جنازے کو لے کر چلنے کا طریقہ

December 08, 2023

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے علاقے میں نمازجنازہ کے بعد جنازے کو چہل قدمی کے لیے ہاتھوں پر اس طرح لے جاتے ہیں کہ سرہانے اور پیروں کی طرف سے دو دو آدمی ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں اور آیۃ الکرسی پڑھتے ہوئے چلتے ہیں، جب آیۃ الکرسی ختم ہوجاتی ہے تو چارپائی رکھ کر سرہانے والے بندے، پیروں کی طرف اور پیروں کی طرف والے بندے، سرہانے کی طرف چلے جاتے ہیں ،آیۃ الکرسی پڑھتے ہوئے چلتے ہیں ، پھر چارپائی کو رکھ کر سرہانے کے دائیں طرف والا ،پیروں کے بائیں طرف چلا جاتا ہے اور سرہانے کے بائیں طرف والا پیروں کی دائیں طرف چلا جاتا ہے، پیروں کے دائیں طرف والا سرہانے کے بائیں طرف اور بائیں طرف والا سرہانے کے دائیں طرف ہوجاتا ہے، پھر سے چارپائی کو ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں اور پھر چوتھی بار سرہانے کے طرف والے پاؤں کی طرف اور پاؤں کی طرف والے سرہانے کی طرف ہوجاتے ہیں ، اس طرح چارپائی کو پھر سے ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں۔ اس بار چارپائی کو نیچے رکھتے ہیں ،پھر کاندھوں پر اٹھالیتے ہیں اور قبرستان تک کاندھوں پر لے جاتے ہیں ،کیایہ طریقہ جائز ہے ،(سید محمد حنیف شاہ ، بدین سندھ)

جواب: رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ایک حق اس کے جنازے میں شریک ہونا فرمایا ہے : حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں:(رسول اللہ ﷺ نے ) ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے کا حکم فرمایا،(صحیح بخاری:1239)‘‘۔

حدیث پاک میں جنازے کو چالیس قدم لے کر چلنے پر جنازے میں شریک مسلمانوں کی مغفرت کی نوید سنائی گئی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’جس نے کسی مسلمان کے جنازے کے چاروں کونوں کو اٹھایا تو اس (کی جزا کے طور پر) اللہ تعالیٰ اس کے چالیس کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے گا،(اَلْمعجم الأَوسط للطبرانی:5920)‘‘۔

آپ نے جنازہ لے کرچلنے کا جو طریقہ سوال میں درج کیا ہے ، وہ مسنون طریقے کے خلاف ہے ، سنّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنّت یہ ہے کہ میّت اٹھانے والا میّت کی اگلی دائیں طرف پہلے اپنے دائیں شانے پر اٹھائے، پھر میّت کی پچھلی دائیں طرف اپنے دائیں شانے پر اٹھائے ،پھر اگلی بائیں طرف اپنے بائیں شانے پر،بعدازاں پچھلی بائیں طرف اپنے بائیں شانے پر اٹھائے۔

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ :’’کمالِ سنّت ایک ہی صورت میں متحقق ہوگی کہ جنازہ اٹھانے والا میت کی اگلی دائیں طرف اپنے دائیں شانے پر اٹھائے جیسا کہ’’ تاتارخانیہ ‘‘میں ہے ،پھر میت کی پچھلی دائیں طرف اپنے دائیں شانے پراٹھائے ، پھراگلی بائیں طرف اپنے بائیں شانے پر اور پھر پچھلی بائیں طرف اپنے بائیں شانے پر اٹھائے ،ــ’’ تبیین الحقائق ‘‘ میں اسی طرح ہے،(فتاویٰ عالمگیری ،جلداول،ص:162)‘‘۔

آپ نے سوال میں مزید لکھا :’’چوتھی بار سرہانے کے طرف والے پاؤں کی طرف اور پاؤں کی طرف والے سرہانے کی طرف ہوجاتے ہیں ، اس طرح چارپائی کو پھر سے ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں ۔اس بار چارپائی کو نیچے رکھتے ہیں ،پھر کاندھوں پر اٹھالیتے ہیں اور قبرستان تک کاندھوں پر لے جاتے ہیں ‘‘، یہ طریقہ خلافِ سنّت ہے، جنازے کی چارپائی کو ہاتھوں پر اٹھانے کے بجائے کندھوں پر اٹھایا جائے، مسنون طریقہ یہی ہے، البتہ اگر پست آواز سے آیۃ الکرسی پڑھتے ہوئے جائیں ،تو اس کی ممانعت نہیں ہے، کارِ ثواب ہے، صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمیؒ نے یہ بتایا ہے: ’’ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کو سکوت کی حالت میں ہونا چاہیے، موت اور اَحوال واَہوالِ قبر کوپیش نظر رکھیں،دنیا کی باتیں نہ کریں، نہ ہنسیں اور ذکر کرنا چاہیں تو دل میں کریں اوربلحاظ حال زمانہ اب علماء نے ذکرِ جہر کی بھی اجازت دی ہے ،(بہارِ شریعت ،جلد1، ص:824)‘‘۔