کر تعلیم کو فروغ دینا اور بین الصوبائی رابطوں کو مضبوط کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے خوش نما اعلانات کے بجائے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ خوش رنگ وعدوں کے تو ہم عادی ہو چکے۔